راجستھان کے دیہی علاقوں میں بہتر ہوتی صحت خدمات

0
0

 

 

 

آرتی
بیکانیر، راجستھان

اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی سرکاری اسکیم یا بنیادی سہولتیں ملک میں یکساں طور پر لاگو ہوتی ہیں لیکن وہ صرف شہروں تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔ ترقی کا پہیہ شہروں اور میٹرو سٹی میں ہی اٹکا ہوارہتا ہے۔ سماجی شعبہ ہو، ٹیکنالوجی کے فوائد، معاشی ترقی یا ترقی کی دوسری راہیں،انہیں شہروں سے دیہی علاقوں تک پہنچنے میں کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ دوسری جانب دیہی علاقے بدستور بنیادی ضروریات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر ہم ملک کے دور دراز دیہی علاقوں کی بات کریں تو یہ مسئلہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ جہاں کے مکینوں کو صحت کی سہولیات کے لیے بھی شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ اگرچہ دیہاتوں میں پرائمری ہسپتال ہیں، لیکن ان میں اکثر ابتدائی طبی امداد تک کی سہولیات کا فقدان ہوتاہے۔لیکن اب بدلتے وقت میں یہ سہولیات دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہونے لگی ہیں۔ خاص طور پر سڑکوں کی تعمیر سے بہت سے مسائل کو حل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس میں صحت کی سہولیات بھی اہم ہے۔ پہلے کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں صحت کے بنیادی ڈھانچے میں کافی بہتری آئی ہے۔ مرکز صحت کی عمارتیں بہتر ہو گئی ہیں۔ کئی طرح کی سہولیات میسر ہونے لگی ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں کی کمی ان تمام سہولیات کو بے کار کر دیتی ہیں۔ ملک کے بہت سے دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں علاج کی بہتر سہولیات صرف اس لیے دستیاب نہیں ہے کہ وہاں ڈاکٹرزتعنات نہیں ہیں۔
اس کی ایک مثال راجستھان کے بیکانیر ضلع میں واقع بجھروالی گاؤں ہے۔ ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر لنکرنسر بلاک میں واقع اس گاؤں کے بنیادی صحت مرکز کو ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہے ۔ 400 کی آبادی والے اس گاؤں کا پرائمری ہلتھ سنٹر ایک اے این ایم پر منحصر ہے۔ایسے میں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں گاؤں والوں کوتیس کیلومیٹر دور بیکانیر کے ضلع اسپتال جانا پڑتا ہے۔ معاشی طور پر پسماندہ اس گاؤں کے لوگوں کو نہ صرف ڈاکٹروں کی کمی بلکہ ایمبولینس کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی 27 سالہ خاتون لالی کا کہنا ہے کہ گاؤں کے اسپتال میں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے حاملہ خواتین کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنہیں ڈیلیوری کے دوران پریشانی کی صورت میں بیکانیر لے جانا پڑتا ہے۔ ہسپتال میں ایمبولینس کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتیوں کو پرائیویٹ گاڑیوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ لالی بتاتی ہیں کہ گاؤں والوں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے۔ زیادہ تر دیہاتی یومیہ اجرت والے مزدور یا چھوٹے کسان ہیں جن کی آمدنی بہت کم ہے۔ ایسے میں ان کے لیے پرائیویٹ گاڑی سے شہر جانا انہیں ساہو کاروں کا مقروض بنا دیتا ہے۔ ایک دیہاتی منیرام میگھوال کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کے ہسپتال کی حالت پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہوئی ہے۔ لیکن پھر بھی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں یہاں سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے ڈیلیوری کے دوران جنہیں اس حالت میںڈاکٹر کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ بروقت مدد حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی بار ایسی خواتین کی موت بھی ہوچکی ہے۔
گاؤں کی آشا ورکر کنچن کا کہنا ہے کہ گاؤں کا یہ اسپتال نہ صرف ڈاکٹروں کی کمی سے نبرد آزما ہے، بعض اوقات خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو ادویات کی کمی کی وجہ سے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں پرائیویٹ طبی اداروں سے آئرن اور ضروری ادویات خریدنی پڑتی ہیں۔ کئی بار پیسے کی کمی کی وجہ سے خواتین ضرورت کے باوجود وقت پر ادویات نہیں خرید پاتی ہیں۔ جو ان کے حمل کو متاثر کرتا ہے۔ ہسپتال میں تعینات واحد اے این ایم کملیش کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے وہ اکثر سنگین حالات والے مریضوں کو بیکانیر بھیجتی ہیں، حالانکہ وہ نارمل ڈلیوری کرتی ہیں۔ لیکن ہسپتال میں صرف ایک بستر ہونے کی وجہ سے کئی بار نارمل ڈیلیوری ہونے والی خواتین کو بھی شہر بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ہسپتال میں ہر قسم کی ویکسی نیشن کی سہولیات بھی موجود ہیں جو کہ وہ اپنی نگرانی میں مکمل کرتی ہیں۔ کملیش کا کہنا ہے کہ اگر اس اسپتال میں ڈاکٹروں کی تعیناتی ہو جائے تو گاؤں کی غریب خواتین کو شہر جا کر پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔وہیںگاؤں کی سماجی کارکن ہیرا شرما کا کہنا ہے کہ گاؤں کے اسپتال میں پہلے کے مقابلے بہت بہتری آئی ہے۔ تقریباً ایک دہائی قبل گاؤں کی 83 فیصد خواتین کی گھر پر ہی ڈیلیوری ہوتی تھی جو کہ بہت سنجیدہ موضوع تھا۔ خراب سڑکوں، سہولیات کی کمی اور خراب معاشی حالت کی وجہ سے لوگ نازک حالات میں بھی گھر پر ڈیلیوری کا عمل مکمل کرواتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی خواتین کی موت بھی ہوئی ہے۔ لیکن اب ہسپتال میں نارمل ڈیلیوری کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں، اس کے علاوہ یہاں ویکسینیشن کی مکمل سہولت بھی موجود ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے یہاں ڈاکٹروں کی تعیناتی کرے تاکہ غریب دیہاتیوں کو علاج کے لیے شہر جانے کا اضافی مالی بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ تاہم اس وقت ریاست میں اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں تیز ہیں، ایسے میںیہاں اسپتال بھی ایک انتخابی مسئلہ بن سکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا