۰۰۰
محمد شفیق عالم مصباحی
البرکات اسلامک ریسرچ سنٹر
۰۰۰۰
قرآن مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:”اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی وہ اس وقت ایسا ہو جائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔ (حم السجدۃ ۳۳)
بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی بات بری لگ جاتی ہے۔ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو آدمی کے جذبات کو بھڑکا دیتے ہیں۔ ایسے موقع پر جواب کی دو صورتیں ہیں۔ ایک منفی رد عمل اور دوسرے مثبت رد عمل منفی رد عمل یہ ہے کہ ناخوش گوار بات پیش آئے تو آدمی کے اندر غصہ بھڑک اٹھے اور غصہ کے تحت وہ جوابی کارروائی شروع کر دے۔
اس قسم کی جوابی کارروائی صرف مسئلہ کو بڑھاتی ہے ، اس سے باہمی تلخیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ابتدائی مخالفت آخر کار دشمنی تک پہنچ جاتی ہے۔ جواب دینے والے نے اپنے خیال کے مطابق مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے جواب دیا تھا۔ مگر اس کا جواب فریق ثانی کو مزید بھڑکا کر مسئلہ میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے کوئی نا خوش گوار بات پیش آئے تو آدمی اس کے مقابلہ میں جوابی انداز اختیار نہ کرے ، وہ کبھی خاموشی اختیار کر لے اور اگر بولنا ہو تو وہ کڑوے بول کا جواب میٹھے بول سے دے۔
وہ انتقامی جذبہ کے تحت کارروائی کرنے کے بجائے اصلاحی جذبہ کے تحت اپنی مثبت کوششیں جاری کر دے۔ پہلا رویہ اگر دشمنی میں اضافہ کا سبب بنا تھا تو دوسرا رویہ دشمن کو دوست بنانے کا ذریعہ ثابت ہوگا، پہلے رویہ نے اگر مسئلہ کو بڑھایا تھا تو دوسرا رویہ مسئلہ کو جڑ سے ختم کر دے گا۔ انسان کے اندر ضمیر بھی ہے اور آنا بھی۔ اگر آپ کسی انسان کے ضمیر کو جگائیں تو ایسے انسان کوآپ اپنا دوست اور ہمدرد بنا لیں گے، اور اگر آپ ایسا رویہ اختیار کریں جو آدمی کی انانیت کو بڑھانے والا ہو تو برعکس طور پر یہ ہوگا کہ آدمی آپ کا مخالف اور دشمن بن جائے گا۔ ہر شخص کے اندر آپ کا ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے اور اسی کے ساتھ آپ کا دشمن انسان بھی، آپ کا ایک رویہ اس شخص کو آپ کا دوست بنا دیتا ہے اور دوسرا رویہ اس کو آپ کا دشمن ،اب یہ آپ کا اپنا حوصلہ ہے کہ آپ دونوں میں سے کسی کا انتخاب کرتے ہیں۔