وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹہرے

0
0

 

 

 

 

 

 

محمد اعظم شاہد

غزہ میں بسے مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کے مسلسل جارحانہ حملے اور غیر انسانی سلوک کے خلاف تقریبا تیرہ برس سے حماس اسرائیل کے خلاف محاذ آرائیوں میں ملوث ہے۔ اسرائیل نے 1948 میں فلسطینی عرب باشندوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کر کے انہیں (فلسطینیوں کو) جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کی تحریک اور اسرائیل کی بربریت انسانی تاریخ کا المناک باب ہے۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ کی مستقل حمایت نے اسرائیل کے منصوبوں میں تقویت فراہم کی ہے۔ جبکہ بے بس فلسطینیوں کو خود عرب ممالک کی مصلحت پسندی اور ریا کاری نے عرصہ دراز سے نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطین کا ایک حصہ مغربی کنارہ پر مشتمل جو فلسطینی اتھارٹی کے زیر نگراں ہے۔ یہاں کی حکومت نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ حالات کے تحت یہ حصہ محفوظ ہے۔ اس لیے بھی کہ یہاں اعتدال پسندی اور حکمت کارفرما رہی ہے فلسطینیوں کی، جس کا سہرا پی ایل او کے سر براہ عہد ساز یا سر عرفات کے سر جاتا ہے۔ فلسطین کا دوسرا حصہ اسرائیلی مملکت سے لگا ہوا غزہ پٹی علاقہ حماس کے زیر نگرانی ہے۔ تقریباً بائیس لاکھ فلسطینی اس علاقے میں بستے ہیں۔ حماس کی محاذ آرائیوں اور اسرائیل کے خلاف اس کی مزاحمت نے اقوام متحدہ اور دیگر حما یتوںں نے اسے(حماس کو) دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ غزہ پٹی علاقے کو اسرائیل نے طویل عرصے سے چاروں طرف سے بند کر کے ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپنی تمام تر بنیادی ضروریات کے لیے اس علاقے کے مقیم فلسطینی باشندوں کو اسرائیل کے رحم و کرم پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ فلسطینی عرب جنگوں سے ہر بار غزہ کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نہتے عورتوں، بچوں اور بوڑھے فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ اور بربریت سے نہ صرف غزہ میں رہ ر ہے فلسطینیوں کے دل مغموم رہے ہیں۔ بلکہ ہر امن پسند آزادی کی افادیت سے آشنا اور انسانی حقوقs Human rightکا طرفدار فرد مضطرب رہا ہے۔ مگر اقوام متحدہ جو سو پر پاور ممالک بشمول امریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتکی بناہوا ہے۔ یہ ادارہ اپنی فکر جتاتا رہا ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اسرائیل کو تنبیہ بھی کرواتا رہتا ہے کہ اپنی جارحیت سے وہ (اسرائیل) باز رہے۔ اپنے تکبرمیں مگن اسرائیل کو جہاں طاقتور مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے وہ مستقل عالمی امن کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ غزہ پٹی میں جو چالیس میل سے زیادہ طویل دیوار اسرائیل نے چڑھا رکھی ہے تاکہ فلسطینی باشندے جلاوطن کے سلگتے احساس کے ساتھ محکوم بن کر شہری آزادی سے محروم رہ کر سسکتے رہیں۔ یہ عصر حاضر کی تاریخ میںنسلی تطہیرapartheidکی گھناؤنی اور انسانیت دشمن مثال ہے ،جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہی ہے۔
اسرائیل کی دہشت گردانہ بربریت اور جارحیت سے مغربی دنیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور وسائل کا حماس کو بہتر اندازہ رہا ہے۔ باوجود اس کے حماس نے 7 /اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر غیر متوقع طور پرحملہ کر دیا۔ جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل نے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ تادم تحریر دس دنوں کی جنگی کارروائی اسرائیل کی جانب سے اندھا دھند بمباری کے باعث غزہ میں چار ہزار معصوم فلسطینی شہری جاں بحق ہو گئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ہر روز ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ دس ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں۔ اسرائیل نے مکمل طور پر غزہ میں بسے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا عزم کیا ہوا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مکان مسمار کر دیئے گئے ہیں۔ اسپتالوں میں دوائیوں کی قلت، بجلی کی عدم فراہمی کے ساتھ جزیٹرس کے ساتھ جو زندگی بچانے والے آلات کام کر رہے ہیں وہیں ڈیزل کی قلت سے حالات تشویشناک بنتے جارہے ہیں۔ اسرائیل نے پینے کا پانی، کھانے پینے کی اشیا، بجلی اور دوائیوں کی فراہمی کے لیے آمد و رفت پر پابندی لگا کر جنگ میں اس صدی کا بھیا نک اور وحشت ناک سلوک کا مظاہر ہ کیا ہے۔ پوری دنیا میں امن پسند احباب اور ادارے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ امریکہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کر دار ادا کر رہا ہے۔ اور دوسری جانب یہ اسرائیل کی حمایت میں اس کو اسلحہ بھی پہنچارہا ہے۔ امریکہ جنگی بحریہ کے جہاز اسرائیل کے اطراف تعینات کیے گئے ہیں تا کہ وہاں سے حزب اللہ اور ایران کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کو روکا جائے۔ اسرائیل جس نے 1948 میں اپنی عسکریت پسند تنظیمیں ہگامہ اور ار گن کے ذریعہ مقامی فلسطینی عرب باشندوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کر کے ان کی زمین پر نا جائز قبضہ جمالیا تھا۔ دیگر عرب ممالک کے آپسی اختلافات اور انتشار نے فلسطینیوں کی حمایت سے بڑھ کر اپنے مفادات کے تحفظ پر توجہ دی۔
حماس کو دہشت گرد اور عسکریت پسند قرار دینے والے ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی اسرائیل کی حمایت میں لگے ہیں۔ جنگ بندی فوری ہو جائے ایسے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ 2014 کی جنگ جو چھ ہفتے جاری رہی جس میں اسرائیل نے جو اسلحہ استعمال کیا تھا اور جس حد تک تباہی مچائی تھی اس کے تناسب میں اسرائیل نے اپنے جنگی وسائل کا بے جا اس جنگ میں استعمال کر کے دنیا کو حیرت میں ڈالا ہی ہے۔ مگر غزہ میں بے قصور عام فلسطینی باشندوں کو موت، بھوک، پیاس، تباہی، زخمیوں کے علاج کے لیے مشکلات کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پینے کا پانی غذا کی فراہمی بجلی کی سپلائی اور دوائیوں کی فراہمی اگر اسرائیل کی جانب سے بحال نہیں کی گئی تو تباہ شدہ غزہ موت کا میدان بن جائے گا۔ غزہ میں مصیبت کے مارے فلسطینیوں کو دن میں دو گلاس پینے کا پانی بھی بمشکل میسر آ رہا ہے۔ اسرائیل میں بھی عام شہری ایک ہزار دو سو کے آس پاس حماس کے حملے میں فوت ہو گئے ہیں اور ان کے زخمیوں کے علاج کے لیے معقول انتظامات بھی ہیں۔ مگر اسرائیل کی بربریت بضد ہے کہ حماس اسرائیل کے حاکمانہ وجود کو تسلیم کرلے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جنگ مزید بڑھے گی اور حماس کے حملے کی پاداش میں مظلوم غزہ کے فلسطینی قیامت خیز حالات کا سامنا کریں گے۔ اسرائیل کی جانب سے زمینی حملوں کی دھمکیوں اور اعلان کے زیر اثر چھ لاکھ سے زائد فلسطینی غزہ کے جنوبی خطہ کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ علاقہ مصر کے سرحدی شہر العریش سے لگا ہوا ہے۔ فلسطینی بے قصور عوام کے ساتھ ان کی نسل کشی، اسرائیل کا غیر انسانی اور ظالمانہ رویہ گویا انسانیت کا خاتمہ ہے۔ اسرائیل کا جبر واستبداد پر دُنیا کے سوپر پاور کی،اقوام متحدہ کی بے بسی اور فلسطینیوں پر نہ صرف جنگ بلکہ اسرائیل کی جانب سے مستقل بر بریت پر ہر ذی شعور کا دل تڑپ اٹھتا ہے۔ فلسطینیوں کی حالت زار یوں اپنی خاموش زباں سے بے حس ارباب اقتدار سے مخاطب ہے۔
و ہی قاتل وہی شا ہدوہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریںقتل کا دعویٰ کس پر

[email protected]
cell: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا