انٹرویوکار ڈاکٹر غضنفر اقبال
غضنفراقبال: کیااُردو کے اساتذہ اپنی زبان کا ادب پڑھتے ہیں؟
رعنا حیدری: ایک گنتی تو مقرر نہیں کی جاسکتی پڑھنے والوں کی البتہ ایک اندازہ بتایا جاسکتاہے کہ اُردو کے اساتذہ اپنی زبان کاادب پڑھتے تو ہیں لیکن محض سرسری سا انداز ہے۔یہ اس لیے کہ اسکولوں میں اُردو پڑھانے والے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو کسی جریدہ کے مضامین یا شاعری پڑھ لیتے ہیں۔کیوں کہ زندگی کا ایک وتیرہ ان کے لیے ہوتاہے،جس میں اُردو کے ادبی رجحان کے لیے جگہ کم ہی بنتی ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اُردو کے اساتذہ کاایک حلقہ ایسا ہے کہ وہ نہ صرف اُردو ادب سے واقف ہے بلکہ تنقیدی ذہن کا بھی اظہار ہوتاہے۔ افسانے ناول بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ان پر اظہار ِ خیال بھی ہوتاہے۔کم از کم میر اور غالب کے تو حوالے اُردو کے اساتذہ مل جاتے ہیں لیکن جس طرح عبارت ملنی چاہیے وہ نہیں ملتی۔ کم از کم ایک گروہ ایسا ملتاہے جوادبی تحریروں کو محض دل چپسی کے نقطۂ نظر سے دیکھتاہے۔کسی پیام کی تلاش ان کے رجحانات میں شامل نہیں ہے۔ اگر آپ اقبال کی ہر اُردو استاد سے اس کی توقع کریں تو یہ توقع غلط ثابت ہوتی ہے۔اس لیے صرف اتنا کافی ہے کہ بدقسمتی سے اُردوادب سے جتنی ذہنی استعداد کا اظہار ہونا چاہیے تھا وہ ابھی نہ ہونے کے برابر ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
س: اورنگ آباد دکن میں آپ کی معاصر شاعرات وحیدہ نسیم، شفیق فاطمہ شعریٰ اورکنیز فاطمہ کا شعری اظہار آپ کی نظر میں؟
ج: وحیدہ نسیم کی شاعرانہ عظمت ان کے روایتی انداز کو خوب سے خوب تر بنانے پر منحصر ہے۔ انھوںنے غزل اور نظم کی قائم تعریف سے انحراف نہیں کیا بلکہ اسی کو اپنے چنندہ الفاظ کے ساتھ انسانی جذبوں کا خاکہ پیش کیاہے۔ ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے قاری کو ایک سرور کا احساس ہوتاہے۔یہی احساس ان کے فن پارے کی کامیابی کا ضمانت دار ہے۔شفیق فاطمہ شعریٰ،ایک ایسے انسان کی نقاشی کرتی ہیں جو فلسفی نہ ہونے کے باوجود شاعرہ کی بنائی ہوئی دنیا میں قدم جمانے لگتاہے کیوں کہ شعریٰ کا انداز ایک روانی سے گذرتے ہوئے لفظوں کے سیلاب کا سا ہے جو مشکل ہوتے ہوئے قابلِ قبول ہے ۔یعنی شعریٰ کی روانی سے ہراساں ہوتے ہوئے بھی اس سیلاب کو محسوس کرنے میں محو ہوجاتا ہے اور پھر وہ روانی جو شعریٰ کے لہجے میں ہے قاری کے ذہن ودل پر وارد ہونے لگتی ہے اورشعریٰ کا قاری سے بہت مضبوط رشتہ استوار ہوجاتاہے اوروہ اپنے پڑھنے والے کو اس دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں انسانی ذہن کی اچھوتی لیکن مانوس دنیا آباد ہے۔شعریٰ کئی اعتبار سے مقبول شاعرہ تھیں وہ ہر دور میں پڑھی اورسمجھی جائیںگی۔کنیز فاطمہ اورنگ آباد کی ایک باصلاحیت شاعرہ تھیں۔ان کی زبان لاجواب تھی۔ جب بھی ان سے بات چیت ہوئی یوں لگا الفاظ ایک خاص سانچے میں ڈھل کر سننے والوں کے دلوں میں اُتر رہے ہیں ۔وہ بہت متاثر کرنے والی ہیں۔کنیز فاطمہ کا شعری لہجہ انوکھا اوردل میں اُتر جانے و الا ہے۔ان کے ہاں احساسات کی عکاسی بھی ہے اور بہت دھیمے انداز میں بڑی بات کہنے کا فن بھی انھیں آتاتھا۔ان کی نظمیں سن کر ایک لرزتے ہوئے لہجے کا دھیان آتاہے۔گریہ ضبط کرنے کا خوب صورت انداز ہ ان کی نظم نگاری کا خاصا تھا
۔س: آپ کا فن اورزندگی کے بارے میں کیا نقطۂ نظرہے؟
ج: فن ایک الگ واسطہ نہیں ہے زندگی سے جڑا ہوا ہے۔وہ ایسے کہ جہاں تک زبان کا تعلق ہے وہ جب بھی ادا ہوتی ہے فن کہلاتی ہے۔اگریوں کہا جائے کہ فن کا زندگی کے ساتھ عامل و معمول کا رشتہ ہے یعنی جہاں زندگی ہے وہاں فن ہے۔چاہے اس کے ادا کرنے والے الفاظ نہ ہوں لیکن جب بھی موقع ملتاہے زندگی الفاظ کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔لہٰذا نہ اکیلے فن کی تعریف کی جاسکتی ہے نہ صرف زندگی کے معنی پیش کیے جاسکتے ہیں۔کیوں کہ براہِ راست زندگی سے فن کی افادیت یہاں بیان نہیں کی جاسکتی،لیکن فن زبان میں کھل جانے کے بعد بھی بین السطور کے طورپر یا بالراست زندگی کو آئندہ کا پیغام دیتاہے،چاہیے تمام لوگ اس کا اعتراف نہ کریں لیکن کچھ لوگ ہی سہی فن کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔میرے نزدیک فن زندگی کا دوسرا نام ہے چاہے وہ قصوں میں بیان ہو یا نغمے کی شکل میں ہو،رنگوں میں گھلا ہوا ہو یا لفظوں میں چھپا دیا گیاہو۔ دنیا کی بیشتر زبانوں کا ادب اس بات کی وضاحت کرتاہے کہ اس کا مقصد صرف دل چسپی کی خاطر احاطۂ تحریر میں لانا نہیں ہے بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی ایسا پیغام چھپا ہے جوانسانی دنیا کے لیے سود مند ثابت ہو چکا ہے۔ اس کے لیے ’’کفن‘‘ اور’’ہم دیکھیں گے’’ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، جواپنے ذوق کی تسکین سے زیادہ ایک واضح پیغام کے لیے لکھے گئے۔فن اور زندگی دونوں ایک ہیں۔
س:آپ اپنے عہد کے نامور شاعر حضرت یعقوب عثمانی کی بہو اور ممتاز سخنور وادیب ڈاکٹر محمد یوسف عثمانی صاحب مرحوم ومغفور کی نصف بہتر ہیں۔باپ اور بیٹے کی تدریسی اورادبی خدمات کوآپ کس نگاہ سے دیکھتی ہیں؟
ج: یعقوب عثمانی صاحب کی تدریسی وشاعرانہ صلاحیتوں سے میں بے حد متاثر ہوں۔ہم یعقوب عثمانی کو بھیّا کہتے تھے۔بھیّا نے عالمانہ سفر کو بہت حسن وخوبی سے مرتے دم تک جاری رکھا۔اگرانھیں علامہ کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا۔وہ چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ وہ جب کسی ادبی موضوع پر بولنا شروع کرتے بس ایسا لگتا تھا کہ وہ باتیں سیدھی دل ودماغ پر ثبت ہو رہی ہیں۔جب وہ سمجھانا شروع کرتے تو لگتاایک بحرذقار ہے جو مڑا چلا آرہاہے۔ مجھے یاد ہے کہ سودا اورذوق کے قصائد میں نے ان ہی سے سمجھے تھے۔بھیا کے مزاج میں عالمانہ ٹھہرائو تھا۔ گھر والوں پر اپنا رعب ڈالنا کبھی نہیں آیا۔ہرایک سے اس کی استطاعت کے مطابق گفتگو کرتے لیکن علمی میدان میں ان کی گفتگو دیکھنے اور سننے کے لائق ہوتی۔ شاعری میں بھی ان کا اپنا الگ رنگ تھا۔روایتی ہونے کے باوجود ان کی شاعری دل کو چھو جاتی تھی۔واردات کی اپنی الگ شان تھی۔
س:سکندر علی وجد:حیات اورشاعری‘ پرآپ نے آزادانہ تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی تھی۔ سکندر علی وجد کی نظمیہ شاعری پرآپ کے کیا تاثرات ہیں؟
ج: سکندر علی وجد نے شاعری کے میدان میں اپنی جولانیاں دکھائیں اور کامیاب بھی ہوئے۔ غزلیں،نظمیں سب پر طبع آزمائی کی لیکن ایک خیال یہ ہے کہ وہ نظم گو شاعر کی حیثیت سے کامیاب رہے ۔وجد کی نظم نگاری میں مناظر فطرت،شخصی وارداتی،سیاسی،سماجی نظموں کے علاوہ قدیم آثار وفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے متعلق نظمیں لائق مطالعہ ہیں۔ ایلورہ اور اجنتا تو وجد کی پہچان بن چکی ہیں۔وجد کے نام کے ساتھ ہی ان دونوں نظموں کا خیال آجاتا ہے۔ان نظموں میں جہاں فنون لطیفہ سے وجد کی غیر معمولی دلچسپی کااظہار ہوتاہے۔ وہیں یہ نظمیں یہ احساس بھی دلاتی ہیں کہ یہ خراجِ عقیدت صرف ان پتھر کی عمارات ہی کو نہیں بلکہ اس پوری تہذیب کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے،جس کی وجہ سے یہ عمارات وجود میں آئی ہیں۔ سکندرعلی وجد کی نظمیہ شاعری متوجہ کن ہے جس کے اثرات دیر پا ہیں۔
س:آپ کے زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے مقالے کن موضوعات پر لکھے گئے؟ ریسرچ اسکالر کے نام کیاہیں؟
ج: شعبۂ اُردو،ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑا یونیورسٹی اورنگ آباد سے میری وابستگی چند برس ہی تھی۔اس دوران مندرجہ ذیل مرد وخواتین نے میری نگرانی میں ڈاکٹریٹ کیاتھا۔علی عباس حسینی:شخصیت اور فن(ڈاکٹر ثریا جمال)، دکنی شاعر سلیمان خطیب:حیات اورادبی خدمات(ڈاکٹر ذکیہ فریدی)،مراٹھواڑا کی نظم گو خواتین شعرا(ڈاکٹر رضوانہ شمیم)، بشر نواز: فن اورشخصیت(ڈاکٹر رضیہ پروین)،پریم چند کی ناول نگاری(ڈاکٹر فرحت نسرین)، اختر الزماں ناصر:فن ارشخصیت(ڈاکٹر شرف النسا)،اُردو افسانہ 1980 کے بعد(ڈاکٹر غضنفر اقبال)،حمایت علی شاعر: حیات اور شاعری(ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی)،مرزا رفیع سودا بہ حیثیت مرثیہ نگار(ڈاکٹرشیخ اشفاق احمد)،اُردو جدید شاعری کے منتخب غیر مسلم شعرا(ڈاکٹر یوسف صابر خان)۔
س:آپ کی نظم کے قاری کے لیے آپ کا شعری پیغام؟
ج:روشنی سے خواب کے رشتے نہ جوڑو/نہ لب کھولو/
کہ تعبیروں سے لفظوں کا تعلق صرف اتنا ہے/
کوئی دھرائے جب بھی رات کا دھندلا یا منظر/
تو دل میں/خوف بھی اک آرزو کے ساتھ یوں کروٹ بدلتاہے/
کہ جیسے/بس اسی کے واسطے دنیا بنی ہے/اور باقی سب حکایت ہے۔