اس وقت ملک جمہوریت سے منوسمرتی کی طرف بہت ہی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

0
188

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

مسلمانوں کاہرعمل واقدام اب موجودہ حکومت اوراس کے حامیوں کی نظر میں مشکوک ، ملک مخالف اورآتنک واد سے تعبیر ہے جبکہ کھلے عام ملک کو توڑنے، آپسی بھائی چارے کی فضاکوگندلا کرنے میں ہندوتوا کا جنون سرچڑھ کربول رہا ہے۔ چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور ، کرناٹک وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار معروف عالم دین مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی. نیان خیالات کا اظہارکیا۔
انہوں نے اپنی گفتگو کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت کو 1947ئ￿ میں ایک جمہوری نظام کے تحت چلنے والاملک تسلیم کیاگیاتھااورپرزورطریقے سیکیاگیاتھا، یہاں آبادتمام مذاہب کے حقوق کی یکساں وکالت کی گئی تھی، اورسب کو یکساں درجہ بھی دیاگیاتھا مگراب اِسی ڈیموکریٹک ملک میں دونظریہ کی لڑائی چل رہی ہے ، جس میں ایک کا مستقبل سخت خوفناک تودوسرے کا تابناک بنانے کی پیہم سعی کی جا رہی ہے ، ایک کوسرِعام کھلی آزادی ملی ہوئی ہے تو دوسرے کو اپنے حقوق کی بات بھی کرنادشوارہورہا ہے بلکہ حقوق کی بازیافت کی صدا کو "دیش ورودھی” جیسا لقب دے دیاجاتا ہے۔
انہوں نے افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہ ملک جمہوریت سے منوسمرتی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ، ڈیموکریسی کے نام پربنی پارٹیاں دیوالیہ ہورہی ہیں، پاور فل یعنی بیباک نیتا کہے جانے والے بھی اب جائے پناہ کی تلاش میں ہیں، اورایک کے بعد ایک قدآورنیتااپنی حیثیت کھو رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس
وقت ملک ایک فیصلہ کن موڑ پہ آکھڑاہوا ہے، اورپورے ملک میں دوطرف سے دو قسم کی لڑائی جاری ہے اورہرصورت نقصان اٹھانے والا یہی مسلمان ہے، ایک لڑائی سیاسی ہے جسے بی جے پی سے دیگر تمام پارٹیاں لڑرہی ہیں ، دوسری لڑائی ہندو مسلم کی ہے جسے ہندوؤں کی بعض تنظیموں کے علاوہ دھرم گرو اورصحافی مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، اوردونوں صورتوں میں مسلمانوں کاہی استحصال وخسارہ طے ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا مستقبل آگے کیسا ہوگا یہ سمجھنے کے لیے محض اتنا ہی کافی ہے کہ ہندوتوا تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف ہراقدام کے لیے تیار ہیں ، انہیں ہماری اذان و نماز پہ اعتراض تو ہے ہی اب اپنے حق کی بات بھی قابل گرفت ہوگئی ، پہلے ہمارے کھلے میں نماز پڑھنے پر انہیں کلفت ہوتی تھی اب گھر میں جمع ہوکرنماز پڑھنے میں بھی اعتراض کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں مسلمانوں سے نفرت جڑ پکڑ رہی ہے بلکہ پکڑچکی ہے بس لاوا بن کرپھوٹنے کا انتظار ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمیں گھبرانے اوراچھے حالات سے ناامید ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ حالات خود ہماری بیداری کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، جب ہم متحدہ طور پر بیدار ہوں گے ، وہیں سے ہمارا انقلاب بھی شروع ہوگا۔ ایسے مایوس کن حالات میں سب سے پہلی اوراہم ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جن کے ہاتھ میں قلم ، منہ میں زبان ، اورسوشل میڈیا یا دیگر ذرائع سے عوام میں مقبولیت وپکڑہو ، وہ میدان میں آئیں اوراپنی ملت کے روشن مستقبل کے لئے جدوجہدکریں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا