تمنا بانو
لنکرنسر، راجستھان
درحقیقت ملک کی ترقی میں تمام شعبے برابر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن اس میں سب سے بڑا کردار سڑکوں کا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خستہ حال سڑک سے ترقی نہیں گزر سکتی۔ یعنی جن علاقوں میں سڑکیں اچھی نہیں ہے وہاں ترقی کی رفتار دیگر علاقوں کے مقابلے سست رہتی ہے۔ سرمایہ کاری جسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، اس سڑک کی بہتری پر منحصر ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہتر سڑکیں ترقی کی علامت ہیں۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی کی سابقہ حکومت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔نہ صرف قومی شاہراہوں کی حالت بہتر ہوئی بلکہ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت گاؤں گاؤں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ موجودہ مودی حکومت میں مرکزی سڑک، ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر جناب نتن گڈکری بھی ملک میں سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ان کی یہ محنت زمین پر بھی نظر آتی ہے۔آج ملک میں سڑک ریلوئے سے زیادہ بہتر حالت میں ہے۔لیکن ملک کے کئی دیہی علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں سڑکوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ جہاں پکی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں کو آئے روز مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک علاقہ راجستھان کے بیکانیر میں لنکرنسر بلاک کا دھانی بھوپالرام گاؤں ہے۔ جہاں آج بھی کچی سڑکوں کی وجہ سے نہ صرف گاؤں کی ترقی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے بلکہ گاؤں والوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کے ایک رہائشی 47 سالہ بلورام جاٹ کا کہنا ہے کہ تقریباً دو ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں پکی سڑک کا نہ ہونا مشکل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ گاؤں کی مرکزی سڑک ہے جو اسے بلاک ہیڈ کوارٹر سے جوڑتی ہے۔ یہ سڑک تقریباً آٹھ سال قبل تعمیر کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اس کی کبھی مرمت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ سڑک ناقابل عبور ہو چکی ہے۔
گاؤں کے ایک 26 سالہ معذور راجا رام کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں میں پولیو کا شکار ہے۔ اسے حکومت سے ہاتھ سے چلنے والی سائیکل مل گئی ہے لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے وہ اسے کہیں جانے کے لیے استعمال کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں کی واحد سڑک پر اتنے گڑھے ہیں کہ ان جیسے معذور شخص کے لیے اس سے گزرنا بہت مشکل ہے۔بارش کے دنوں میں تو وہ اس کی وجہ سے گھر سے نکلتے بھی نہیں ہیں۔سڑک کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس سے گزرنے والی گاڑی اور اس پر بیٹھے مسافروں کی جان کو خطرہ لاحق رہتاہے۔ ایسی صورت حال میں مریض کو ہسپتال لے جانے کے دوران لواحقین کو کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہ ہی کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے گاؤں کی 28 سالہ ویملا کا کہنا ہے کہ اس خراب سڑ ک کی وجہ سے اسے ڈیلیوری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ٹوٹی سڑک کی وجہ سے ایمبولینس درمیان میں ہی خراب ہو گئی۔ اس کے ڈرائیور نے آنے سے منع کر دیا۔ ان کی ڈلیوری کا درد بڑھتا دیکھ کر اہل خانہ نے کسی طرح اسپتال جانے کے لیے گاؤں میں ہی ایک پرائیویٹ گاڑی بک کرائی۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ گاڑی میں بیٹھ کراس سڑک سے گزری تو بڑے گڑھوں کی وجہ سے ان کی حالت مزید خراب ہونے لگی۔ کسی طرح وہ ہسپتال پہنچ سکیں تھی۔ وملا کا کہنا ہے کہ گاؤں کی زیادہ تر حاملہ خواتین ڈیلیوری کا وقت قریب آنے پر اپنے گھر چلی جاتی ہیں، لیکن جوخاتون کسی وجہ سے نہیں جا پاتی ہیں، انہیں اسپتال جانے میں سب سے زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ اس خستہ حال سڑک نے گاؤں کی ترقی روک دی ہے۔
خستہ حال سڑک نے نہ صرف معیشت بلکہ گاؤں کی لڑکیوں کی تعلیم کو بھی متاثر کیا ہے۔ 17 سالہ مالتی کا کہنا ہے کہ اپنی 12ویں جماعت کی تعلیم کے لیے اسے 8 کلومیٹر دور لنکرنسر بلاک میں واقع ہائی اسکول جانا پڑتا۔ لیکن سڑک خراب ہونے کی وجہ سے بہت کم مسافر گاڑیاں گاؤں سے گزرتی ہیں۔ مالی حالت اتنی اچھی نہیں کہ والدین اسے اسکوٹر دلوا سکیں۔ جس کی وجہ سے اسے دسویں کے بعد تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ بعض مقامات پر سڑک کی اینٹوں سے مرمت کی گئی ہے لیکن جب تک پوری سڑک کو بہتر نہیں کیا جاتا لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔ 52 سالہ رہائشی پریم ناتھ جاٹ کا کہنا ہے کہ یہ سڑک آٹھ سال قبل بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت بنائی گئی تھی لیکن اس کے بعد آج تک اس کی مرمت نہیں کی گئی۔ جس کے نتیجے میں یہ سڑک آہستہ آہستہ خستہ حال ہوتی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ رات میں گاؤں کے لوگ اس سڑک سے اسی وقت آتے اور جاتے ہیں جب بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر انتظامیہ نے اس طرف توجہ نہ دی اور سڑک کی مرمت نہیں کی گئی تو یہ گاؤں ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جائے گا۔ ایک اور دیہاتی ونود کا کہنا ہے کہ گاؤں میں پانی کا بہت مسئلہ ہے۔ اس کے لیے بلاک سے پانی کا ٹینکر منگوانا پڑتا ہے لیکن ٹوٹی پھوٹی سڑک کی وجہ سے ٹینکر میں آدھے سے زیادہ پانی باہرہی گر جاتا ہے۔ جہاں اس سے پانی کا ضیاع ہوتا ہے، وہیں گائوں والوں کو اکثر دوبارہ پانی حاصل کرنے کے لیے اضافی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔
اس سلسلے میں گرام سیوا کوآپریٹیو کمیٹی ،ڈھانی بھوپلارام کے صدر آسورام کا کہنا ہے کہ اس سڑک کے لیے 50 فٹ جگہ چھوڑی گئی تھی لیکن اسے صرف 20 فٹ میں بنایا گیا ہے۔ یہ چھوٹا اور ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں کو آئے روز پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس سڑک کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے تو اسے منریگا کے تحت بھی تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے جہاں سڑک کی حالت بہتر ہوگی وہیں لوگوں کو منریگا کے تحت کام بھی ملے گا۔ آسورام کا کہنا ہے کہ گاؤں کی اس سب سے بڑی ضرورت کو پنچایتی راج اداروں کے ذریعے جلد پورا کیا جانا چاہیے کیونکہ سڑکیں ہی واحد ذریعہ ہے جو ترقی کے نئے دروازے کھولنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ نہ صرف آمدورفت کا ذریعہ ہے بلکہ اس سڑک سے تعلیم، صحت اور معیشت بھی جڑی ہوئی ہے۔ (چرخہ فیچرس)