محمد اعظم شاہد
غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ جرائم و مظالم جاری ہیں، جنگ تباہیاں مچا رہی ہے ۔ غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی یہ پانچویں جنگ ہے، جس میں پانچ ہزار کے آس پاس بے قصور فلسطینی شہید ہوگئے ہیں، ان میں ہلاک ہونے والے معصوم بچوں کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو بتائی جا رہی ہے جبکہ سولہ ہزار سے زائد اس علاقے کے فلسطینی باشندے زخمی حالت میں ہیں۔ جنگ بندی کے آثار فی الحال کم ہی نظر آرہے ہیں، اقوام متحدہ جس کا قیام 1945 میں عالمی جنگوں کے بعد دنیا کے ممالک کے درمیان امن کے قیام کے لیے عمل میں آیا تھا، اس عالمی ادارے کی حماس اور اسرائیل کے درمیان اٹھارہ دنوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی اپیل ان سنی رہ گئی ہے ، گویا اس ادارے کی وقعت پر ایک بڑا سوال ہے ، چند دن قبل غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے میں پا نچ سوسے زائد زیر علاج مریض اور پناہ گزین فلسطینیوں کی ہلاکت پر دُنیا کے امن پسند ممالک اور عوام نے اسرائیل کے جارحانہ اور غیر انسانی اقدام کی بھرپور مذمت کی ہے ۔ مگر امریکہ جو دُنیا میں امن عالم کا علمبردار ہونے کا سوانگ بھرتا ہے اور خود کو حقوق انسانی کے تحفظ کا ٹھیکہ دار بتاتا رہا ہے، اس ملک کا شاطرانہ اور بہیمانہ چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے ۔ امریکہ کی اسرائیل کے لیے حمایت نے موجودہ جنگ کو سامراجیت کا نیا رنگ دیا ہے ۔ اسرائیل غزہ کے اسپتالوں ، مساجد ، مکانوں ، گرجاگھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے ۔ غزہ کے الاہلی اسپتال پر وحشیانہ فضائی حملے سے لا تعلقی کا اسرائیل نے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس کی جانب ہی سے داغے جانے والے میزائلوں کا ہی نتیجہ ہیں، جو اپنا نشانہ پار کرنے سے پہلے ہی غزہ میں جاگرے ہیں، اس جانبدارانہ سازشی بیان کی امریکی صدر نے اپنی اسرائیل آمد کے دوران اسرائیل کے بیان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسرائیل کو اس معاملے میں بے قصور قرار دیتے ہوئے کلین چٹ دے دی اور حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میںاسرائیل کی جانب سے ہو رہی بربریت کو اسرائیل کے حق دفاع سے تعبیر کرتے ہوئے جائز قرار دے دیا ۔ امریکہ کی ایران اور روس اور دیگر ممالک کو اس جنگ سے دور رہنے کی تلقین پر بھی کئی سوال اٹھ رہے ہیں، گویا امریکہ نہتے فلسطینیوں کی غزہ میں ہر طرح کی بربادی کا خواہاں ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں موجودہ مذکورہ جنگ کے باعث حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں، اسرائیل اپنے حامیوں کی مستقل حمایت کے تکبر میں ہر دن نئے نئے دعوے اور دھمکیاں دیتا آرہا ہے ۔ ایران کی جانب سے حزب اللہ اور حماس کی حمایت سے باز رہنے کی آواز دیتے ہوئے اسرائیل نے گویا دُنیا کے ممالک میںاپنی غیر اختلافی پوزیشن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایران اور لبنان کو جنگ میں کسی بھی طرح کی شمولیت کے سنگین نتائج کی دھمکی دے کر اسرائیل نے غزہ کی تباہی کا اعادہ کرتے ہوئے جنگ کے دورانیہ کو دراز رکھنے کی سمت اپنے جارحانہ موقف کو واضح کیا ہے ۔ فرانس ، جرمنی اور برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے جنگی اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کو بھی بے اثر کرکے رکھ دیا ہے ۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر لگی پابندیوں سے پہلے ہی سے وہاںغریبی ،بے روزگاری اور مایوسی کا ماحول عام تھا۔پچھلی چار جنگوں میں غزہ میں اسرائیلی حملوں کے باعث جو تباہی مچی تھی اور جس طرح معیشت متاثر ہوئی تھی اس کے تناسب میں اب کی پانچویں جنگ میں حماس کے زیر اثرفلسطینی علاقہ غزہ میں جان و مال کا نقصان کئی گنا بڑھتا ہی جارہا ہے۔غزہ میں بائیس لاکھ فلسطینیوں کی آبادی میں بچوں اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ غزہ میں پھیلی غربت اور انتظامی ڈھانچہ کی قلت کے باعث ایک رپورٹ میں یہ مایوس کن حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس گنجان اور چاروں طرف سے پابندیوں کے شکار خطے میں دس ہزار کی آبادی کے لیے اسپتالوں میں صرف تیرہ بستر(بیڈس) ہی دستیاب ہیں۔ یعنی بیماریوں اور جنگ سے متاثرہ فلسطینیوں کے علاج کے لیے سہولیات بالکل ناکافی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اگر جنگ جاری رہی اور زخمیوں کی تعداد بڑھتی رہی تو علاج دیگر تباہیوں کے مقابلے میں بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔غزہ کے اسپتالوں میں سرجری کے لیے آلات کی قلت کے باعث بغیر بے ہوشی کے آپریشن کیے جارہے ہیں۔ سلائی مشین کی سوئیاں(needles)اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والا vinegar(سرکہ) زخمیوں کے علاج کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
ایک طرف جہاں دُنیا میںحماس اور اسرائیل کی جاری جنگ کے نتیجے میں لوگ دو فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک اسرائیل کی جارحیت کے طرفدار ، دوسرے مظلوم فلسطینیوں کے حامی ، کئی ممالک میں فلسطینیوں کی حمایت اور جنگ بندی کی خاطر مظاہرے ہو رہے ہیں، مگر ہندوستان میں اس کی اجازت پولیس اور حکام کی جانب سے نہیں دی جا رہی ہے ۔ جبکہ ہندوستان، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن اور دو خود مختار مملکتوں کے قیام کا حامی رہا ہے ۔ مگر فلسطینی کاذ کے حوالے سے ہندوستان فلسطین کا حامی رہا ہے ۔ مگر 7 ؍ اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر فضائی حملے کے فوری بعد وزیر اعظم مودی نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کردیا۔ مگر بعد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہندوستان کا دو رُخی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ مگر باوجود اس کے فلسطینی کاذ کے لیے وطن عزیز میں کسی بھی نوعیت کے مظاہرے اور حمایت کے لیے پابندیاں جاری ہیں، جو ہر لحاظ سے غیر جمہوری اقدام ہے ۔ غزہ کے متاثرین کے لیے طبی اور دیگر ضروری بازآباد کاری کی اشیاء کی فراہمی کے لیے انسانیت نواز امداد کا سلسلہ اب شروع ہوچکا ہے ۔ ایندھن کی قلت نے بالخصوص اسپتالوں میں جنریٹرس کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ اس لیے ایندھن کی دیگر ممالک سے غزہ کے لیے امداد پر اب بھی اسرائیل بضد ہے کہ یہ امداد فراہم نہ کی جائے ، اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کے آمرانہ رویے سے خود اسرائیلی امن پسند باشندے بیزار رہے ہیں، مگر اس جنگ کو اپنی سیاسی ساکھ کی بقا کے لیے استعمال کرنے والے نیتن یاہو نے خود فلسطین کی شناخت کو درہم برہم کرنے سازشی طورپر حماس کا حوصلہ بڑھایا تھا، مذکورہ جنگ کے خاتمے کے حوالے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ جنگ بندی صرف اور صرف مصالحت اور باہمی گفتگو ہی سے ممکن ہوسکتی ہے۔ اسلحہ ، بربریت اور بمباری پر لگام کسنے اسرائیل کو اور اس کے حریف حماس کو گفتگو پر آمادہ کرنے عرب ممالک اور دیگر امن کے خواہاں ممالک کے سربراہوں کی ثالثی مداخلت کارگر ہوسکتی ہے ۔ ورنہ یوکرین میں جاری جنگ جوتقریباً بیس مہینوں سے تباہی کی نذر ہو رہی ہے ۔ اسی طرح ریزہ ریزہ بکھرا ہوا ٹوٹے ہوئے غزہ کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ، بے قصور باشندوں کو انتقام کا نتیجہ بنانے سے بچانے کے لیے عملی طورپرامن کے خواہاں ممالک کی مداخلت ناگزیر ہے ۔
[email protected] cell:9986831777