شاہ خالد مصباحی
دانش جو :جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
تاریخ کے أوراق میں یہ روز ، 27 سبتمبر 2023 م الموافق 12 ربيع الأول 1445 ثبت ہوگیا ہے کہ ایک عظیم مرد قلندر، مورخ و ادیب شہیر آج ہی کے دن دنیا سے روٹھ کر رحلت فرما گیا، یقیناً جس نے بھی یہ اندوہ ناک خبر سنی، سب کے دل دھک سے ہوکر رہ گئے، زندگی میں تنہائی پسند کا خوگر، جس نے اپنی خاک نشیمن کو اتنا پر وقار بنایا کہ بعدہ ترجمان و فن کاران زبان و ادب ، اس کی ادبیات پر پر شوق نثاور ہیں، اہل علم و جہل کا مجمع، سبھی یک طرفہ خاموش بلبلان چمن صف بستہ ہیں اور آج اس مرد قلندر یعنی استاذ العلماء امیر القلم و القرطاس ، آبگینہ سواد اعظم ، حق و تواضع پسند و طنیت محرر ، بیباک صحافی و خطیب و ادیب، مشفق مزاج ، شفقت نواز ، نرم خو و سادہ دل، بندہ اصاغر نواز، مشہور اسلامی فلاسفر و مورخ جن کی بیشتر تحریریں ماڈرن اور قدیم اردو ادب کے حسین امتزاجات و تعبیرات پر مشتمل ہوتی تھی، بے حد مقبولیت کی حامل کتاب، جہان مفتی اعظم ہند کے اولین سر فہرست مرتب ومصنف، صاحب مضامین و مراسلات، سلسلہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے عظیم صوفی بزرگ اعلی حضرت اشرفی میاں پر ابھی پنج ماہ قبل ان کی حیات مبارکہ پر شائع شدہ ، دیدہ زیب و فکر آمیز کتاب بنام جہان اعلی حضرت اشرفی میں اپنا کلیدی کردار پیش کرنے والے، صاحب علم و فضل ، میری مراد امیر القلم حضرت مولانا علامہ مفتی مقبول احمد سالک مصباحی ، سابق استاد عربی ادب جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، بانی و سرپرست جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نئ دہلی کے وفات پر ملال پر سبھی اہل بحر و بر ، شمش و قمر ماتم کناں ہیں، موت اجل یقینی کا ایک جزوِ لازم ہے، جو اس میعاد مقرر کے آتے ہی سبھی لوگوں کی جانو روح پر حملہ آور ہوجاتی ہے، دنیا میں میرے حدودِ علم سے آراستہ واضح طور پر خالص معاملہ موت اور اس کے تقاضے ہی بھید بھاؤ اور کسی قسم کی انتشارات سے دوچار نہیں، بلکہ ہر چیز میں غیر مساویانہ برتاؤ کی کھوج اور اس پر مفکرین کے طرف سے اعتراض قائم کیا جاچکا ہے۔ جس پر انبیاء و رسل سے لے کر جن و بشر تک سب متفق ہیں، حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ (سورة الأنعام/ 61) پر سب کا ایمان و ایقان ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ وہ حق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو موت دیتا ہے بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
افلاک رو رہے ہیں زمیں بھی اداس ہے
آنسو بہا رہی ہے فضا تیری موت پر
یقینا علامہ موصوف کی رحلت کی خبر نے ان لاکھوں افراد کے دل کو بے قرار و بے سکون اور آنکھوں کواشکبار کردیا، جو ان کی شخصیت سے بخوبی واقف تھے ، وہ آج کے دور میں چند قلمی مخطوطے ورسالے لکھ کر گلی و کوچہ میں لے کر ڈھنڈھورا پیٹنے والا مزاج نہیں رکھتے تھے ، وہ بڑے خاموش مزاج ،متواضع اور صاحب علم و قلم دوست انسان تھے، وہ بزرگوں کی فکر جمیل و ان کے مزاج تعلیمو تربیت کے ساتھ عصری تقاضائے تعلیم سے بھی ہم آہنگ تھے ۔ ان کے زبان و بیان میں گہرائی و ان کی فکر میں بالیدگی تھی، امت مسلمہ کی تعلیمی شرح میں کمی ہونے کی وجہ سے غم ناک تھے اور اس کی افزودگی کے لیے ہمہ تن کوشاں تھے، دہلی جیسے شہر میں ایک شاندار ادارہ کا قیام کیا، شعبہ حفظ و قرات ، مبتدی درجات کی تعلیم و نونہالان ملت اسلامیہ کو تربیت دینے کا جو ایک حسین مرکز ہے ، طلبا کے رہنے سہنے کا مکمل انتظام خود کرتے تھے اس ادارہ کی زمین و عمارت کے قیام سے لیے اب تک طلبا و ادارہ کے اخراجات میں کمی نہ آ جائے اس کے خاطر ملک کے مختلف گوشوں کا چکر کانٹے، سن 2002 سے اس ادارہ کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہے، خالی ہاتھ خالص توکل علی اللہ کی بنیاد پر تین ہزار اسکوائر فٹ قطعۂ اراضی کا سودا کیا جو آپ کی بے پناہ محنت ، جد و جہد کے بعد میں جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے نام سے عالی شان عمارت کی شکل میں قوم و ملت کی امانت بن گیا۔ ان کے فکر و نظر میں سلامتی تھی، ملت اسلامیہ سے منسلک ہر معاملے کو بڑی باریک بینی کے ساتھ غور و خوض کرتے تھے، اور تا حد قوت اس کے حل کے لیے کوشاں رہتے، اخبار و جرائد اس کے لیے نکالے، مضامین قلمبند کئے ، امت کو مسائل کی سنگینی سے واقف کرایا، بے شمار تقریریں کیں، بیداری امت کے لیے چہار گونہ سوخت ہوکر پھر بھی قوم و ملت کی بہتری کے خاطر اپنے بلیغ فکر و نظر کی وسعت کے لیے ڈٹے رہے، عمل میں تابندگی نظر آئی ، گالی سنے، فرقہ پرستوں کی ٹولیوں نے بائیکاٹ کیا، کچھ علاقوں کے جماعتی پرو گراموں میں بے حس مولویوں کی طرف سے ان کا ادھیڑ عمر کے نوجوانوں سے گھیراؤ کرایا گیا، اسٹیجوں سے در کنار کیا گیا، لیکن پھر بھی ایسا مشعل تھا،جس کی روشنی مدھم نہیں ہوسکی ، وہ صورتا مرد نحیف ضرور تھا، لیکن پست حوصلہ ، نا امیدی کا مشعل ، چراغ بے پا ، حیات بے حس، گل بے تسنیم ، کوثر بے نیاز اور مے بے کدہ کا مصداق نہیں تھا ، اسی لیے وہ کامیابی کے ساتھ چلتا چلا گیا، روشنی بکھرتی گئی، پھر ایسا مقبول ہوا، کہ دونوں جہاں اس کے نام ہوا۔
بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا
نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا
یومِ وفات سے کچھ نہیں تو کم از کم آپ سال بھر سے بیمار چل رہے تھے، جب بھی ملاقات ہوتی، حضرت کے قیام گاہ ، جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،نئی دہلی پر جاتا، تو شوگر ، بلیڈ پیشر یا بخار کوئی نہ کوئی شی مضرور سے آپ پریشان حال رہتے، اب اسے موسمیاتی تبدیلیوں و بہ سبب کثرت اسفار، طبیعت کے شدید خراب ہونے کی وجہ بتائیں یا چیزے دگر الغرض جسم مضمحل و بدن لاغر ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے اچانک آپ بستر علالت پر پڑے اور پھر پڑے کے پڑے ہی رہ گئے، اور وہ ذات گرامی جو فکر و نظر میں متغیر قوم و ملت کے لیے مر جانے کا جذبہ پیہم رکھنے والا اپنے غم کو کرید کرید کر خداوند قدوس کی رضا پر راضی ہوگیا، اور وہ ایسا مشعل راہ و مینار فکر و آگاہی دے گیا کہ ، جس پر بڑی بڑی باتیں کرنا، لکھنا تو آسان ہے لیکن اس کا حل نکالنا ، موجودہ وقت میں موجودہ لوگوں کے لیے مشکل سا نظر آتا ہے۔ ان کی موت ایک مژدہ پیہم لیے ہوئے کہ ہر حال میں قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے خاطر اپنی جان استطاعت سے زائد دے جانا، اس راہ میں مکرنا، بے راہ روی اختیار کرنا ہے۔ 15 مئ 2023ء کے اوائل میں سخت قسم کی بیماریوں سے آپ لاچار ہوئے ، اس وقت میں دہلی میں تھا، ملک کے چہار طرفہ قرآن خوانی ، دعا و مناجات کی محفلیں منعقد ہوئیں ، بحمد اللہ پچاس فیصد سے زیادہ صحت بحال ہوئی اور وقتی طور پر آپ بیماریوں سے شفایاب ہوئے، جسم میں حرکت کرنے کی طاقت لوٹ آئی،لیکن اس کے اثرات ابھی بھی مکمل طور سے زائل نہیں ہوئے تھے، مزید حیران و پریشان کہ "یہ کامرک گیا وہ کام رک گیا، طبیعت خراب نہیں ہوتی تو اب تک یہ کام ہوجاتا” کمپیوٹر پر بیٹھ کر ٹائیپنگ شروع، ترتیب و تدوین ، تصنیف و تالیف کا کام پھر رات و رات شروع ہوگیا ، چین و سکون نام کی کوئی چیز نہیں، کئی بار اس دورانیہ زکر کیا کہ آقای بلندمرتبت آرام اور طبیعت کا مکمل خیال کرنا اب ضروری ہوگیا ہے، "ہٹاؤ جانے دو، اس طبیعت کا کیا” یہ کہہ کر اپنا کامجاری رکھتے ،حتی کہ دیکھتے دیکھتے اسی بیماری کے عالم میں ایک قابل ستائش تصنیفی کارنامہ عالی مرتبت حضرت علامہ امیر القلم برد اللہ مضعجہ نے دین اسلام کے تصوف و طب پر کار انجام فرمایا، پانچ سو صفحات سے زائد سر العوارف فی بحر المعارف نامی کتاب جو معرضِ وجود میں آچکی ہے، اس کی مکمل کمپوزنگ وترتیب باقی تھی، جسے آپ نے خود اپنےلاغر انگلیوں اور بیمار جسم کے ساتھ اسی دورانیہ ٹائیپ سے لے تزئین و ترتیب و تدوین تک اسے مکمل کرکے پریس کے حوالے کیا، اور بتاریخ ۱۲/مئی ۳۲۰۲ ء بروز اتوار بعد نماز عشا ء بمقام باڑٰ ی قوم تیلیان،چورو شریف راجستھان ، ہندوستان میں آپ کی موجودگی میں اس کتاب کا رسم اجرا عمل میں آیا، صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں اسے آراستہ وپیراستہ کردیا جوسادات چورو کی روحانی کرامت اور علامہ سالک کی علمی جولانیت ہی سے تعبیر کیا جاسکتاہے یہ کتاب یقینا جماعت اہل سنت کے لیے قابل فخر ، طلبا و علمائے طب کے لیے قابل تقلید ہے اس کتاب کا بعض حصہ تصوف وطریقت،عملیات وادویات،اور نقوش وتعویذات کی رشد و ہدایت پر مشتمل ہیں جو چورو شریف کے بزرگوں کی طرف سے قوم کے لیے امانت و بہترین وراثت ہے جو بیماریوں کی روحانی علاج کرنے کی طرف مشیر ہے ۔ المعارف کتاب کے علاوہ اسی مدت کے دوران کتاب "گلبن زہرا” کی بھی اشاعت عمل میں آئی، جس کی مکمل ایڈیٹینگ و نظر ثانی علامہ سالک دہلوی نے فرمائی تھی، اور مزید اس کتاب میں جو ستائیس صفحات پرمشتمل تفصیلی ادبی و فکری، تنقیدی نظریات سے بھر پور مقدمہ موجود ہے، وہ آپ کے ہی قلم و دوات کی زریں روشنائیوں کا نتیجہ ہے جو آپ کی ادبی و فکری مہارت کے تام ہونے پر دلیل ہے کہ اس چھوٹی سی مدت میں بیماری کے عالم میں اتنی ضخیم ادبی کارناموں کی ذمہ داری سنبھالی اور بحسن وخوبی طریقوں سے اسے مکمل فرمائی۔ بحمد اللہ آپ کی یہ ساری خدماتِ جلیلہ، کتابیں آپ کی بہترین خدا داد قابلیتوں و جد وجہد کا مظہر ہیں۔ آپ کی قابلیت و صلاحیت، زبان و بیان، تصنیف و تالیف اپنے آپ میں جماعت اہل سنت کے لیے قابل فخر ہے۔
علامہ کے بیش قیمت چند تصنیفی خدمات کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
شہزادۂ اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی ، مفتیِ اعظم ہند ، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفیٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃُ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر بسیط گران قدر مجموعہ "جہان مفتی اعظم ہند”، آپ ہی کی قلمی خدمات میں سے ایک ہے جو آپ کی خانوادہ اعلی حضرت سے بیش بہا محبت و عقیدت کا نتیجہ اور آپ کی طرف سے ایک بہتر صورت میں ان کی روح کو خراج تحسین ہے ، جس کو رضا اکیڈمی نے شایع کیا جو مکمل 1400صفحات پر مشتمل ہے ۔
نقشبندیہ سلسلہ کے مشاہیر بزرگوں کے تعارف و خدمات کے سلسلے میں ایک ضخیم و ادبی و علمی نقطہ نظر سے بیش قیمت ، اپنے موضوع پر منفرد تاریخی و ان کی خدماتِ جلیلہ پر بسیط بیان و زبان پر محیط بنام "تذکرہ مشایخ نقشبندیہ” جو خانقاہ نقش بندیہ لونی گجرات کے زیر اہتمام شایع ہوئی، یہ 1000صفحات پر مشتمل ہے ۔
ہندوستان کی قدیم ترین خانقاہوں میں سے ایک خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ کے عظیم ترین بزرگ اعلی حضرت اشرفی میاں پر بنام *جہان اعلی حضرت اشرفی* مرتب فرمائی، جس میں ملک و ملت کے نامور ادبی شخصیات، مساجد و مدارس کے علما و اسکالر و یونیورسٹیوں کے پروفیسران و اساتذہ کی بیش قیمت ان کی حیات و خدمات پر تحریریوں کا مجموعہ ہے، جس کو آپ اور آپ کی پوری ٹیم نے پوری جانفشانی کے ساتھ ملک کے ہر اطراف سے لوگوں سے مقالے لکھوائے اور پھر اس کو جمع و ترتیب دے کر زیر اہتمام آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ، نئ دہلی، ام سال عرس اعلی اشرفی کے موقع پر اس کتاب کا اجرا عمل میں آیا۔ یہ مکمل 800صفحات پر مشتمل ہے۔
سر العوارف فی بحر المعارف، اس کتاب کے موضوع و فن پر اپنے تمہیدی کلمات میں پہلے ہی مختصراً تعارف و اس کی خوبیوں کے نکات کو واضح کیا ہے، یقیناً یہ علامہ مرحوم کی طرف سے امت مسلمہ کے لیے بہترین تحفہ و موجب استفادہ ہے۔ یہ کتاب خانقاہ قادریہ چوروشریف راجستھان کے زیرِ اہتمام شایع ہوئی، جو 560صفحات پر مشتمل ہے ۔
اخلاق و عادات :
علامہ موصوف ، علم و فضل کے اعتبار سے اتنا بڑا قد و قامت ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ہمیشہ چھوٹا بنا کر رکھے چھوٹوں کے ساتھ کافی شفقت کے ساتھ پیش آتے ، جہاں چاہے بیٹھ گئے ، جو دست یاب ہوا کھالئے، وہ چلتی پھرتی ایک ایسی انجمن حیات تھی ، جو اپنے لوگوں کو ترقی بخشنے کی مشین تھی، طلبا سے مل کر بہت خوش ہوتے، کیا کر رہے ہو کیا نہیں کر رہے ہوں، یہ کر لو یہ کرنے میں یہ اچھا رہے گیا، بالفور رہنمائی فرمانے لگتے، جب بھی اوکھلا ہیڈ، جامعہ نگر کے علاقہ میں آتے ضرور کال کرتے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی یونیورسٹی میں ضرور تشریف لاتے، طلبا و پروفیسران سے ملنا، ملکی و ملی و ادبی خدمات کے توسط سے کام کرنا اور بچوں کو اس کے لیے ذہنی طور پر کیسے تیار کیا جائے، ایک طویل وقت تک اساتذہ ، اسکالر ، طلبا سے تبادلۂ خیال فرماتے، یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں طلبائے مدارس کے ساتھ بیٹھتے، جامعہ اشرفیہ سے یا کسی سنی ادارہ سے فارغ التحصیل طلبہ کے یونیورسٹی میں داخلہ لینے پر پر مستعد ہوکر خوشی کا اظہار کرتے، ملنے جلنے والے لوگوں کا ایک تانتا لگا جاتا، ایک طرف باہم تعارف ہوتا، لیکن اس بندہ نواز ،خدا تراش کے اندر ہمدردی و خدمت طلبا و علما کے سوا کچھ نظر نہیں آیا، وہ مخلص و مربی وقت تھا ،اپنی تمام تر علمی و عملی بلندی اور ہمہ جہت کثیر مصروفیات کے باوجود بھی وہ طلبا ، علما ، دانش وران قوم کے سامنے نہایت ہی مؤدب انداز میں بیٹھتے تھے اور جس انہماک، توجہ اوریکسوئی کے ساتھ لوگوں کی بات سنتے، ہر چھوٹے سے چھوٹے انسان کی فکر و کلام پر گوش گزار ہوتے تھےاور جس طریقے سے محبت، انسیت اور تواضع و انکساری کا اظہار فرماتے تھے وہ قابل دید ہوتا تھا ، اور اس کا تعلق خالصتاً احساس و شعور سے ہوتی تھی، اس کا احاطہ کرنا زبان و بیان سے پرے ہے۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے بے پناہ لگاؤ:
اہل سنت والجماعت کی عظیم ترین دینی دانش گاہ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے آپ کا قلبی لگاؤ تھا، اور کیوں نا ہو، 1990ء میں ازہر ہند مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور سے فارغ ہوئے تھے، اور آپ کی قابلیت و صلاحیت کو دیکھتے ہوئے سن 1994 میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں عربی زبان و ادب کے استاد کے طور پر آپ کی تقرری بھی ہوئی، اور یہ تدریسی خدمات انجام دینے کا سلسلہ سن 1997 تک چلا، پوری دل جمعی کے ساتھ ادارہ کی فضا میں عربی زبان و ادب کے اثر و رسوخ کا نفوذ کیا، طلبا و اساتذہ سمیت سبھی نے ان عمل و منصوبہ بندی کو بڑی عزت و حوصلہ افزائی کے نظر سے دیکھے، لیکن "چھوڑ دیتا ہوں وہ رستہ عام ہوجانے کے بعد” آپ کی ضمیر و نفیر میں ودیعت تھی۔ اور یہاں کے فارغین کے کام آپ کے زبان زد تھی، جس بھی شعبہ میں آپ جاتے یا کسی ادارہ علوم یا کسی یونیورسٹی کے ادیب سے مل رہے ہیں تو بارہا میں نے دیکھا ہے کہ آپ اختتام گفتگو یا درمیان میں یہ ضرور کہتے کہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے بچے کافی ہونہار ہوتے ہیں اور لکھنے پڑھنے میں اچھے ہوتے ہیں، بطور مثال شاہد رضا مصباحی بہار پبلک سروس کیو والی فائڈ ، ڈاکٹر افضل مصباحی انچارج شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی، مرحوم ڈاکٹر شرر مصباحی، صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ پرو فیسر غلام یحی انجم مصباحی جامعہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی، قیصر رضا مصباحی ، جھارکھنڈ پبلک سروس کوالی فائیڈ وغیرہ کا آپ ضرور تزکرہ کرتے، یہ ان کا حق بھی تھا کہ جس چمنستان علم سے انہوں نے فیض پایا، زندگی کی ہمت و حوصلے والی عمر میں آپ اس ادارہ میں بطورِ استاد عربی ادب منتخب ہوئے، ادب کے معیار کو بہتر بنایا، گر چہ ایک قلیل مدت ہی یہاں ٹھہرے لیکن اپنی آخری سانس تک اسی ادارہ کی خدمت میں مشغول رہے اور اپنی وفاداری نبھائی اور حتی کہ اس درمیان بہت تیکھے معاملات بھی جنم لیے لیکن اپنے اساتذہ، مادر علمی و جماعت اہل سنت کی خیر خواہی کے تحت ’’ وفادار ی بشرط استواری‘‘ کی ایک مثال قائم کرگئے ، جو ہم سبھی لوگوں کے لیے لائق تقلید ہے۔
بطورِ استاد دیگر مرکزی اداروں کی زینتِ مسند ہوئے:
جیسا کہ ماقبل میں مذکور ہوا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم 1990ء میں ازہر ہند مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور سے فارغ ہوئے، اور پھر 1991 سے لے کر 1994 تک دارالعلوم لندوۃ العلما لکھنؤ سے عربی زبان و ادب کی اعلی تعلیم بھی حاصل کی اور عالیہ ثالثہ عربی ادب اور قسم التخصص فی الادب العربی کے دو کورسس اعلی امتیازی پوزیشن سے پاس کیے، ندوہ میں چند سال آپ کا قیام، آپ کی عربی ادب و زبان میں مزید چار چاند لگادیا، طالب علمی ہی کے زمانہ سے چہار سو آپ کی علمی قابلیت کا چرچا رہا علی میاں ندوی سمیت یہاں بھی مقبولِ بارگاہ اساتذہ رہے، معاشی طور پر کوتاہ دست ہونے کے باوجود، ایامجوانی میں قوم کے ہر فرد میں اسی طرح قابلیت و ہنر مندی پیدا کرنے کے لیے خوب جد و جہد کی اور اہل سنت کے اداروں کو ادبیات عربی میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے اپنے مالی بجٹ سے ہی خرچہ اسفار برداشت کرکے خوب دورہ فرمائے، اور اس کے متعلق تمامتر انتظام کرنے کی کوشش کی ، کثیر ترین مصروفیات کے باوجود تصنیفی خدمات کو بھی موقع بہ موقع انجام دیتے رہے، دو درجن سے زائد آپ کے نوک قلم سے تحریر شدہ عربی مضامین ملک اور بیرون ملک کے معیاری عربی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔
سن 99-1998 میں آپ ہندوستان کی مردمخیز صوبہ کیرلا بطورِ استاد تشریف لے گئے، اور جامعہ مرکز الثقافۃ السنیہ کالی کٹ کارندور میں عربی زبان وادب کا نہ صرف سینیئر استاذ مقرر ہوۓ بلکہ عربی ادب کے شعبے کو منظم و مستحکم کیے اور اس سلسلے میں جو بیداری وہاں پیدا کی، اس کی شمع فروزاں آج تلک ہے۔ اور بالآخر سن 1999 سے 2000 تک جامعہ حضرت نظام الدین اولیا نئ دہلی میں بطورِ پرنسپل آپ تشریف لائے ، دوسرے کے سرے پر در بدر سرگشتہ زندگی کا یہ آخری پیادہ تھا، آپ کے اندر یہ ایک بہترین خوبی تھی کہ کوئی بھی کام کرتے پوری مستعدی کے ساتھ کرتے ، اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرتے ، اس ادارہ کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنی زندگی کا بہترین سرمایۂ وقت پیش کیا، اس کی ہمہ گیر ترقی کے لیے اپنی زندگی کے آخری عمر تک حاضر رہے، اس ادارہ کے نصاب تعلیم کی تجدید کرنا اور معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہم آہنگ کرنا وغیرہ اس میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ ان کی ایک خود نوشت تحریر "علامہ مقبول احمد سالک مصباحی کی کہانی ان کی زبانی”، جس کومحمد شہباز عالم چشتی مصباحی نے ترتیب دیا ہے، جس میں اس ادارہ کے متعلق آپ لکھتے ہیں کہ "جب جامعہ ازہر مصر سے الحاق کا مسئلہ آیا۔جی جان سے لگ گیا.علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی مستجاب دعائیں رہیں اور شیخ ابوبکر کی کوششیں بھی۔ میرے دوست اور جامعہ ہذا کے سابق استاذ محمد حسین خان ندوی کے سعی پہیہم سے خدا خدا کرکے ازہر کا دروازہ کھلا۔ غالبا جامعہ حضرت نظام الدین اولیا، نئی دہلی، جامعہ ثقافہ کیرالا کے بعد اہل سنت کا دوسرا خوش قسمت تعلیمی ادارہ تھا جہاں سے میری پرنسپل شپ کے دور میں اہل سنت وجماعت کے فضلا کا پہلا قافلہ جامعہ ازہر کی فضاؤں میں پہنچا۔ یہ رئیس القلم کے واسطے سے الجامعۃ الاشرفیہ کا ہی فیضان تھا کہ جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل سنی ازہری علما کی قطاریں لگ گئیں. آج الحمد للہ بستی بستی قریہ قریہ فیضان حضور حافظ ملت اور ان کے چہیتے شاگرد علامہ ارشد القادری کا عرفان نظر آرہا ہے” ۔ اور اسی مضمون میں آپ جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کھادر نئی دہلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سن 2000 سے لے کر 2008 تک مسلسل ممبئی اور ملک کے دوسرے شہروں کی خاک چھانی ہے تب جاکر جامعہ خواجہ کا قرض ادا ہوا اور باضابطہ تعلیمی سلسلہ شروع ہوا.اسی درمیان عربی ماہنامہ "صوت الہند” کا منصوبہ علما اور عوام اہل سنت کے سامنے رکھا اور دو سال مسلسل کوشش کی.جس کا پہلا شمارہ "العدد الخاص حول شخصیۃ الامام احمد رضا القادری” تھا.اور یہ میری زندگی کا آخری خواب تھا، مگر دو سال کی جان توڑ صحرا نوردی کے بعد اعلی حضرت کے نام پر اس قوم کے سرمایہ داروں نے صرف اٹھارہ ہزار روپے دیے اور اس عرصے مین کم از کم ٹرانسپورٹ اور اسٹیشنری کے مد میں ایک لاکھ سے زائد خرچ ہوئے. اپنا سارا اندوختہ اعلی حضرت پر عربی میں خصوصی شمارہ نکالنے کے نام پر سوخت ہو گیا.کمال تو یہ ہے کہ اپنی جیب خاص سےتقریبا ڈھائی سو صفحات عربی مضامین کے کمپوز کرا رکھے تھے، مگر جس امام اور عالم کے سامنے رکھا اس نےیہی کہا کہ مو لانا عربی میں کون پڑھے گا؟” اللہ تعالیٰ نے قوم و ملت کی ترقی کے واسطے کامکرنے ایک دہکتا ہوا کلیجہ ان کو عطا کیا تھا، کسی بھی وقت خالی نہیں بیٹھتے، کچھ نہ کچھ کام کرتے ہی رہتے۔ اخیر عمر میں حضرت کے ساتھ ہفتوں ہفتوں ساتھ رہنے کا موقع ملا ، اگر ایک منٹ بھی ضائع ہوجاتا تو اس پر کف افسوس فرماتے، کہ یہ کام ہوگیا، یہ کام باقی رہ گیا، ہفتوں ہفتوں کتابوں کی کمپوزنگ و ترتیب و تصحیح کرنے میں مدرسہ قطب الدین بختیار کاکی کھادر نئی دہلی کے ایک چھوٹے سے حجرہ میں ہی گزار دیتے، اتنی جانفشانی کرنے کے بعد آج ہر ملی و مذہبی محاذ پر اس مختصر سی مدت زندگی میں کچھ نا کچھ کردار علامہ مرحوم کا مل ہی جاتا ہے،بعضمسائل امت پر آپ نے تن تنہا ایک لابی مقاصد بھر کام کر ڈالے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ امت کے ہر سلگتے ہوئے مسایل کی چارہ جوئی کے لیے ہمہ وقت آپ پیش پیش رہے۔ مدارس و جامعات بالخصوص مکاتبِ ملت اسلامیہ کی اصلاح و توسیع کے لیے فکر مند رہے، ایک خود نوشت رسالہ بنام "ایک مظلوم دستی کی دردناک فریاد” میں لکھتے ہیں کہ "سچی بات یہ ہےکہ اگر دینی مدارس و اسلامی مکاتب نہ ہوتے تو مسلمان جہالت و بے دینی کے کس عمیق غار میں ہوتا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں تمام علمائے کرام و قائدین ملت سے گزارش کروں گا کہ وہ ہر بستی میں ضرور ابتدائی مدرسہ قائم کریں اور اس سلسلہ میں کسی طرح کے تبصروں اور پروپیگنڈوں سے قطعاً متاثر نہ ہوں”۔
آپ نے اپنے گاؤں لال پور مہراج گنج اتر پردیش میں 13 جنوری 1994 ء کو ایک مکتب بنام مدرسہ اسلامیہ معہد الاطفال کی بنیاد رکھی، جو آج بھی آباد ہے اور تمام عمر اس کی سرپرستی و نگہبانی کی، اور اس جگہ علم و دین کی شمع کو روشن کرنے کی کوشش کی جہاں پر فطری طور پر اندھیرا ہی اندھیرا تھا، روشنی و ضیا پیدا کرنا جہان کوئی آسان کام نہیں تھا، اسی محولہ رسالہ میں آپ اس آبادی کی ابتدائی معاشی ، سماجی و جغرافیائی حالات کا نقشہ کھینچتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں کہ "یہ بستی لال پور گردو نواح میں ٹھاکروں کے گاؤں کے نام سے متعارف ہے۔ اس بستی کی اکثریت کا تعلق ہندوؤں کی سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی ذات ہریجن سے ہے۔ ماضی قریب میں غریب لوگ خواہ مسلمان ہو یا ہندو بلا تفریق اونچی ذات والوں کے یہاں بے گاری کیا کرتے تھے۔ یہ بستی تقریباً چار سو گھروں پر مشتمل ہے جن میں مسلم گھروں کی تعداد صرف سترہ ہے”۔
محقق عصر استاد الادباء ، شیخ الحدیث و التفسیر و سابق پرنسپل جامعہ اشرفیہ و ڈایریکٹر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ رسالہ محولہ کے کلماتِ عالیہ عنوان کے تحت اس ادارہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "مدرسہ اسلامیہ معہد الاطفال یہ اہل سنت کا ایک نیا ادارہ ہے جو جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مقبول مدرس حضرت مولانا مقبول احمد مصباحی کی کوششوں سے قائم ہوا ہے اور ان کی ہی نگرانی میں سرگرم عمل ہے۔ موصوف نے اس دیار کی علمی پسماندگی اور دینی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اس کی بنیاد ڈالی ہے اور چاہتے ہیں کہاس کی خدمات کا دائرہ پورے علاقے کو محیط ہو اور جہاں کے لوگ بھی ضرورت مند ہیں وہ اس سے فیض یاب ہوں”۔
ان کے علاوہ وقت کے عظیم ترین علما و اسکالر جیسے عالمنبیل علامہ مولانا عبدالمبین نعمانی مصباحی، بحر العلوم علامہ و مولانا مفتی عبد المنان مصباحی، پیر طریقت علامہ و مولانا سید کمیل اشرف الاشرفی الجیلانی المصباحی ، ادیب شہر مدرس با کمال حضرت علامہ و مولانا شمس الہدیٰ مصباحی، مفتی اعظم ہالینڈ وغیرہ (خلد الله فيوضهم ابدا) سمیت ملک و ملت کے بے شمار علما و ادبا و دانش وران کے ان کی تمام تر خدمتوں و کارناموں کو سراہا، بلا شبہ ایسی صلاحیتوں کی جامع و مبانی قابل اطلاق شخصیت کا ہم سب کے درمیان سے رحلت فرما جانا غم ناک ہے۔ اور آپ نے اپنے نوک قلم سے جو بھی ادبی سرمایہ کاری فرمائی، اور قومی افادات میں بیش عالی فکر و نظر کا اظہار فرمایا اور اس پر پوری زندگی عمل پیرا رہے، اور اس مشن کی روز افزوں ترقی کے لیے لوگوں کو جوڑے اور راقم السطور نے آپ کی صحبت میں رہ کر جو کچھ محسوس کیا، آنکھوں سے دیکھا، صداقت کے ساتھ پایا، اختصار کے ساتھ مبسوط و مرتوب فرمایا۔
ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے
بالآخر ہم، اللہ رب العالمین سے دعا گو ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی دینی و ملی ، سماجی ، معاشرتی، تدریسی و تصنیفی خدمات کو قبول فرمائے، اور انہیں آپ کے اور آپ کے والدین و اہل خانہ کے لیے سامانِ مغفرت بنائے، اور میرے لکھنے میں کسی قسم کی کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسے معاف کرکے میرے لیے ذریعۂ مغفرت بنائے : آمین ثم آمین ۔
ی