بنیادی سہلویات کا فقدان عوام کے لئے درد سر بنا ہوا ہے عوام بنیادی سہولیات کی رسائی کے لئے ہر آئے انتظامیہ سے پر آمید رہتی ہے ۔ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں بنیادی سہولیات کے فقدان کے کچھ اس طرح کے معاملات زیرالتواء ہیں جوکہ کہ عوام کے لئے اشدضروری ہیں بعض ہیڈکواٹر وں سے جڑے علاقے ہیں جہا ں بنیادی سہولیات کا فقدان عوام کو مقدر بنا ہوا ہے یہ بات صحیح ہے کہ کچھ اضلاع میں طویل زیر التوا مسائل کا حل وہا ہے جیسا کہ ضلع پونچھ میں کئی سالوں سے مرمت طلب سڑکوںکی مرمت اور کام لیکن عوامی حلقے اس بات کا سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ 21وی دورمیں ہم زندگی کی کشتی کوکھینچ رہے ہیں جب ڈیجٹل دنیااور گلوبل لائزیشن کی با تیں کرتے ہے اور ملک کودنیاکی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں جموں وکشمیرمیں بجلی پانی کی قلت سڑکوں کی خستہ حالت طبعی سہولیات کے فقدان اسکولوں کالجوں میں طلاب کو ہرطرح کی سہولیت اور تدریسی عملے کی کمی کاسامنا نا کرنا پڑے ۔ہرسال بجٹ کے دوران ان بنیادی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے کروڑوں روپے مختص کئے جاتے ہے پھر عوام ان سہولیات سے محروم کیوں ایک نیوز ادارے کی رپورٹ کے مطابق’’ جموںو کشمیر بالعموم او روادی کشمیر بالخصوص پانی سے مالامال ہے مگرالمیہ اس بات کاہے کہ جموںو کشمیرکی 35%آباد ناصاف پانی استعمال کررہی ہے 15%لوگوں تک ابھی بھی پانی نہیں پہنچایاگیاہے 15%شہروں کوپانی پہنچنے کے دعوے کئے جاتے ہیںاور 35%دیہات اور قصبوں میں پانی کی فراہی دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہاہے ۔سڑکوں کی خستہ حالت کوئی نئیء بات نہیں ہے تعمیرات عامہ کامحکمہ ہر سال زبانی جمع خرچ تو کرتاہے تا ہم عملی اقدامات اٹھانے سے اس ادارے نے ہمیشہ گریز کیا۔ طبعی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے سرکاری اسپتالوں کی حالت ظاہر کرنا اب لوگوں کوناگوار ہورہاہے۔ عوامی حلقوں کامانناہے کہ سرکار تمام ڈاکٹروں کو چھٹی کردے ویسے بھی لوگوں کوپرائیویٹ کلنکوں پرہی علاج کرنے جاناپڑتاہے اور ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ہوتے ہیں جوسینکڑوں کروڑان اسپتالوں کی دیکھ ریکھ ادویات سامان خرچ کرنے ہوتے ہے وہی حکومت پرخرچ ہوتے سرکاری اسکولوں کوترقی کے منزلوں پرلے جانے کے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں تاہم اب سرکار اس بات کاخود اعتراف کرتی ہے کہ 19%سرکاری اسکولوں میں کمی آ گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں یاتوتدریسی عملہ نہیں زیرتعلیم طلبہ کوبیٹھنے کی گنجائش بجلی کی عدم دستیابی سٹاک کا نہ ہونے کے معاملات کاسامناکرنا پڑتاہے‘‘۔اگر21وی صدی میں بھی صورتحال یہی ہولوگوں کوطرح طرح کے مشکلات سے گزرنا پڑے جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہے کہ ہم نے چاند پرقدم رکھا ہم آ نے والے برسوں کے دوران دنیاکی تیسری بڑی معیشت بن کرسامنے آئے گے جب لوگوں کو ہی سہولیات دستیاب نہ ہو تو تیسری بڑی معیشت بننا کیابے معنی ثابت نہیں ہوگا ۔ جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقاجات میں بنیادی سہولیات کا فقدان تاہنوز عوا م کا مقدرہیں اس سلسلے میں مرکز اور یوٹی سطح اس فقدان کی بھرپائی وقت کی اہم ضرور ت ہے۔