فلسطین اور اسرائیل، تاریخ کے آئینے میں

0
0

 

 

 

 

 

 

مفتی عبدالرزاق بینگلور

فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا، جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ ۱۹۴۸ء سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا، جو خلافتِ عثمانیہ میں قائم رہا؛ مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۴۸ء میں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی، اس کا دارالحکومت بیت المقدس تھا، جس پر ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ بیت المقدس کو یروشلم کہتے ہیں اور یہ شہر یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے، مسلمانوں کا قبلہ اوّل یہیں ہے۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد بہت پرانی ہے، دنیا کی ہرزبان کے ادب میں اس پر کتابیں تخلیق ہوئی ہیں، اردوادب میں بھی علامہ اقبال، فیض احمد فیض، ظفر علی خان، احمد ندیم قاسمی، احمدفراز، انتظار حسین اور نعیم صدیقی وغیرہ نے عمدہ ادب تخلیق کیا ہے، اِس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے آصف فرخی کی مرتبہ ’’دنیازاد کا عاشق من الفلسطین نمبر‘‘ اور محمد افتخار شفیع کی کتاب ’’اردوادب اور آزادیٔ فلسطین‘‘ دیکھی جاسکتی ہیں۔ان علاقوں میں عبرانی قومیت (Hebrews) کے لوگوں کی آمد کا نشان ولادتِ مسیح سے لگ بھگ ۱۱۰۰؍سال قبل میں ملتا ہے، حضرت سیموئیل جو اللہ کے نبی تھے، پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے، انہوںنے کافی عرصہ حکومت کی اور جب وہ بوڑھے ہوگئے تو انہوںنے اللہ کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کیا، اِس واقعہ کا ذکر قرآنِ مجید کے دوسرے پارہ میں سورۂ بقرہ کی آیات ۲۴۷تا۲۵۲ میں ملتا ہے۔حضرت طالوت علیہ السلام نے ۱۰۰۴ قبل مسیح سے ۱۰۲۰ قبل مسیح تک حکمرانی کی، اِس دَوران انہوںنے جنگ کرکے جالوت (Goliath) کو مغلوب کیا اور اس سے تابوتِ سکینہ واپس لیا، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے۔حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت دائود علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے، انہوںنے پہلے حیبرون (Hebron) اور پھر بیت المقدس میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ بیت المقدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے، یہ دنیا کا واحدشہر ہے جو یہودیوں مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں مقدس اور محترمم ہے، اِس شہر کا موجودہ نام ’’یروشلم‘‘ حضرت دائود علیہ السلام نے رکھا تھا۔
حضرت دائود علیہ السلام نے ۱۰۰۴قبل مسیح سے ۹۶۵ق م تک ۳۳؍سال حکمرانی کی، ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ۹۶۵ق م میں حکومت سنبھالی جو ۹۲۶قبل مسیح تک ۳۹؍سال قائم رہی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دوحصوں: سامریہ اور یہودیہ میں تقسیم ہوگئی، دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست وگریباں رہیں۔
۵۹۸قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بختِ نصّر نے حملہ کرکے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کرلیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کرکے بابل میں قید کردیا۔ ۵۳۹قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رِہا کرکے لوٹاہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔
۳۳۲قبل مسیح میں یروشلم پر سکندر اعظم نے قبضہ کرلیا۔ ۱۶۸ قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا؛ لیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیرنگین کرلیا۔ ۱۳۵قبل مسیح اور ۷۰قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیاگیا، اس زمانے میں اس خطے کا نام فلسطین پڑگیا۔
۲۰؍اگست ۶۳۶ء کو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کرلیا، یہ قبضہ پُرامن طریقہ سے عمل میں آیا۔ ۴۶۳؍سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دَوردَورہ رہا، تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیرعرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلنطنتوں کا حصہ رہا۔ ۱۱۸۹ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی۔
چارصدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیاگیا۔
فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقلِ مکانی سترہویں صدی کے اواخر میں شروع ہوگئی۔ ۱۹۳۰ء تک نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہوگیا۔ ۱۹۲۰ئ، ۱۹۲۱ئ، ۱۹۲۹، اور ۱۹۳۶ء میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقلِ مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پُرتشدد مظاہرے ہوئے؛ لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔
۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ برطانیہ نے اِس علاقے سے ۱۹۴۸ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کردیاگیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطین ریاست بھی قائم کردی جاتی؛ لیکن ایسا نہ ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کردیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کردیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے؛ بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہوگیا۔
۱۹۴۹ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے، اس کے بعد اُردن نے غرب اُردن کے علاقے پر قبضہ کرلیا، جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی، تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کو اٹانومی سے محروم رکھا۔
۲۹؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کرکے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ ۶؍نومبر کو جنگ بندی عمل میں آئی، عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہوا، جو ۱۹؍مئی ۱۹۶۷ء تک قائم رہا، جب مصر کے مطالبے پر اقوامِ متحدہ کے فوجی دست واپس بلالیے گئے، مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمد وفت پر پابندی لگادی۔
۵؍جون ۱۹۶۷ء کو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی، اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر قبضہ کرلیا۔ اس کے علاوہ انہوںنے مشرقی یروشلم کا علاقہ، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور غرب اُردن کا علاقہ بھی اپنے قبضہ میں کرلیا۔ ۱۰؍جون کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کرادی اور معاہدے پر دستخط ہوگئے۔
۶؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کو یہودیوں کے مقدس دن ’’یومِ کپور‘‘ کے موقع پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کردیا، اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کردیا اور نہر سویز عبور کرکے مصر پر حملہ آور ہوگیا۔ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کو جنگ بندی عمل میں آئی اور اقوامِ متحدہ کی امن فوج نے چارج سنبھال لیا۔ ۱۸؍جنوری ۱۹۷۴ء کو اسرائیل نہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلاگیا۔
۳؍جولائی ۱۹۷۵ء کو اسرائیلی دستوں نے یوگنڈا میں انٹی بی (Entebe) کے ہوائی اڈے پر یلغار کرکے ۱۰۳ یرغمالیوں کو آزاد کرالیا، جنہیں عرب اور جرمن شدت پسندوں نے اغواء کرلیا تھا۔
نومبر ۱۹۷۷ء میں مصر کے صدر انور السادات نے اسرائیل کا دَورہ کیا اور ۲۶؍مارچ ۱۹۷۹ء کو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کرکے ۳۰؍سالہ جنگ کا خاتمہ کردیا، اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ (تین سال بعد ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کردیا)۔
جولائی ۱۹۸۰ء میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا۔ ۷؍جون ۹۱۸۱ء کو اسرائیلی جیٹ جہازوں نے بغداد کے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کردیا۔ ۶؍جون ۱۹۸۲ء کو اسرائیلی فوج نے پی ایل او کی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کردیا۔ مغربی بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی سال ۱۴؍ستمبر کو لبنان کے نومنتخب صدر بشیر جمائل کو قتل کردیاگیا۔
۱۶؍ستمبر ۱۹۸۲ء لبنان کے مسیحی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دومہاجر کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو بلاک کردیا۔ اس سفاکانہ کارروائی پر اسرائیل کو دنیابھر میں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا۔
۱۹۸۹ء میں انتفادہ کے زیراہتمام فلسطینی حریت پسندوں نے زبردست عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ ۱۹۹۱ء کے آغاز میں جنگ خلیج کے دَوران عراق نے اسرائیل کو کئی سکڈ میزائلوں کا نشانہ بنایا۔ط
موجودہ صورتِ حال:
مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنائو ہمیشہ ہی رہتا ہے۔
غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسرِاقتدار ہے، جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں؛ تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔
غزہ اور غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیاں اور کارروائیاں ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ اسرائیل کہتا ہے کہ وہ تو صرف خود کو فلسطینی تشدد سے بچا رہے ہیں۔
رَواں برس ماہِ رمضان کے آغاز سے ہی یہاں صورتِ حال کافی کشیدہ ہے۔
متعدد فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے فلسطینیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
مرکزی مسائل کیا ہیں؟
ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطین اور اسرائیل اتفاق نہیں کرسکتے۔
اُن میں یہ سوالات ہیں: فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ غربِ اُردن میں یہودی بستیاں رہیںگی یانہیں؟ کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکٹھے رہ سکتے ہیں؟ اور شاید سب سے مشکل یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بننی چاہیے؟
گزشتہ ۲۵؍سالوں میں امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں؛ مگر معاملات حل نہیں ہوسکے۔
اسرائیل آج بھی غربِ اُردن پر قابض ہے، تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں؛ مگر اقوامِ متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔
اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنادارالخلافہ مانتا ہے، جب کہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ امریکہ اُن چندممالک میں سے ایک ہے جو اسرائیلی دعوے کو تسلیم کرتا ہے۔
گزشتہ ۵۰؍سالوں میں اسرائیل نے یہاں آبادیاں بنالی ہیں، جہاں چھ لاکھ یہودی رہتے ہیں۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں، جب کہ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔ یہی مسئلہ آج بھی ان کے درمیان گشت کررہا ہے، جس کے تئیں یہ صورتِ حال ۲۰۲۳ء میں بھی موجود ہے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا