سری نگر، // وادی کشمیر کی روایتی دستکاری پیپر ماشی کی شان رفتہ کی بحالی کے لئے اس منفرد آرٹ کے کاریگر ایرانی آرٹ ورک کو ملا کر اس کی جان میں نئی روح پھونک رہے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے خریدار پیپرماشی کی مصنوعات خریدنے میں گہری دلچپسی ظاہر کر رہے ہیں۔
دستکاروں کا یہ نیا تجربہ انتہائی ثمر آور ثابت ہو رہا ہے جس سے جہاں اس آرٹ کی بحالی کی امیدیں جاگزیں ہوئی ہیں وہیں اس کی متعدد نئی اقسام سامنے آنے سے اس کا مارکیٹ بھی وسیع تر ہو رہا ہے۔
سری نگر کے جڈی بل علاقے سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ دستکار نعیم میر جو ‘اختر میر اینڈ بردرس’ نامی پیپر ماشی کارخانہ چلا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ پہلے یہ آرٹ کچھ ڈیزائنوں تک ہی محدود تھا لیکن ایرانی آرٹ ورک کی آمیزش سے اس کے ڈیزائنوں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔انہوں نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کہا: ‘پہلے پیپر ماشی کچھ ڈیزائنوں جیسے ہزاراں (ہزار پھول)، گل اندر گل وغیرہ تک ہی محدود تھا لیکن اب ایرانی آرٹ ورک کی آمیزش سے اس کے ڈیزاینوں کا دائرہ کافی وسیع ہوا ہے’۔
نعیم جنہوں نے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے، نے کہا کہ اب پیپر ماشی کا مارکیٹ بھی وسیع تر ہوا ہے۔انہوں نے کہا: ‘ کرسمس تہوار کے دوران کشمیر کی پیپر ماشی پہلے صرف یورپی ممالک تک ہی محدود تھی لیکن ایرانی آرٹ ورک کی آمیزش کے بعد اب پہلی بار مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی اس کی خریداری میں دلچسپی لے رہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا: ‘سال گذشتہ سے ہمیں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی آرڈرس موصول ہو رہے ہیں لیکن امسال تو مختلف ڈیزائنوں کے لئے آرڈرس بڑی تعداد میں آ رہے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ اس سال ہمیں 80 فیصد آرڈرس مشرق وسطیٰ سے ہی حاصل ہوئے ہیں جبکہ یورپی ممالک سے پہلی بار صرف 20 فیصد آرڈر ملے ہیں۔
موصوف کاریگر نے کہا کہ ہم نے مخلتف قسم کے پیپر ماشی مصنوعات مشرق وسطیٰ بر آمد کئے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘ہم نے ان کی ضرورت کے مطابق پیپر ماشی کے مختلف مصنوعات جیسے بال، ستارے، چاند، اونٹ جن کے پس منظر میں صحرا کا آرٹ ورک ہے، کو مشرق وسطیٰ بر آمد کیا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں بھی اس آرٹ کا مارکیٹ دوبارہ بڑھنے لگا ہے اور ملک کے لوگ بھی گھروں کی آرائش و زیبائش کے لئے چینی مصنوعات کے بجائے کشمیری پیپر ماشی کی مصنوعات کو استعمال کرنے لگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ پیپر ماشی کے مصنوعات کو زیادہ خوبصورت اور ماحولیات کے لئے بہتر تصور کر رہے ہیں۔
نعیم میر نے کہا کہ کشمیر میں گذشتہ پانچ برسوں سے ایک نیا رجحان شروع ہوا ہے کہ لوگ شادی بیاہ کی تقریبات کے دوران مہمانوں کے لئے میوہ ڈبوں کے طور پر پیپر ماشی کے خوبصورت ڈبوں کا استعمال کرتے ہیں جس سے اس دستکاری مزید فروغ ملا ہے۔انہوں نے کہا: ‘پہلے پیپر ماشی دستکار مشکل سے ہی دو وقت کی روٹی کی سبیل کر سکتے تھے لیکن اب ان کا کام بڑھ گیا ہے اور اچھی خاصی آمدنی ہو رہی ہے’۔پیپر ماشی کے قومی ایوارڈ یافتہ کاریگر اقبال خان کا کہنا ہے کہ وادی میں پیپر ماشی کا آرٹ ترقی پذیر ہے۔انہوں نے کہا کہ کرسمس کے تہوار کے پیش نظر نہ صرف یورپی ممالک بلکہ دوسرے ممالک سے بھی کافی تعداد میں آرڈرس موصول ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ‘ہمیں کشمیر میں رہائشی مکانوں کے "ختمبند’ چھتوں پر پیپر ماشی کرنے کے آرڈر موصول ہو رہے ہیں جس سے اس آرٹ کو نئی زندگی ملی ہے’۔انہوں نے کہا: ‘تاہم ہمیں افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ نئی نسل میں اس آرٹ کے تئیں عدم دلچسپی پائی جا رہی ہے’۔
محکمہ ہینڈی کرافٹس کے ڈائریکٹر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ پیپر ماشی اب یہاں کے ہوٹلوں کے کمروں میں بھی کی جا رہی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور پر کشش نظر آ سکیں۔انہوں نے کہا کہ بیرون وادی کے سیاح بھی پیپر ماشی کے مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس آرٹ کے کاریگروں کو سپورٹ کرنے کے لئے مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔
تاریخی اعتبار سے پیپر ماشی کی دستکاری کو 14 ویں صدی میں معروف صوفی بزرگ حضرت میر سید علی ہمدانی (رح) نے کشمیر لایا تھا۔اس دستکاری کا شمار بھی کشمیر کی اہم اور رواہتی دستکاریوں میں ہوتا ہے۔اس کے عمل میں لکڑی کے سانچوں پر کاغذ کے گودے کا استعمال اور پھر بھر پور رنگوں کے ساتھ حتمی شکل کو احتیاط سے پینٹ کیا جاتا ہے۔