غزل

0
0

 

 

 

 

 

 

احمد سفیان مظفرپوری

 

8789387501
محبت اب دل میں بسانا نہیں ہے
کسی غیر سے دل لگانا نہیں ہے
تیرے در پہ اب آنا جانا نہیں ہے
کہ ماضی کے جیسا زمانہ نہیں ہے
سنی جب شکایت سمجھ میں یہ آیا
کہ یاروں کو اب مے پلانا نہیں ہے
ہے گر جو محبت تو اظہار کردو
کہ رندوں کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے
بچھڑکر بھی تجھ سے امیدِ وصل ہے
مرے جیسا کوئی دیوانہ نہیں ہے
صلہ یہ ملا ہے محبت کا مجھ کو
کہ شکوہ زباں پہ بھی لانا نہیں ہے
کہا ہے ہوا سے یہ روشن دیے نے
کہ جلنا ہے فطرت بجھانا نہیں ہے
وہ دا غِ محبت لگا کرکے بولے
حقیقت سے پردہ اٹھانا نہیں ہے
ہمیں سے ہی روشن تھی محفل جہاں کی
ہمارا ہی اب آشیانہ نہیں ہے
لکھا ہوں غزل اپنے خونِ جگر سے
کہ راہِ تغزل مٹانا نہیں ہے
غزل کا جو مطلع کہا ہم نے یاروں
حقیقت ہے کوئی فسانہ نہیں ہے
اٹھائے وہ انگشت غالب پہ کیسے
ہے سفیانؔ کوئی یگانہ نہیں ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا