محمد ریاض ملک
منڈی ،پونچھ،
یوں توخواتین کو سنف نازک کے القاب سے پکاراجاتاہے۔لیکن حقیقت میں خواتین کسی بھی طرح اور کسی بھی میدان میں کمزور اور کمتر نہیں ہے۔ بس ضرورت ہے سماج کو تھوڑی سی اپنی سوچ بدلنے کی۔ جس وقت ہم سوچ بدلنے میں کامیاب ہوگئے سمجھ لیں معاشرہ خود بخود خواتین کے ذریعہ ہی بدل جائے گا۔ نو عمر لڑکیوں اور خواتین کو بااختیار بناکر حوشحالی کی طرف سماج کو بہتر طریقے سے لے جایاجاسکتا ہے۔ اکثر دیہی علاقوں میں لوگوں کے پاس اپنی زمینیں ہوتی ہیں۔ جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں کی زمین کو اکثر ایک یا دو فصلوں کے لئے ہی استعمال کیاجاتاہے۔ جس کی وجہ یہاں کی مقامی آبادی کو اس زمین کی نشونما اور پیداوار سے متعلق جانکاری کی کمی ہے۔ جہاں پر یہ دو فصل ہوتے بھی ہیں۔ان کی کاشت میں صرف مرد ہی استعمال ہوتے ہیں اور دیہی علاقوں کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو گھر کے کام کاج یا پھر ڈھلائی کٹائی کے کام تک ہی محدود رکھاجاتاہے۔ کچھ علاقوں میں آج بھی خواتین سے بہت ہی سخت کام لئے جاتے ہیں۔ جن میں جنگلوں سے لکڑی کی کٹائی، لکڑیوں،گھاس اور فصلوں کی کٹائی ڈھلائی شامل ہے۔ جس سے کہ دیہی خواتین اور نوعمر لڑکیوں میں صحت کی تندرستی کا فقدان ہوتاہے کیوں کہ ایسے سخت ترین کاموں کے باوجود وقت پر نہ ہی صیح خوارک مہیاہوسکتی ہے اور نہ ہی صحت کی جانچ ہی وقت پر کروائی جا سکتی ہے۔ اس قدر سخت ترین کام کرنے کے باوجود بھی خواتین مردوں کی محتاج ہوتی ہیںاور یوں عمر بھر غلامی میں وہ اپنی پوری زندگی بسر کردیتی ہیں۔ انہیں خود مختار بنانے کے لئے اگر چہ سرکار کی بہت ساری اسکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر ان سکمیوں کا دیہی علاقوں کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو کوئی فائیدہ نہیں ہورہاہے۔
ضلع پونچھ میں گزشتہ چار پانچ سالوں سے’’ امید‘‘ا سکیم کے تحت سیلف ہیلپ گروپ یعنی اپنی مدد آپ کرو کا آغاز کیاگیا ہے۔ جو ضلع پونچھ بلکہ بلخصوص تحصیل منڈی میں بہت ہی کامیاب نظر آرہی ہے۔ جس کے ذریعہ تحصیل منڈی جس کی آبادی قریب لاکھ پر مشتمل ہے۔ اکثر دیہاتوں اور گائوں میں یہ امید اسکیم متعارف کروائی جاچکی ہے اور اب اس کے ذریعہ سینکڑوں خواتین اور نوعمر لڑکیاں اپنے آپ روزگار کے یونٹ قائم کرکے اپنا روزگار چلارہی ہیں۔ جس سے وہ خود بھی بااختیار بنتی جارہی ہیںاور اپنے علاقع کی دیگر خواتین اور نوعمر لڑکیوں کوبھی ترغیب کے ذریعہ اس گروپ کا حصہ بنارہی ہیں۔ تحصیل منڈی سے سات کلومیٹر دور گاوں اڑائی جو ہر لحاظ سے پسماندہ اور پچھڑاہوا ہے۔جس کی آبادی پندرہ ہزار سے زیادہ ہے۔ اسی گائوں سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شمیم اختر جن کی عمر 24سال ہے اور گزشتہ پانچ سالوں سے امید اسکیم کے تحت سیلف ہلپ گروپ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیںاور اب دو پنچائیتوں میں تمام سیلف ہلپ گروپ کی نگران کے طور پر کام کررہی ہیں، انہوں نے بتایاکہ گزشتہ پانچ سالوں سے گائوں اڑائی میں سیلف ہلپ گروپ کے تحت خواتین اور نوعمر لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد مہیم کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہر گروپ میں زیادہ سے زیادہ دس خواتین کو شامل کیاگیا ہے۔ جس میں گروپ کو گائوں سطح پر بینک کی جانب سے بیس ہزار روپہ کا قرض دیاجاتا ہے۔جسے گروپ کوبغیر سود کے مجوزہ مدت میں واپس کرنا ہوتا ہے۔ واپسی کے بعد پھر پچاس ہزار تک کا قرض دیاجاتاہے۔ اس کے بعد اگر گروپ کو زیادہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صورت میں پچاس ہزار سے پانچ لاکھ تک قرضہ بغیر سود کے جموں وکشمیر بنک سے ہی دلوایاجاتاہے۔ جس کو بھی قستوں میں مجوزہ مدت میں اداکرناہوتاہے۔
یہ قرض گروپ کے تمام ممبران کو دیاجاتاہے۔ جس کی دو زمہ دار ہوتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں ہی قست بینک کو جاتی ہے۔اس طرح بینک کو قرض واپس کردیاجاتاہے۔ اڑائی، آعظم باد، راجپورہ وغیرہ میں آج تک یہ سلسلہ بہت ہی کامیاب رہاہے۔شمیم اختر نے بتایاکہ یہاں اڑائی ملکاں اور راجپورہ میں 530 خواتین اور نوعمر لڑکیوں کا اندراج ہوچکاہے۔حالانکہ ان میں سے 30 خواتین اور نوعمر لڑکیاں اچھے سے کام نہیں کرپاتی ہیںکیوں کہ وہ اپنی مرضی سے تو سلف ہلپ گروپ کا حصہ بنی ہیں۔لیکن اب ان کے گھر کے افراد کی جانب سے اجازت نامہ اور ماحول نہیں مل رہاہے۔جبکہ دیگر 500 خواتین اور نوعمر لڑکیاں کچھ نہ کچھ روزگار چلارہی ہیں۔ان میں سے 15 خواتین اور نوعمر لڑکیاں ٹیلرنگ کا کام کرتی ہیں۔جبکہ پندرہ خواتین اور نوعمر لڑکیاں سیوٹر اور گرم اون کے بچوں کے کپڑے بُن کر اپناروزگار کمارہی ہیں۔ چھ خواتین دودھ کی ڈئیری کام کام کررہی ہیں۔ جس کے لئے یہ گائے پالتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی مرغے بھی پالے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ،اخروٹ کی گیری کاکام،سبزی لگانے کا کام تو قریب قریب سبھی کرتی ہیں۔یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہواجب خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو ترغیب دی گئی اور کچھ نہ کچھ آزاد ماحول میں دوسری جانکار خواتین سے حوصلہ افزائی ملی۔ اب امیدا سکیم کے تحت سیلف ہلپ گروپ کا بینک میں اپناکھاتا ہے۔ ہر ایک محلہ کا الگ الگ گروپ بناکر ہر ماہ ان کی میٹنگ کی جاتی ہے اور انکے روزگار کے یونٹ میں تبدیلی اور ترقی کا جائیزہ لیاجاتاہے۔ جس کے ذریعہ ان خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو قرضہ دیاجاتاہے۔ وہ قرض وہ متعینہ مدت میں قستوں میں واپس لوٹا دیتی ہیں۔ اس طرح تیس خواتین و نوعمر لڑکیاں بڑی مستعدی سے اپنے روزگار کے یونٹ چلارہی ہیں۔ان کے گروپ کے لئے متعدد مقامات پر ٹرینگ کا اہتمام بھی کیاجاتاہے۔ مرغوںکو بیماری سے بچانے اور ان کی صحت کے لئے ویکسینشن کا اہتمام بھی کیاجاتا ہے ۔
اب پانچ سو میں سے 30خواتین اور نوعمر لڑکیاں اچھے طریقے سے فعال ہوچکی ہیں۔ جو خود کفیل بن چکی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے تیار شدہ مال جن میں گرم سیوٹر،بچوں کی ٹوپیاں،ٹوکریاں، ودیگر نمائیشی اشیاء کو تیار کروانے کے بعد جب بھی کوئی سرکاری طور پر یا غیر سرکاری طور پر میلا لگتاہے۔ اس کے لئے گروپ کے ذمہ دار افراد تیار شدہ مال خرید کروہاں بیچ دیتے ہیں اور مجوزہ قیمت ان خواتین کو دے دی جاتی ہے۔ پھر وہ سٹال لگاکر ملا بیچ دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک میلے میںرکشہ بندھن کے تہوار کے لئے ہاتھ کا تیار شدہ مختلف قسم کا مال بیچاگیا۔جس میں 15خواتین کی جانب سے چالیس ہزار روپیہ کا مال بیچاگیا۔جس میں دس ہزارروپہ کی بچت ہوئی۔ اسی طرح مرغے انڈے اور سبزیاں،دودھ تو گائوں میں ہی بک جاتے ہیں۔ بلکہ مزید ان اشیاء کی مانگ بڑھتی جاتی ہے۔ جبکہ اب اس سکیم میں جڑنے کے بعد گروپ کی ممبران خواتین نے اپنے بچے اور بچیاںا سکول میں اور اکیڈمیوں میںپڑھانا شروع کردیا ہے۔ اسی طرح اگر مرد خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو امید اسکیم یا پھر اس طرح کی دوسری سرکاری اسکیموں سے خواتین کو جوڑا جائے تووہ دن دور نہیں جب دیہی خواتین ہر وقت کی مردوں سے پائی پائی کی محتاجی سے نجات حاصل کر لیں گیں۔اگر امید اسکیم اڑائی ،اعظم باد، راجپورہ میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو بااختیار بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے تو دیگر اسکیموں پر بھی تو توجہ کیوں نہیں دی جاسکتی ہے؟ اس سلسلے میںعائشہ احسان جن کی عمر 24 سال ہے، کا کہناتھاکہ گائوں اور دیہاتوں میں اکثر خواتین تعلیم سے محروم ہوتی ہیں۔ مرد محنت اور مزدوری میں مصروف رہتے ہیں۔یاپھر بیرون ریاست چلے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ نسلیں بھی تعلیم سے دور رہتی ہیں۔ جب تعلیم نہ ہوئی تو محتاجی یقینی عمل ہوگا۔گھروں میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو مجبوری میں سخت کام کرنااور عمر بھر محتاجی اور غلامی کی زندگی بسر کرناپڑتی ہے۔
اگر چہ سرکاری ادارے بھی متحرک ہیں۔ لیکن وہ بھی دیہی علاقوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو انصاف دلانے میں ناکام ہیں۔دیہی علاقوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو انصاف کا ضامن صرف تعلیم ہی ہے۔ وہ چاہے کسی بھی ہنر کی ہویا پھر کتابوں سے پڑھ کر روشنی حاصل کی گئی ہو۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو تعلیم سے دوررکھنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ والدین سے وراثت نہ طلب کرلیں۔ انشاء خاتون جو 21سالہ نوعمر ہیںاور علاقع لورن سے تعلق رکھتی ہیں، کا کہناہے کہ اس وقت اگر سماج اور معاشرہ کوخوشحال بناناہے تو خواتین کو باروزگار بناناہوگا۔ اس کے لئے چاہے سرکاری اسکمیوں سے استفادہ کیاجائے۔چائے خواتین کو خودمختار بنانے والی غیر سرکاری تنظمیوں کی جانب کوششوں سے فیض حاصل کیاجائے۔ ضروری ہے کہ بچیوں کو تعلیم دیں اور حوش سنبھالنے کے بعد سے انہیں خود روزگار کمانے کے مواقع فراہم کرکے انہیں بااختیار بنایاجائے۔ اس دور میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو بااختیار بناکر انہیں باعزت زندگی جینے کا موقع نہ دیاتو قیامت تو آسکتی ہے پر سماج میں تبدیلی نہیں آسکتی۔اس حوالے 50سال عمر کی ایک تعلیم یافتہ خاتون رشیدہ بیگم ،جو سماج میں ایک بہترین رول اداکرہی ہیں، ان کا کہناہے کہ عورت تعلیم یافتہ ہوتو پوراسماج سدھر سکتاہے۔پسماندہ گائوں اور دیہاتوں میں آج بھی خواتین طرح طرح کے تشدد کی شکار صرف اس لئے ہیںکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیںاور مرد ہیں کہ انہیں تعلیم کی طرف راغب کرناعیب سمجھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس دور میں بچیوں اور خواتین کاروزگار یافتہ ہونابھی از حد ضروری ہے۔ ان نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو گھریلو روزگار جیسے کپڑے سلائی،مرغاپالن،سبزی اگانا،مقامی دستکاری وغیرہ کو منظر عام پر لاکر روزگار کمایاجاسکتاہے۔ جس سے یہ خواتین اپنے بچوں کوا سکول تک بھیجنے کے لئے ضروری لوازمات بھی جمع کرسکتی ہیںاور اپنے گھر کا خرچہ بھی چلا سکتی ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس وقت ہندوستان بھر کے تمام دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ منڈی کے دیہی علاقوں میں بھی امید اسکیم کی طرح دیگر اسکیموں کو بھی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے لئے مزید فعال بنایا جائے تاکہ دیہی علاقوں کی خواتین اور نو عمر لڑکیاں بھی اپناروزگار چلاکر خوشحال زندگی بسر کرسکیں۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی مدرا لون اسکیم بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ضرورت ہے خواتین اور نو عمر لڑکیوں کو اس سے بیدار کرنے کی۔ان کے لئے راہ ہموار کرنے کی۔ اس کے لئے خود سماج کو آگے بڑھ کر پہل کرنی چاہئے۔ (چرخہ فیچرس)