از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک
۔9986437327
فلسطین کو مسلمان بازیاب کرنے کیلئے سینکڑوں سالوں سےجدوجہد کرتے آرہے ہیں،فلسطین مسلمانوں کیلئے اُتنا ہی مقدس ہے جتناکہ مکہ اور مدینہ۔فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو اس سرزمین کو صیہونی طاقتوں سے آزادکرانے کیلئے سینکڑوں جنگیں کی گئی ہیں۔اب بھی اس سرزمین پر صیہونی(Zeonist)طاقتیں قابض ہیں اور ان طاقتوں سےسرزمین فلسطین کو آزادکرانےا ور بیت المقدس پر مکمل اختیارات حاصل کرنے کیلئے فلسطین کے لوگ اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔7اکتوبرکو فلسطین کی طاقتور جماعت حماس کی جانب سے قابض اسرائیلیوں پر جو حملےکئے گئے اس کی وجہ سے اسرائیل کچھ وقت کیلئے لڑکھڑاگیا اور اس کی جانب سے جو ڈروخوف دنیابھرمیں پھیلایاگیاتھا اُس ڈروخوف سے دنیا واقف ہوگئی کہ اسرائیل صرف نام کا ہے کام کیلئے وہ دوسروں پر منحصرہے۔موساد جو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ہے اُسے دنیاکی سب سے طاقتور ایجنسی مانی جاتی ہے،اسرائیل کے پاس جو ہتھیارہیں وہ سب سے جدید ہتھیار شمارکئے جاتے ہیں،اسرائیل کے پاس جو فوج ہے وہ سب سے زیادہ تربیت یافتہ فوج کہلاتی ہے،اسرائیل کے جو حکمران ہیں وہ سب سے زیادہ شاطر حکمران کہلاتے ہیں۔باوجوداس کے فلسطین کی ایک چھوٹی سی جماعت حماس نے اسرائیل کے قدم لڑکھڑاکرنے کیلئے مجبورکردیااور اسرائیل نے اپنی مددکیلئے امریکہ ودیگر ریاستوں کو آگے آنے کی دعوت دی۔اسرائیل کو مختلف ممالک کی مددملنے کے باوجود اب بھی وہ حماس کا مقابلہ کرنے کیلئے خوفزدہ ہے۔ان تمام باتوں کے درمیان ہم اُس بات پر افسوس کررہے ہیں جو خودمسلمانوں کی طرف سے ایک طرح سے پروپگنڈہ ہورہاہے اور پروپگنڈے میں فلسطینی جہادکو پوری طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،جو اہل علم طبقہ عرب ممالک کے ریال،دیناراور درہموں کےٹکڑوں پر پل رہاہے وہ فلسطین کے جہادکو ناجائزقرار دے رہاہے اور کچھ کا مانناہے کہ یہ سب فلسطینیوں کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ہورہاہے۔ایک عالم دین نے اپنی حالیہ تقریرمیں یہ کہاہے کہ فلسطینیوں پر جو ظلم ہورہاہے وہ اُن کی توحید سے دوری کی وجہ سے ہورہی ہے،فلسطینی عورتیں مغربی لباس میں ہیں،فلسطین کی عورتیں بے پردہ گھومتی ہیں،فلسطینی توحید سے دورہوچکے ہیں،اس وجہ سے ان فلسطینیوں پر ظلم ہورہاہے۔اسی طرح سے ایک اور عالم نے کہاہے کہ فلسطین کے مسلمان دین سے دورہیں،وہ اللہ کی راہ میں نکلنےوالوں میں سے نہیں ہیں،صحابہ کے طریقوں پر ان کی زندگی نہیں ہے،اس لئے اسرائیل کا ظلم ان پر ہورہاہے۔آخریہ کونسی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کئے ہوئے ہیں کہ انہوں نے فلسطینیوں کی جدوجہد کوعذاب سے جوڑدیاہے۔آخریہ کونسے دین کی بات کررہے ہیں جو صرف حجاب،برقعہ اور دعائوں پر مشتمل ہے۔قرآن پاک میں برقعہ اور دعائوں کا جس قدر تذکرہ ہواہے ،اُس سے کہیں زیادہ تذکرہ جہاد فی سبیل اللہ کے تعلق سے ہواہے اور یہودیوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے بھی قرآن مجیدمیں ہی ترغیب دی گئی ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے جہادکے تعلق سے40 حدیثیں بیان کی ہیں،جبکہ صحابہ نے سامانِ جنگ کی صنعت سیکھنے کیلئے دوسرے ملکوں کا سفرکیاہے۔اسی جہادکے تعلق سے سورہ بقرہ میں کہاگیاہے کہ”نیکوکار وہ لوگ ہیں،جو تنگدستی اور بیماری اور دشمنوں سے جہادکے وقت صبرکرنےوالےیعنی ثابت قدم رہنےوالے ہیں،یہی لوگ صادقین اور متقی ہیں”۔اللہ اور اس کے رسولﷺنےجہاد کرنےوالوں کے تعلق سے مسلمانوں کو واضح الفاظ میں ہدایت ہے،باوجوداس کے کچھ لوگ اب بھی کپڑے،داڑھی اور ٹوپی میں اٹکے ہوئے ہیں۔اسی طرح سے فلسطینیوں کوبدنام کرنے کیلئے کوئی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ شیعہ کی پشت پناہی میں جنگ کررہے ہیں تو کچھ لوگ ان مجاہدین کو بدعقیدہ کہہ رہے ہیں۔لیکن یہود ی وعیسائی فلسطین کے مسلمانوں کو مسلک یا مکتب فکرکی بنیادپر شہید نہیں کررہے ہیں،بلکہ ان کی بنیاد بیت المقدس پر قبضہ جمائے رکھناہے۔عظیم مجاہد و سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کو اسکے ایک سپاہی نے اطلاع دی کہ شہر میں ایک واعظ ( مولوی، عالم،مقرر) آیا ہے اسکا بہت چرچا ہے لوگ اسکو سننے کیلئے جاتے ہیں باتیں بہت پُراثر کرتا ہے تو سلطان نےبھی بھیس بدل کر ملنے کا ارادہ کرلیا کہ دیکھیں کہ کون ہے وہ واعظ ۔سلطان صلاح الدین ایوبی بھیس بدل کر اسکے پاس پہنچ گئے اسکا بیان ختم ہونے کے بعد سلطان نے پوچھا کہ بیت القدس مسلمانوں سے فتح کیوں نہیں ہورہا ہےاس کی کیا وجہ ہے؟ ۔اس عالم نےجواب دیاکہ دعا مانگتے رہو بیت المقدس فتح ہوجائے گا۔ سلطان نےیہ سنتے ہی فوراً تلوار نکالی اور پوچھاکون ہو تم، تمہیں کس نے بھیجا ہے؟ ۔سلطان نے جان لیا کہ یہ یہودی جاسوس ہے جو عالم کا بھیس بدل کرآیا اور لوگوں کو جہاد کے بجائے دعا کا حکم دے رہا ہے۔ سلطان نے اسکا سر قلم کردیا۔ یہی کچھ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر بددعائیں کررہے ہیں دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن ظالم تباہ ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہورہے ہیں کیوں؟؟؟ کیونکہ مسلمانوں نے عملی جدوجہد کو چھوڑ کر صرف دعاؤں پر اکتفا کیا ہواہے اگر صرف دعاؤں سے ہی ظلم ٹلتے تو غزوہ بدر، خندق، احد، کربلاکے واقع نہ ہوئے ہوتے۔ عملی جدوجہد سے منزلیں ملا کرتی ہیں۔عرب عیاشیوں میں مصروف ہیں اور باقی دعاؤں میںمصروف ہیں۔