محمد امین اللہ
دنیا کا کوئی بھی دانشور ، محقق ، فلسفی ، ادیب یا خطیب حق و باطل کا پیمانہ نہیں قائم کر سکتا ہے۔ صرف اور صرف اللہ تعال ٰینے اپنے انبیاء کرام اور رسولوں کے ذریعے اپنے نازل کردہ صحیفوں ، اور آسمانی کتابوں کے ذریعے قائم کر دیا ہے اور یہی رہتیدنیا تک حق اور باطل کا پیمانہ ہے اور رہے گا۔ اللّٰہ کے آخری رسول محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آخری کتاب قرآن مجید میں یہ کسوٹی اور پیمانہ موجود ہے۔ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے حیات طیبہ میں اس پیمانے کو اور میزان عدل کو قائم کیا اورآپ کے جانشین خلفائ راشدین اور بعد کے صالح مسلم حکمرانوں نے اس پر عمل کیا۔قرآن مجید کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوتا ہے جس میں اک مسلمان صراط مستقیم پر چلنے کی دعا مانگتا ہے اور مغضوبین سے پناہمانگتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب ایمان کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں کون لوگ صراط مستقیم پر چلنے والے تھے اورہیں اور کون اللّٰہ کے غضب کا شکار ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں جنکی اجڑی ہوئی بستیاں آج بھی نشان عبرت ہیں۔ اللّٰہ بندوں کی اس دعاکے جواب میں سورہ بقرہ سے لے کر سورہ الناس تک حق کی ان تمام راہوں کو واضح طور پر بیان نہ صرف ہدایت دیتا ہے بل کہباطل اور طاغوتی ہربوں سے بچنے کا عمل بھی دکھاتا ہے۔ باطل کے تمام کار پردازوں اور راستوں کی نشاندھی کرتا ہے اور اسپر چلنے والی قوموں کے انجام سے بھی ڈراتا ہے۔
سور? البقرہ کے آغاز میں اللّٰہ اس کتاب کو لاریب قرار دیکر ماننے والوں کو بھی لاریب ایمان لانے کی ہدایت دیتا ہے پھر ابتدا ئیآیات میں حق والے لوگوں کے اوصاف بیان کرنے کے بعد انکار کرنے والوں کی صفت اور منافقین جبلت سے آگاہی دیتا ہے اور حقوالوں کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور باطل والے افراد کی رسوائی کی نشاندھی موجود ہے۔
حق کے لیئے یہ مشروط نہیں ہے کہ اکثریت اس کے حمایت کرے حق بذات خود حق ہے۔یہ جان دی دی اسی کی کی تھی۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے۔
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیئے ہے۔
اس تمہید کے بعد میں قرآن مجید کی چند مثالیں دینے کی جسارت کروں گا۔
سور البقرہ۔میں نے حق و باطل کو الگ کر دیا ہے ، جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا گویا اس نے اک مضبوط سہارا تھام لیا جوکبھی چھوٹنے والا نہیں اللّٰہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔جو لوگ اللّٰہ پر ایمان لائے اور اس کو اپنا دوست بناتے ہیں اللّٰہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ اور جو انکارکرکے طاغوت کو اپنا ولی بناتے ہیں اللّٰہ ان کے نور بصیرت کو چھین کر اندھیروں میں ڈھکیل دیتا ہے۔یہ آیت کرسی کے بعد کیآیات ہیں۔سورہ الشمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا اور اسے ہموار کیا اس پر فجور و تقویٰ واضح کردیئے۔ جس نے پاکیزہ سیرتِ اپناء اسے فلاح نصیب ہوئی اور جس نے نیکی کے جذبے کو دبا دیا وہ نا مراد ٹھہرا۔
آدم علیہ السلام اور ماں حوا کے توبہ اور استغفار اللّٰہ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے مگر ازاجیل کے تکبر اور اللّٰہ کی نا فرمانی نے
اسے راندہ درگاھ بنا کر ابلیس بنا دیا۔ دنیا فانی ہے اور ہر شے یہاں کی آنی جانی ہے باقی صرف اللّٰہ کی ذات ہے جس کے سامنے روز محشر ہم سب کو پیشِ ہونا ہے۔ اسی ایمان و عقیدے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قول و فعل سے راضی
ہے وہ حق ہے اور باقی سب باطل ہے۔
حق اور باطل کا فیصلہ تو اس وقت ہی ہو گیا تھا جب مقتول ہابیل کو حق پرست اور قاتل قابیل کو گناہ گار ٹھہرا کر انسان کا پہلا
خونی اور جہنمی قرار دیا گیا۔ آتش نمرود نے ابراھیم علیہ السلام کو توحید کا علمبردار اور نمرود کو باطل قرار دیا۔ ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز۔چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی۔طوفان نوح میں ڈوبتے ہوئے بیٹے کو نہ بچانے کا خدائی فرمان نے حق و باطل کا فیصلہ کر دیا۔ فرعون کے دربار میں جادو گروںکا تماشا عصائے موسوی کے سامنے ہزیمت سے دوچار ہونا حق وباطل کا پیمانہ ہے۔ بنی اسرائیل کا سمندر پار ہونا اور فرعون کا
اپنے لشکر کے ساتھ ڈوبنا حق وباطل ہی ہے۔حق اور باطل میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ورنہ لوط علیہ السلام کی بیوی عذاب الہٰی کا مستحق نہ ٹھہرتی۔ حضرت داؤدعلیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی رسول کو حکمرانی نہیںملی مگر اک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام اس دنیا کے برگزیدہ ترین ہستیاں ہیں اور تمام ہی پیغام توحید لے کر آئے۔اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو پورے خطہ ارض پر شرک کا غلبہ تھا حتیٰ کہ اللّٰہ کا گھر بھی 360بتوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر جیسے ہی صفا کی چوٹیوں سے یا ایھا الناس قولو لا الہ الااللہ تفلحون کا کلمہ بلند ہوا طاغوت کے ایوانوںمیں زلزلہ آگیا اہل مکہ جو آپ کو صادق و امین تسلیم کرتے اور احترام کیا کرتے تھے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن
گئے اور اک نہ رکنے والا سلسلہ 13 سالوں تک جاری رہا آخر کار آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ اس کے باوجود بھی بو لہبی اور بو جہلی جارہیت رکی نہیں اور ہجرت کے دوسرے سال ہی میدان بدر میں 313 کی قلیل تعداد نے کفار کے ہزار کے لشکر کو شکست دی اور رمضان المبارک کی 17 تاریخ کو قرآن نے یوم فرقان کہا جس دن حق اورباطل کا فیصلہ ہوگیا اس معرکہ حق کو باطل میں چرخ کہن نے عجیب منظر دیکھا حضرت عبیدہ بن الجراح نے اپنے ہاتھ سے اپنے کافر باپ کو قتل کیاحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ ہے اپنے مامو کو قتل کیا۔ حضرت مصعب کے بھائی اور اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس قیدی بنے یہ دلیل کافی ہے کہ جو اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے اور پیرو کار ہے وہ حق پر ہے اور جو اس سے ہٹ کر ہے وہ باطل پرست ہے۔اور یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ فتح مکہ کے بعد جزیرہ عرب سے کفار کا خاتمہ ہو گیا۔فتح مکہ کے بعد جب خانہ کعبہ کے بتوں کو توڑا جا رہا تھا تو سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت مبارکہ نعرے کی صورت گونج رہی تھی۔
کہہ دیجئے حق آگیا اور باطل مٹ گیا اس لئے کہ باطل تو مٹنے والا ہے۔کربلا کے میدان میں اہل بیت کی شہادت تو ہوء مگر یزید راندہ درگاھ بنا کثرت اور حکومت رد ہوء اور قلت سرخرو ٹھہری
۔ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو۔ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین۔
باطل پی ایسی ضرب لگائی حسین نے
کوہ ستم کو کر دیا راء حسین نے۔
کربلا کے خونچکا واقع نے رہتی دنیا تک کے لیے یہ بات ثابت کردی کہ باطل اور حق کے درمیان جب بھی معرکہ برپا ہوا تو دنیاویاعتبار سے باطل ہمیشہ حق کے مقابلے میں بظاہر طاقتور رہا ہے مگر باطل فاتح ہونے کے باوجود سواد اعظم نے اسے حق تسلیم نہیں کیا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مسلم دنیا پے در پے یورپی سامراج کے قبضے میں چلی گئی تو سب سے بڑیسامراجی قوت برطانیہ نے مسلم دنیا کے تہذیب ، تعلیم ، سماجی اقدار ، ثقافت اور عقیدہ توحید ورسالت کو بدلنے کی نہ صرف ریاستی کوشش کی بلکہ ہر طرح کے جبر و استبداد بھی کیا۔ اسلام کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام ، اور استراکی ظلم اور جبر کا اک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔ حق کے مقابلے میں باطل بھیس بدل کر آتا ہے۔ اور عقلی دلیل کی جگہ عیاری و مکاری سے حق کو پسپا کرنا چاہتا ہے۔عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم۔اسلام کے محققین ، دانشور ، علماء نے یہود ونصاریٰ اور استراکی نظریہ کو شکست سے دو چار کر دیا۔ ڈاروین کا نظریہ ارتقاء ،فرائڈ کی جنسی آزادی ، یا داس کیپیٹل کا استراکی نظام معیشت سب اک صدی کے اندر زمین بوس ہو گیا۔
مولانا مودودی کا یہ قول کہ اک وقت آئے گا جب استراکی بت لینن گراڈ میں زمین بوس ہوگا جو ہو گیا۔ اور اک دن آئے گا جبسرمایہ دارانہ نظام لندن اور واشنگٹن میں دم توڑے گا جس کی سانسیں اب اکھڑ رہی ہیں۔بیسویں صدی کے آخری عشرے میں افغانستان پر سوویت یونین کی جانب سے جاری جارہیت گیارہ سالوں میں ایسی پسپائی سے
دوچار ہوء کہ روس کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ پھر 9/11 کے بعد امریکہ کی افغانستان پر امریکہ کا حملہ اور نہتے افغانوں کا ایمان
کی قوت کے ساتھ ڈٹ جانا اور امریکہ کی ذلت کے ساتھ مونھ کالا کرکے بھاگنا علامہ اقبال کے ان اشعار کی تعبیر ہے۔
دنیا کو ہے معرکہ روح و بدن پیش۔
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا۔
اللّٰہ کو پامردی مومن پہ بھروسا۔
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا۔
تقدیر اْمم کیا ہے کوء کہہ نہیں سکتا۔
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ۔
قرآن کی بشارت نہ گھبراؤ نہ غم کرو تم ہی کامیاب ہو گے اگر تم مومن ہو۔
سور الصف۔ اللّٰہ ان سے شدید محبت کرتا ہے جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں; فلسطین کے حماس ، کشمیر کے حزبالمجاہدین ، البدر ، لشکر طیبہ کے مجاہدین ، اور جیس محمد کے سرفروش ، برما کے روہنگیا ، شمالیہ ، فلپائن ایریٹیریا ہر جگہطاغوتی قوتوں کے خلاف جہاد جاری ہے اور وہ دن دور نہیں جب قرآن کی بشارتیں پوری ہونگی اور نصرت و فتح قدم چومیں گی۔
40 سال کے اندر افغانستان میں دو عالمی قوتوں کا دھڑن تختہ ہو جانا حق اور باطل کا وہ پیمانہ ہے جو عقل والوں کو سمجھ جانا چاہیئے۔اب یہ معرکہ نئے رنگ و روپ کی صورت کے ساتھ میدان میں جاری ہے جس کو Digital War کہا جارہا ہے یہ ہوائی جنگ سوشل
میڈیا کے مختلف Versions کے روپ میں طلسماتی انداز میں مسلم دنیا کے ہر عمر کے مرد و زن کی ذہنی ، اخلاقی زوال کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دیگر مذاھب اور لا دین عوام اس شیطانی اور دجالی میڈیا وار کا ہدف اس لیئے نہیں ہیں کہ وہ تو پہلے ہی سے خدابیزار زندگی گزارنے کے عادی اور اس طاغوتی طاقتوں کے غلام ہیں۔ مزاحمت تو صرف اور صرف اللّٰہ والوں کی جانب سے جاری ہے اور انشاء اللہ اس کو بھی مونھ کی کھانی پڑے گی۔
دنیا سبھی باطل کی طلب گار لگے ہے۔
جس روح کو دیکھو وہی بیمار لگے ہے۔
شاید نئی تہذیب کی معراج یہی ہے۔
حق گو ہی زمانے میں خطا کار لگے ہے۔
مگر اے باطل پرستوں اور یہود ونصاریٰ اور اہل ہنود کے مغربی آقاؤں سن لو۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔جو شاخ نازک پہ بنے گا وہ آشیاں نا پائیدار ہوگا۔اہل ایمان قوت کا محافظ اور ناصر اللّٰہ رب العزت کی ذات ہے۔میرا مسلک حق پرستی ہے میری فطرت میں ہے حق شناسی۔
ہر باطل سے ٹکرانے کی جرات ہمیں میں ہے۔