خان شبنم فاروق
فلسطین میں جاری اسرائیلی تشدد کو روکنے کیلیے ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ بجائے کڑھنے کے اور گالیوں کی بوچھار کرنے سے بہتر ہے کہ ہم عملی اقدام کے بارے میں سوچیں۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک میں سے صرف دو یا تین ممالک ہیں جنھوں فلسطین کی عسکری امداد فراہم کی ہے۔ بقیہ ممالک کے حکمرانوں ، رہنماؤں نے محض رسمی الفاظ کی جمع پونجی خرچ کرکے خاموش ہوگئے۔جبکہ اسرائیلی ڈیفینس فورسیس (آئی ڈی ایف) کے مطابق امریکہ نے ہتھیاروں سے لیس اپنا طیارہ اسرائیل کی مدد کیلیے فراہم کیا ہے۔ وہی میکڈونلڈ کمپنی فری خدمات فراہم کررہی ہے۔
یہاں ان مسلم ممالک کے منہ پر طمانچہ ہے جو عملی اقدام کی بجائے محض دعا اور مصلحت کے قائل ہیں۔ امریکہ الگ براعظم میں ہونے کے باوجود مسلح فراہم کرسکتا ہے تو عرب ملک خاموش کیوں ہے۔ وہ محض دفاع کی بات کیوں کررہا ہے۔ وہ امداد کے بارے میں اقدامات کیوں نہیں اٹھا رہا۔ یا یہ بات صحیح صادق آرہی ہے کہ عرب حکمرانوں کی پشت پناہی پر بھی مغربیت کا ہاتھ ہے۔خیر یہ ایک تجزیاتی پہلو ہے اگر تحقیق کی گئی تو ہزار پہلوؤں پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ جبکہ ترکی بھی لفظوں کی سہولت کے بجائے ہتھیاروں ، یا بنیادی ضروریات کی فراہمی پر غور کرسکتا تھا۔ مسلم ممالک کے تمام حکمرانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ فلسطین اور حماس کو سپورٹ کریں۔ یہ عملی امداد ہو۔ اپنے ملک میں تمام اسرائیلی کمپنی سے خریدو فروخت کے تعلق کو ختم کریں۔ اگرچہ یہ اپنے ملک کی معیشت کیلیے بھی نقصاندہ ہے لیکن فلسطین میں ہورہی بربریت کو ختم کرنے کیلیے یہ ضروری ہے کہ اسرائیل کی معیشت کو کمزور بنایا جائے کیوں کہ کسی بھی ملک کی معیشت ہی وہاں کیفوجی دستے کو مزید استحکام بخشتی ہے۔ یہ عمل خصوصی طبقے کیلیے ہے۔جس میں ہم عام شہری بھی اپنا کراد ادا کرسکتے ہیں۔ حدیثِ ہے: ’’تم میں سے کوئی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے۔ اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے‘‘۔ (مسلم۔ عن ابی سعید الخدری)
ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں سے ہم ظالم کے ہاتھ نہیں پکڑ سکتے لیکن ظالم کو مفلوج ضرور کرسکتے بشرط عملی اقدام وقتی نہیں بلکہ پائیدار ہو۔ اس مذکورہ حدیث شریف میں ہم اپنا مقام اول سطح پر رکھ سکتے ہیں۔ آیں تجزیہ کرتے ہیں۔ اسرائیل ملک سے ہونے والی درآمدات کا ہم بائیکاٹ کرکے اسے ہاتھوں سے روک سکتے ہیں۔اور یہ عمل انفرادیت سے شروع ہوکر اجتماعیت کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔بین الاقوامی رپورٹس اور اسرائیلی خبررساں ایجنسی کے مطابق اب تک 4000 سے زائد افراد فلسطین میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ گزشتہ رات کے حملے میں مزید ہلاکت اور زخمیوں کی تعداد میں اضافے ہوتا جارہا ہے۔اسرائیل کی جانب سے ممنوع فاسفورس بم کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی بنا پر فوری طور پر ہلاکت کے بعد بھی اس میں ہلاک کرنے کی طاقت اس وقت تک موجود ہوتی ہے جب تک اس کیاطراف میں آکسیجن پایا جاتا ہو۔ علاوہ ازیں غزہ پٹی کو اسرائیلی فوجی دستے نے محصور کرلیا ہے۔ اس پر مزید تشدد بنیادی ضرورتوں پر روک لگادی گئی ہے۔دریں اثنا اس پر امریکہ کے صدر کا ہتھیار کو دوگنا فراہم کرنے کی یقین دہانی کرنا۔ اس پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے اس حق و باطل کے معرکہ میں تمام باطل صف بستہ ہیں جبکہ مسلم حکمراں تذبذب کا شکار ہیں۔ہمیں چاہیے کہ حکمراں کے عملی اقدام کے انتظار ہی نا کرتے رہے ہیں بلکہ اپنا کردار اس میں ادا کررہا ہے۔ اگرچہ اس سے فوری فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن بروز قیامت ہم کو جواب دے سکیں کہ ہم نے فلسطین پر ہورہے ظلم و تشدد کے اختتام میں اپنا حصہ شامل کیا تھا۔ ہم عام شہری اپنے ملک میں اسرائیل سے ہورہے درآمدات کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔
اسرائیلی مصنوعات کو بائیکاٹ کرنے کا آسان طریقہ۔ اگر بارکوڈ نمبر 729 سے شروع ہوتا ہے تو یہ مصنوعات اسرائیلی درآمدات ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مصنوعات پر یہ درج ہو کچھ مصنوعات میں یہ درج نہیں تو اس میں ملک کا نام دیکھیں اور اس طرح گھر میں استعمال ہورہی تمام یہودی مصنوعات کو ترک کریں۔ اسلام اور امت مسلمہ کے مفاد میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں یہ امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے۔ اسرائیلی مصنوعات کی پہچان کیلیے کچھ نام اور کمپنی کے نام نیچے درج کیے جارہے ہیں جس میں امریکہ اور اسرائیلی ممالک کے حلیف ملکوں کے مصنوعات بھی شامل ہیں۔
کپڑے اور دکان
سٹار بکس ، ٹیسکو ، ڈزنی شاپ ، میکڈونلڈ ، ہگو باس ، سن گلاس ہٹ، کلیوِن کلین، لرفا لورین ، پلے ٹیکس ، جیورجیو ارمانی ،بنانا رپبلک ،مشروبات کوکاکولا ، فروٹوپیو ، فینٹا ، کیا اورا ، اسپرائیٹ ، سنکیسٹ ، کٹ کیٹ ،نیسکیفے ،چاکلیٹ ، اسنکیس نیسٹلے ، میگی (نوڈلس ) کروس اینڈ بلیک ویل ، ملکی بار ، کولیٹی اسٹریٹ ، افٹیر ایٹ ، فلیکس ،
میک اپ ، پرفیومز
لوریل ، بابی براؤن ، ٹومی(پرفیومز ) جانسن اینڈ جانسن ، ہگئیس ، گارنئیر ، بمبل اینڈ بمبل مندرجہ بالا فہرست میں جو چیزیں بالکل عام ہیں اس میں میکڈونلڈ ، کوکا کولا ، فینٹا ، نیسکیفے ، نیسٹلے ، میگی ، کِٹ کیٹ ، لوریل ،کیٹ (کریم ) ،جونسن اینڈ جونسن اوائل ، موٹورولا ، کوٹیکس ، اس کے علاوہ بھی اعلیٰ طبقے میں مخصوص مصنوعات کا بڑے پیمانے پر استعمال ہورہا ہے۔ لہذا مذکورہ تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔صرف خاموشی سے بائیکاٹ ہی ضروری نہیں، بلکہ آفس اور ورک پلیس پر دیگر ساتھیوں کے ساتھ وٹس ایپ گروپ پر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جب بھی سپر مارکیٹ، جنرل اسٹور یا کسی بھی دکان پر جائیں جہاں ان مصنوعات میں سے کوئی چیز موجود ہو، تو نہ صرف یہ کہ اسے نہ خریدیں، بلکہ دکاندار کو یہ ضرور بتایں کہ ہم نے یہ پراڈکٹ اس لئے نہیں خریدی کیونکہ اس کا نفع اسرائیل کو جا رہا ہے۔میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر واقعی بڑی تعداد میں کنزیومر اس قسم کی رپورٹ دکاندار کو دیں تو متعلقہ کمپنی کی سیلز اور مارکیٹنگ ٹیم ضرور الرٹ ہوگی۔ اور یہ بھی سو فیصد یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ان کمپنیوں کا منافع ان کی پیرنٹ کمپنی کو ضرور جاتا ہے۔ یعنی اگر کوکا کولا، نیسلے وغیرہ ہندوستان میں مینوفکچرنگ یونٹس لگاتے ہیں، تو ابتدائی سرمایہ بھی وہیں سے آتا ہے، یعنی ان کے ہیڈآفس یا ریجنل آفسز سے۔ اور پھر ہر سال کا منافع ایکسپینشن اور جاری پراجیکٹس کے اخراجات کو علیحدہ کر کے، انہی پیرنٹ کمپنیوں کو جاتا ہے۔
ایس ایم ایس، ای میل، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، جہاں تک جس کی پہنچ ہے، اس بائیکاٹ کو بطور مشن اختیار کر کے اس پر سختی سے خود عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دلانا ازحد ضروری ہے اور اگر درست طریقے سے لاکھوں نہ سہی، ہر شہر میں ہزاروں کی تعداد میں بھی صارفین "اعلانیہ” بائیکاٹ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کمپنیوں کو اور ان کے ذریعے اسرائیل کی معاشی سپورٹ کو بڑا دھچکا نہ پہنچ سکے۔
ہم دعا کے ساتھ اگر عملی اقدام کی طرف توجہ دیں تو ہم فلسطین کیلیے اس طرح سے مدد کرسکتے ہیں۔
٭٭٭