ارضِ فلسطین شکنجۂ یہودکے نرغے میں

0
0

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040

مغضوبِ عَلَیہ، انبیاء کرامؑ کی قاتل، شیطانوں کی دُم چَھلّا، احسان فراموش قوم یعنی صہیونیت نواز قوم یہود، جنہوں نے 14؍ مئی 1948ء برطانیہ کی مدد سے سرزمین فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ پہلی عالمی جنگ (1914ء – 1918ئ) کے بعد فلسطین خلافتِ عثمانیہ کے قبضے سے نکل گیا۔ غاصب اسرائیل میں صہیونیوں نے 75؍ برس سے فلسطینیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اپنی درندگی اور ظلم و جبر کے ذریعے مظلوم و نہتے اہلِ فلسطین کی زندگیوں کو جہنم زار بنا دیا ہے۔ روزانہ فلسطینیوں کے خون سے انبیاء کرامؑ کی سرزمین کو لہو لہان کر دیا ہے۔ ”بَیتُ الْمُقَدَّس” کا نام ”قُدس” قرآن کے نزول سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، نزولِ قرآن کے بعد اس کا نام ”مَسْجِدِ اَقْصیٰ” رکھا گیا۔ سرزمین فلسطین کا یہ علاقہ ”آسمان کا دروازہ” بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ”سر زمینِ محشر” بھی ہے۔ قُدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے، جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کے لئے 5؍ ہزار سے زیادہ صحابۂ کرامؓ نے جام شہادت نوش کیا اور اُمَّتِ مُسْلِمَہ کے جیالے مجاہدین و عام شہری گلدستۂ شہادت کے نذرانے عصر حاضر تک جاری ہیں۔ اسی لئے اس مبارک مقام کو ”شہیدوں کا شہر” بھی کہا جاتا ہے۔ فلسطین ہی "ارض محشر” ہے۔فلسطین پر قابض نسل پرست صہیونی لابی نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے اور نیو ورلڈ آرڈر پر تیزی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے قیامت کا ہولناک منظر بپا کر رکھا ہے۔ غزہ میں غاصب اسرائیل بربریت کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، اُمَّتِ مُسْلِمَہ کو اجتماعی طور پر اسرائیل کے اس پاگل پن اور جارحیت کا مقابلہ کرنا ہوگا، ورنہ روز محشر ناکامی ہمارا مقدر نہ بن جائے۔
‘طُوفان الاَقْصیٰ” کے اسباب و محرکات:قوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء میں 399؍ فلسطینیوں کو گھروں سے ظلم و جبر کے بنیاد پر بیدخل و ملک بدر کرکے قبضہ کر لیا گیا۔ اسی رپورٹ میں صرف سال 2023ء کے دوران اب تک 600؍ حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ بَیتُ الْمُقَدَّس و مَسْجِدِ اَقْصیٰ میں نہتے فلسطینی مسلمان نمازیوں کو روزانہ ظلم و استہزاء کا نشانہ بنانا صہیونیوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسلمانوں کو تختۂ مشق بنانا صہیونی درندوں کا شیوہ رہا ہے۔ مسلمان خواتین کی سر بازار عزت و عصمت کو پامال کرنا ان کا مذہبی شعار نظر آتا ہے۔ حتٰی کہ مَسْجِدِ اَقْصیٰ پر یہودی لوگ بشمول یہودی خواتین مسلسل حملے کرتے ہیں۔ نسلی عصبیت میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی عبادت گاہوں، مذہبی رہنماؤں پر تھوکنا ان کے روزانہ معمولات میں شامل ہوگیا ہے۔ہر روز ہم دیکھ رہے ہیں کیسے صہیونیت نواز نَو آباد مَکِینوں نے مقامی فلسطینیوں کے خلاف جرائم، ظلم اور حملوں کا ارتکاب کرتے ہوئے بے بس و مظلوم فلسطینیوں کو اپنے گھروں، جائیدادوں اور زمینوں سے بے دخل کردیا ہے۔ اس ظلم اور جبر میں آئے روز کی گرفتاریاں، چھاپے، پھانسیاں، جائیدادوں کی ضبطی اور گھروں کی مسماری سب شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے میں 4؍ لاکھ 90؍ ہزار یہودی آباد کار ناجائز طور پر بسائے گئے ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ تمام یہودیوں کا متفقہ ہدف ہے کہ ارض فلسطین کو مسلمانوں سے خالی کرایا جائے، خواہ انھیں ملک سے باہر کرنا پڑے یا موت کے گھاٹ اتار نا پڑے۔ ان حالات میں دنیا فلسطینیوں سے کیا توقع کرتی ہے۔ یہ کہ فلسطینی اسرائیلی محاصرے اور مسلط کردہ موت کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور یہودی آباد کار انہیں دنیا کے کھلے قید خانے میں تباہ و برباد کردیں۔ اسرائیلی مسجد اقصی کو ہی شہید کر دیتے۔غزہ پٹی میں صیہونی قابض فوج کی طرف سے نہتے فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ لمبے عرصے سے مسلسل جاری ہے۔ جب ظلم و ستم حد سے گزر جاتا ہے، تو مظلوم کے رد عمل کی ابتداء ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ”تَنْگ آمَد بَجَنْگ آمَد” (پریشان ہو کر آدمی جنْگ کے لیے یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے)۔ روزانہ کی موت کو گلے لگانے سے بہتر یہی تھا کہ ایک بار ہی سارے ظلم و ستم کا حساب لیا جائے۔ تاکہ شیطان نواز ٹولہ اپنی روش سے باز آجائے۔
غزہ پٹی میں صیہونی قابض فوج اور فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) اور فلسطینی اسلامی جہاد کے درمیان بڑے پیمانے پر عسکری تصادم گزشتہ 7؍ اکتوبر 2023ء سے جاری ہے۔ حماس کے چھاتہ بردار پیرا گلائڈرز اور ابابیلوں کے لشکروں نے فضاء میں اڑتے ہوئے غاصب اسرائیل کے تل ابیب اور یروشلم تک دھاوا بول دیا۔ حماس کے مجاہدین نے سمندر، زمین اور فضاء سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہونا شروع کردیا اور ٹرکوں اور ٹینکوں پر سوار اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بناکر غزہ لے آئے۔ اسرائیل کے ایک failure میں اس کی خفیہ ایجنسیاں خاص طور پر موساد کا یرغمالیوں کو اب تک نہ چھڑانا بھی شامل ہے۔غاصب اسرائیل پر فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی حکمت عملی کا مظہر ”طُوفان الاَقْصیٰ” کا مظاہرہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ”طُوفان الاَقْصیٰ” کے پس پشت بنیادی موجودہ صورتحال کا سبب صہیونیت نواز یہودیوں کے ذریعے روزانہ عام فلسطینیوں کا قتلِ عام، غاصب اسرائیلیوں کے ذریعے روزانہ کی اشتعال انگیزیاں، نہتے فلسطینیوں پر حملوں کا سلسلہ، اسرائیلی فوج کی مسلسل نسل پرستانہ دہشتگردی کا طرزِ عمل، مقبوضہ بَیتُ الْمُقَدَّس، مَسْجِدِ اَقْصیٰ اور مقدس مقامات پر چھاپوں کے نتیجے میں مظلوم و محکوم فلسطینوں کے لاوا نما غصّے کے اظہار کا نام ”طُوفان الاَقْصیٰ” ہے۔اب تک اس تنازعے میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے فلسطینیوں کی تعداد 7,326؍ اور زخمیوں کی تعداد 18؍ ہزار 5؍ سو سے تجاوز کرگئی ہے، شہداء میں 3؍ ہزار سے زائد بچے اور 17؍ سو سے زائد خواتین شامل ہیں۔ جب کہ حماس کے ہاتھوں 1500؍ غاصب صیہونی ہلاک اور 4,834؍ زخمی ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے دسیوں ہزار مکانات تباہ کیے۔قریباً 20؍ روز سے ایئر اسٹرائیک کے سہارے وحشیانہ بمباری کے ذریعے مساجد و گرجا گھروں، اسپتالوں، اسکولز، تعلیمی اداروں اور شہری بستیوں پر نہتے عوام و خصوصاً معصوم بچوں کو بے رحمی و درندگی سے شہید کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے اب تک 12؍ ہسپتال اور 57؍ طبی مراکز مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار خود انسانی حقوق کے قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔ لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ مسلم حکمراں بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں، عرب خاموش اور خوآب غفلت میں مبتلا ہیں۔ اُمَّتِ مُسْلِمَہ میں جو لوگ بیدار ہیں وہ بھی مذمت اور دُعاؤں کو کافی سمجھ رہے ہیں۔صہیونیت نواز یہودی غاصب حکومت اسرائیل انسانیت کش جنگی جرائم کا مرتکب ملک ہے۔ غاصب اسرائیل کا وجود عالمی سازش کا شیطانی عمل ہے۔ اس سازش کے حصّے کے طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں نے اسے ایک ریاست تسلیم کرلیا ہے۔ جب مزاحمت بڑھتی گئی اور عالمی ضمیر تھوڑا بہت کروٹیں لینے لگا تو 2؍ ریاستی حل کے نام پر اسرائیل کی ریاست کو سند بخشنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا۔ تقریباً 25؍ برس قبل 2؍ ریاستیں وجود میں بھی آگئیں لیکن ان کو بھی اسرائیل نے تسلیم نہیں کیا۔29؍ نومبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی تاریک ترین قرارداد نمبر 181 جاری کردی۔ جس میں فلسطین کو دو مستقل ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی بات کہی گئی تھی، جنرل اسمبلی کے اس غیر اخلاقی اور غیر انسانی فیصلہ کی وجہ سے اسرائیلیوں کو فلسطین کا 55؍ فیصد حصّہ مل گیا جب کہ اس سے پہلے وہ 11؍ فیصد سے زیادہ کے مالک نہ تھے۔اندرون اور بیرون ملک مقیم فلسطینی شہریوں کی کل تعداد 12؍ملین 7؍ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ دُنیا جانتی ہے کہ موجودہ دور میں اہلِ فلسطین کو 3؍ گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے گروہ کے قریباً 1.6؍ ملین لوگ اسرائیلی شہریت کے بوجھ کے ساتھ فلسطینی غاصبانہ اسرائیل میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں وہ آئے دن نسلی و امتیازی سلوک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔دوسرا گروہ وہ فلسطینی ہیں جو 45؍ کلومیٹر مربع یا 17؍ میل مربع کی غزہ پٹی اور مغربی کنارہ بشمول یروشلم میں آباد ہیں اور اسرائیلی قبضہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو سمندر پار یعنی دُنیا بھر میں مقیم ہیں اور وہ اپنی واپسی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں تا کہ اپنے گھروں میں واپس آباد ہو سکیں، یہ جدوجہد جاری رہے گی جب تک فلسطینیوں کو اُن کے حقوق نہیں مل جاتے اور آزاد فلسطین، جس کا دارالحکومت ”بَیتُ الْمُقَدَّس” ہو، کا قیام عمل میں نہیں آتا۔
فلسطینی مزاحمت بقاء اور استحکام کی جنگ لڑ رہی ہے۔ وہ لوگ جو اسرائیل کی تاریخ سے آگاہ نہیں ہیں یا جان بوجھ کر اس طرح کی حرکت کر رہے ہیں، وہ لوگوں میں سراسیمگی پھیلا رہے ہیں کہ حملے کی ابتداء کس نے کی؟ ایسے لوگ تاریخ کو مسخ کرکے غاصب اسرائیل کی درندگی اور سفاکیت کو دنیا سے چھپانا چاہتے ہیں۔ساری دنیا جہاں یہ سوچ رہی تھی کہ اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسیاں حماس کے حملے سے بے خبر کیوں رہی وہاں بہت سے لوگ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ جب حماس کو پتہ تھا کہ اسرائیل کی جوابی کارروائی سے فلسطینی عوام پر قیامت ٹوٹ پڑے گی تو پھر بھی اس نے اس قیامت کو دعوت کیوں دی۔ سنہ 1982ء سے آج تک یہودی ریاست ایک بار بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکی ہے، اس کو پہلی انتفاضہ تحریک میں شکست ہوئی، دوسری انتفاضہ تحریک میں بھی اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ 2006ء کی شکست، جب 2006ء میں حماس نے الیکشن جیت لیا۔ تو اسرائیل نے ناجائز طور پر غزہ کا محاصرہ کر لیا۔ 17؍ سال سے جاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے 23؍ لاکھ لوگ بنیادی اشیائے ضرورت سے محروم ہیں۔ اس محاصرے کو ۱؍ سال بعد مزید سخت کر دیا گیا اور غزہ کو مغربی کنارے، مقبوضہ یروشلم سے کاٹ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت کی شرح 65؍ فیصد ہو چکی ہے۔اس کے چند سال بعد 2008ء میں دنیا نے دیکھا کہ یہودی ریاست کو غزہ میں شکست ہوئی اور 2014ء میں فلسطین کی اسلامی مزاحمت تحریک کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی، صہیونیوں کے ان تمام جنگوں میں شکست ہوئی جب کہ دنیا بھر کی تمام طاقتیں اس کی حمایت کررہی تھیں اور اس کو امداد فراہم کررہی تھی، پھر بھی مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوئی۔سرزمین فلسطین کی قدر و منزلت کے احساس کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں ادا کی جانے والی نمازوں کا اجر 5؍ سو گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ قبلۂ اوّل کے ضمن میں اُمَّتِ مُسْلِمَہ کو حساسیت و سنجیدگی سے لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ قربانی و شہادتیں پیش کرنے والے عظیم داستان رقم کرتے ہوئے تاریخ کے سنہری ابواب کا حصّہ بن رہے ہیں۔ لیکن بحیثیتِ مسلمان کیا ہماری کوئی ذمّہ داری نہیں؟فلسطینی معصوم بچوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں پر آزمائش کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کیا ہمیں ان کا دست بازو بن کر مدد و حمایت نہیں کرنی ہوگی۔ آج جب کہ موجودہ صورتحال میں بات مذمت اور دُعاؤں سے آگے بڑھ گئی ہے۔ آیئے مل کر اُمَّتِ مُسْلِمَہ کی بیداری اور فلسطینی مسلمانوں کی آزمائش میں سرخروئی کے لئے دُعاء کریں۔ اور بڑی بڑی افواج رکھنے والے اسلامی ممالک کے ضمیر کو جھنجھوڑیں کہ وہ سارے وسائل شکنجۂ یہود سے فلسطینی بے گناہ و مظلوموں کی عزتیں بچانے اور قبلۂ اوّل کو بچانے کے لئے خرچ کریں اور اس کے لئے باقاعدہ جہاد کا اعلان کریں۔ ویسے بھی قرآن کی پیشنگوئی کے مطابق قوم یہود کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہونا ہے، تو کیا یہ مسلمانوں کا دینی فریضہ نہیں کہ اہل فلسطین کی حمایت و مدد کریں۔فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرنا فلسطینی عوام کے لیے انصاف، آزادی اور عالمی قوانین کا مکمل نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں کو حق خودداریت اور ان کی ریاست ان کے حوالے کی جائے۔
فلسطینی عوام کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کیا جانا ہی اس خطّے میں امن و انصاف کی ضمانت ہوگا۔چند سال پہلے امریکہ کے نامور کہنہ مشق سیاستدان ہینری کیسنگر نے پیشنگوئی کی تھی، کہ آئندہ 10؍ سال بعد ریاست اسرائیل کا روئے زمین پر کوئی نشان باقی نہ رہے گا۔ یہودی ریاست کی نابودی کو کسی سال و ماہ و تاریخ سے جوڑنا شاید زیادہ مناسب نہ ہو۔ اگر اُمَّتِ مُسْلِمَہ کے ممالک میں اتحاد قائم ہوجائے تو 10؍ سال کیا 10؍ سیکنڈ میں غاصب اسرائیلی ریاست کو نست و نابود ہوتے ہوئے دنیا دیکھے گی۔ ان شاء اللّٰہ!غاصب اسرائیل کی اوقات و حیثیت ہے ہی کتنی، اس کو نست و نابود کرنے کے لئے علامہ خمینیؒ نے فرمایا تھا: ”اگر ایک ارب مسلمان متحد ہوکر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر پھینک دیں تو اسے پانی بہا کر لے جائے گا”۔فلسطین کی بازیابی کے لئے صلاح الدین ایوبیؒ ہی کے عزم و ارادہ کی ضرورت ہے، فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے صلاح الدین ایوبیؒ میں وہی تڑپ تھی جو ایک ماں کو اپنے اکلوتے بیٹے کی گم شدگی یا موت پر ہوتی ہے۔ فلسطین و بَیتُ الْمُقَدَّس زبانِ حال سے گویا ہے:
ہاتِ صلاح الدین ثانیۃ فینا
وجدّدی حطّین أو شبہ حطّینا
(صلاح الدینؒ کو دوبارہ لاؤ اور معرکۂ حطین کی یاد تازہ کرادو)۔
اللّٰہ ربّ العالمین سے دعاء ہے کہ اہل فلسطین کو ثابت قدمی نصیب کرے اور غیب سے ان کی مدد کرے،
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا