تعلیمات ِ غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور اصلاح معاشرہ

0
0

نعیم الدین فیضی برکاتی

انسانی و بشری معاشرہ اپنی بقااور امن و استقرار کے لیے بہت ساری اہم اور بنیادی چیزوں کا تقاضہ کرتا ہے۔اگر یہ معدوم ہو جائیں تو معاشرہ نا مکمل،ناقص اور ادھورارہ جاتا ہے،قدریں ختم ہو جاتی ہیں،اخلاق اور اچھی روایات مٹ جاتی ہیں ۔پھر وہ انسانوں کا گروہ اور مجموعہ تو نظر آتا ہے لیکن روح پرواز کر چکی ہوتی ہے۔آپ ایسے معاشرے کو نہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی نمونہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ مصلح کامل،محسن انسانیت ،رحمت دوعالمﷺ نے جو سب سے بڑا اور انقلابی کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے عرب معاشرے کی غلط اور خسیس روایات کو توڑا اور ختم کیا اور قدیم فکری و علمی بے راہ روی کو نیست ونابود کرتے ہوئے انسانیت کے حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑی۔آپﷺ نے ایک طرف ظلم واستبداد اورفتن وفسادات کا قلع قمع کرتے ہوئے ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور دوسری طرف اخلاقی گراوٹ وپستی کو اپنے اخلاق حسنہ کی کرنوں سے روشنی عطا کی اور ایک عظیم اور مثالی معاشرے کا قیام عمل میں لائے۔
حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادرجیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ نے اس عظیم نبوی مشن پر پوری زندگی نہ صرف عمل پیرا رہے بلکہ اس کی ترویج واشاعت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا اور اپنے زمانہ میں اس مشن کو آگے بھی بڑھایا۔قابل غور بات یہ ہے مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ معاشرہ میںمختلف اعلیٰ اخلاقی قدریںزوال کا شکار بھی ہوتی ہیں۔برائیاں اور خرابیاں مختلف سطحوں پر جنم لیتی ہیں۔عدل و انصاف مفقودہونا شروع ہو جاتاہے۔ہوس ومادیت عام ہو جاتی ہے۔لوگوں کامطمع نظرصرف نفسانی شہوات کی تکمیل کے ارد گرد گھومتا ہے۔ایساہی کچھ حال پانچویںصدی ہجری کے آخر اور چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں تھا۔جس میںفتنہ اعتزال عباسی خلیفہ واثق باللہ اورفتنہ خلق قرآن خلیفہ مامون کے دور میں بطورآزمائش آچکا تھا۔لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی نے ان تمام ابتریوں اور زبوحالی کی کیفیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور معاشرہ کی اصلاح وبہتری میں بنیادی حیثیت تزکیہ نفس کو قرار دیا۔آپ نے نہ صرف اپنے عمل وکردار سے پوری دنیا میں اخلاقی قدروں کو عزت بخشی بلکہ آپ کی تعلیمات وارشادات کی وجہ سے ایسے نفوس قدسیہ اور سرخیل میدان میں آئے جنہوں نے آپ کی تعلیمات وارشادات کی روشنی میںاصلاح معاشرہ کو اپنا مطمع نظر بھی بنایا اور ایک کامیاب اور مثالی معاشرے کی تشکیل بھی کی۔جن میں سے چند کوہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
خدمت انسانیت
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ نے خدمت خلق کو اپنا اوڑھنا بچھونابنایا تھا اور معاشرہ کے ہر فرد کو دنیوی،اخروی،مالی ومادی،روحانی وباطنی الغرض ہر قسم کے نقصان سے بچانے کی ہمیشہ ہر ممکن کوشش کی۔آپ کی تعلیمات ہمیشہ خیر خواہی اور انسانیت نوازی پر مبنی تھیں۔حضور غوث پاک نے پڑوسیوں اور ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دی۔آپ اپنی کتاب الفتح الربانی میں ارشاد فرماتے ہیں :
اے لوگوں!افسوس ہے کہ تم پیٹ بھر کھالیتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے ہوتے ہیں ،پھر بھی یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم مومن ہیں۔ تمہارایمان کامل نہیں ہے۔
گویا آپ نے کامل اوردرست ایمان کی علامت بیان فرمائی کہ معاشرہ کے غریب،فقراء اورمحتاج لوگوں کا خیال رکھنا ایمان ہے۔دوسروں کے کام آنا اور غریبوں پر اپنا عزیز مال اور وقت خرچ کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔
تعلیمات و ارشادات
آپ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ اے بیٹے! میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ اغنیا ء کے ساتھ تم بھی بطور
ایک غنی اور پر وقار بن کر رہنا جب کہ غریبوں کے ساتھ عاجزی و تواضع سے رہنا۔ہر عمل میں اخلاص کادامن مضبوطی سے تھامے رہنا کہ ریاکاری اور دکھاوہ کو بھلا دینا۔ہمیشہ اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی کے لیے عمل کرنا۔اسباب و حالات کے بارے میں کبھی اللہ تعالیٰ کی ذات میں شک و شبہ نہ کرنا بلکہ ہر معا ملہ میں اللہ کی ذات کے ساتھ قائم رہو اور اس کے ہر فیصلے کو اپنے لیے بہتر جانو اور مانو۔اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کو کسی شخص کے سامنے نہ رکھنا،چاہے اس کے اور تمہارے درمیان محبت و مؤدت اور قرابت و دوستی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔جو شخص آدابِ شریعت نہیں اپناتا،قیامت کے دن آگ اسے ادب سکھائے گی۔جو شخص نبی کریم ﷺ کی پیروی نہیں کرتا،ایک ہاتھ میں آپ کی شریعت اور دوسرے ہاتھ میں قرآن نہیں تھامتا ،اس کی رسائی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک نہیں ہوسکتی۔اے عالِم! اگر تو دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے علم پر عمل کر اور لوگو ں کوعلم سکھا۔صاحب ِ ایمان کو چاہئے کہ پہلے فرائض ادا کرے،جب ان سے فارغ ہو تو سنتیں ادا کرے پھر نوافل میں مشغول ہو ۔جو آخرت کا طلب گار ہو اسے دنیا سے بے نیاز ہو جانا چاہئے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا طالب ہو اسے آخرت سے بھی بے نیاز ہو جانا چاہئے۔ تصوف میں سچا صوفی وہ ہے جو اپنے دل کو اپنے مولیٰ کے ما سوا سے پاک کر لے۔ان لو گو ں کی بات نہ کرو جو اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں۔ جہالت تمام تر فساد کا باعث ہے۔
تعلیم وتدریس
آپ نے تعلیم وتدریس میں بڑی جاں فشانی کے ساتھ زندگی گزاری۔چوں کہ علم وتعلیم انسانی معاشرے کے قیام کی بقا اور استقرار کا بنیادی عنصر ہے۔آپ نے تعلیمی سلسلے کے ذریعہ سے افراد سازی کا فریضہ انجام دیا کیوں کہ اچھے اور قابل افراد کے ذریعے سے ہی ایک اچھا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔چھٹی صدی ہجری بھی اس بات کی متقاضی تھی کہ با صلاحیت اور صاحبان استعداد افراد منظر عام پر آئیں جو بد امنی اور تخریبی تحریکوں کا خاتمہ کریں۔اس کے بارے میں آپ کی سب سے بڑی کاوش ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ کی علمی اور روحانی نشست میںستر ہزار افراد تک شریک ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔جن میں چار سو علماے کرام قلم ودوات لے کر حاضر ہوتے تھے جو آپ کے ارشادات وتعلیمات کو قلم بند کیا کرتے تھے۔آپ سے بہت سے لوگوں نے اکتساب فیض اور علم حاصل کیا حتیٰ کہ آپ کے شاگردوں میں بہت سے ثقہ علما کے طبقات ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کے بعد چشمہ بغداد سے سیراب ہونے والے آپ کے لائق وفائق تلامذہ نے بعد کے ادوار میں اصلاحِ ایمان وعمل کی تحریک جاری رکھی اور مشنِ غوثیت کو آگے بڑھایا اور اسے ساری کائنات میں عام کیا۔معاشرہ اور فکر کی تطہیر کے لیے آپ رضی للہ عنہ کے مواعظ و ارشادات کی ضرورت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کی عہد ِ غوثیت میں تھی اور احیائے دین کے لیے آپ کی تعلیمات کی اشاعت ہر علاقے کی ضرورت ہے۔لہذا ہم غلامانِ غوث اعظم پر ضروری ہے کہ ہم صرف دامنِ غوث پاک کے تھامنے ہی کادعویٰ نہ کریں بلکہ اپنے عمل وکردارسے بھی اس بات کا ثبوت دیں کہ ہم صرف نام والے غوثِ پاک کے عاشق نہیں ہیں۔بلکہ ہمارا ہر عمل عملِ غوثیہ کے مطابق ہو تاہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم تعلیمات وارشاداتِ غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی اشاعت کو اپنے زندگی کا نصب العین بنا لیں اور انہیں اپنے خطاب وبیان کے ذریعہ لو گوں کی عملی زندگی تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ آج بھی ان ارشادات وتعلیمات کی برکت سے ایک مثالی اور بہترین معاشرہ و سماج کی تشکیل ہو سکے۔

اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز،مہراج گنج(یوپی)
9792642810

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا