ڈاکٹر نفیس بانو
سابق صدر شعبہ ٔ اردو، وسنت کالج فار ویمن راج گھاٹ وارانسی
(بنارس ہندویونیورسٹی)
Mb: 6390850063
[email protected]
سر سید نے قوم کی ذہنی وفکری پسماندگی کو دور کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کی اہمیت کا احساس دلایا ، تعلیم کے افادی پہلو ؤں کی طرف توجہ مبذول کرائی ،تعلیم کا رجحان دیا ،پرانی سوچ بدلی ۔ سر سید کا ہی فیضان تھا کہ آج قوم با لخصوص مسلم قوم میں بیداری آئی۔
عام ذہن آسانی سے تبدیلیاں پسند نہیں کر پاتا۔اس کے لیے سر سید کو لوگوں کی مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ سر سید قوم کو عصری تعلیم کی اہمیت و ضرورت کا احساس دِلارہے تھے۔لوگ تھے کہ اپنی پرانی روش سے ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہ تھے۔ قوم کے نو نہالوں کی تعلیم کے لیے سر سید کو نا مساعد صورتِ حال سے گزرنا پڑا۔ایسے میں اگر وہ عورت کی تعلیم اور ترقی سے متعلق اپنی بھر پور آواز بلند کرتے اور لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی عملی اقدام اٹھاتے تومزید دشواریوں کا انھیں سامنا کرنا پڑتا۔یہ ان کی دور اندیشی تھی مگر کیا کیا جائے کہ آج تک سر سید اس الزام سے بری نہ ہو سکے کہ وہ تعلیمِ نسواں کے مخالف تھے۔وقتاً فوقتاً ان پر یہ الزام لگتا آیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ تعلیم نسواں کے تعلق سے ان کی مثبت آرا سے اغماز برتا گیا ۔ایسا نہیں کہ سر سید کو تعلیمِ نسواں کا احساس نہیںتھا ۔اس معاملے میںانھوں نے کوئی عملی قدم نہ اٹھاکر اپنی دور اندیشی کا ثبوت دیا۔تاہم جب کبھی کوئی موقع آیا وہ اس معاملے میں اپنے مثبت خیال کا اظہارکرنے میں پیچھے نہیں رہے ۔
مثلاایک موقع پرجب خواتین نے سر سید سے سوال کرتے ہوئے کہاتھاکہ آپ ہماری تعلیم کی نسبت بھی توجہ کریں۔ سر سید نے اپنی تقریر میںان خواتین سے مخاطب ہو کر کہا تھا:
’’ ۔۔۔۔میںتم کو دوبارا یقین دلاتا ہوں کہ جو خدمت میں اس وقت کر رہا ہوں نہ صرف تمھارے لڑکوں کی ہی ہے بلکہ تمھاری لڑکیوں کی بھی ہے۔اگر خدا نے چاہا تو اس سے دونوں فائدہ اٹھائیں گے اور لڑکے اور لڑکیاں دونوںعلم کی روشنی سے روشن ضمیر ہوں گے‘‘
سرسید کا ایک مضمون ’’کن کن چیزوں میں تہذیب چاہیے‘‘ ان کے موقر جریدہ ’تہذیب الاخلاق میں شایع ہوا تھا،اس مضمون میں انتیس نکات بیان کیے گئے تھے جن میںدو نکات نمبر ۸ اور ۲۲عورت سے متعلق ہیں۔ اول االذکر میں کہا گیا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور دستکاری سکھانے کا انتظام ہونا چاہیے۔مؤخرالذکر میں تعدادِ ازدواج سے پرہیز کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ (مطبوعہ تہذیب الاخلاق ذی الحجہ ۱۲۸۷ھ ۔ج۱ ۔ش۹ ،ص۵۸)
سر سید انگلستان گئے وہاں عام ،معمولی گھریلو ملازمہ کو بھی پڑھی لکھی دیکھتے ہیں تو انھیں سخت حیرت ہوتی ہے۔ بارہا وہ اس قسم کی خواندہ عورتوں کا اپنے خطوط میں ذکر کرتے رہے ہیں ۔اپنے ایک طویل خط میںدیارِ غیر کی حرف آشنا،خواندہ اور تعلیم یافتہ عورتوں کا ذکر حیرت و استعجاب کے ساتھ کیا ہے۔ان خواتین کو دیکھ کر انھیں اپنے ملک کی جاہل خواتین یاد آتی ہیں اور انھیںاپنی ’سفید داڑھی پر شرم ‘ آتی ہے ۔
سر سید روم اور مصر کی مسلم عورتوں کا بھی ذکر اپنے اسی خط میں کرتے ہیں ۔ایک مصری لڑکی کی تعلیمی سر گرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اپنی مادری زبان عربی میں تو بخوبی دسترس رکھتی ہے لیکن فرنچ اور لاطینی زبانوں سے بھی واقف ہے۔ دیارِ غیر کی خواتین کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں تو انھیں سخت حیرت ہوتی ہے۔ ( مکاتیبِ سر سید احمد خاں مرتبہ مشتاق حسین)
ایک بیمار عورت ’ایلن ویسٹ‘ کے بار ے میں سر سید لکھتے ہیں کہ اس نے پڑھنے کے لیے ان سے کوئی کتاب مانگی ،انھوں نے کہا کہ ان کے پاس مذہبی کتابیں ہیں اور وہ بھی متنازع قسم کی۔اس عورت نے کہا کہ’’انھیں میں سے کوئی دو‘‘۔سر سید لکھتے ہیں :
’’۔۔۔۔۔کیا یہ تعجب خیز بات نہیں کہ ایک عورت حالتِ بیماری میں کتاب پڑھنے سے دل بہلاوے۔ آپ نے ہندوستان میں کسی امیرکسی نواب کسی راجہ کسی مرد اشراف کو ایسی خصلت کا دیکھا ہے۔‘‘
ایک نو عمر لڑکی ایلزا بیتھ ما تھیوز کے بارے میں سر سید نے لکھا کہ اس کی مالی حالت بھی مستحکم نہ تھی پھر بھی اخبار خرید کر پڑھتی ۔اس سلسلے کا ایک اقتباس پروفیسر افتخار عالم خاں’ مسافرانِ لندن ‘سے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’سر سید کی فکر میں تعلیم ِ نسواں اور آزادی ِ نسواں دونوں کی اصلاحی ضرورتوں کی اہمیت اور طمع واضح طور پر مو جود تھی لیکن تعلیمِ نسوا ںاورآزادیِ نسواں کے درمیان پردے کی ایک دبیز دیوار حائل تھی ۔سر سید کے خیال سے تعلیمِ نسواںبذاتِ خود آزادیِ نسواں کی معاون ہوگی لیکن آزادیِ نسواں کے مسائل کی کوئی تحریک تعلیمِ نسواں کے امکانات کو بھی معدوم کردے گی ۔اسی وجہ سے سر سید تعلیمِ نسواں کے حامی اور آزادیِ نسواں کے مسائل سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ سر سید کا آزادیِ نسواںکے سلسلے کا یہ ’’گریز‘‘ ہی ان پر عائد کیے جانے والے اس الزام کا موجد بنا تھا کہ انھوں نے تعلیمِ نسواں کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھلائی تھی‘‘
(تہذیب الا خلاق ۔۹؍ ستمبر ۲۰۱۴)
آگے افتخار عالم خاں منشی سراج الدین کا وہ اقتباس پیش کرتے ہیںجس میںعورتوں کی تعلیم کی نسبت۸۹۱ ا ء میں انھوں نے ’’سر سید کے موقف کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی کہ ‘‘ :
’’سر سید احمد خاں کی رائے تعلیمِ نسواں کی بابت بار ہا نہایت اعتدال کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے۔اور کوئی نہیں خیال کرسکتا کہ فاضل ممدوح کسی طرح تعلیمِ نسواں کو کم ضروری سمجھتے ہیں ، مگر نہایت افسوس ہے کہ ان کی رائے سے جو اثر ان کے ہم خیال لوگوں میں پیدا ہوا ہے وہ نہایت اندیشہ ناک ہے۔ وہ تعلیمِ نسواں کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اس سے غافل اور بے پرواہ ہو چکے ہیں ‘‘(سر مور گزٹ،ناہین ۱۸۹۱ئ)
مورخہ ۲۲؍ اکتوبر۱۸۶۹ء کو ایڈیٹر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سر سید نے ایک خط لکھا۔ اس خط میں تعلیمِ نسواں سے متعلق اظہارِ خیال کیا گیاکہ اس سلسلے میں گورنمنٹ کا منہ دیکھنے کے بجائے خود اپنی کوشش کی جانی چاہیے۔اگر وہ تعلیم ِنسواں کے مخالف ہوتے توعورتوں کی تعلیم‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں دہلی گزٹ کی ایک تحریر کا ذکر نہ کرتے کہ اگر ہندوستانی خود بھی تعلیمِ نسواں میں دلچسپی لیں تو حکومت ان کی مدد کرے گی۔اگر وہ تعلیمِ نسواں کے خلاف ہوتے تو ایک انگریز خاتون کی چٹھی کا خلاصہ ۱۸؍ اگست ۱۸۷۱ء کے سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ میں بغرضِ اشاعت کیوں بھیجتے۔اگر انھیںتعلیمِ نسواں کی مخالفت کرنی ہوتی تو ان کی زندگی میں ہی ایجوکیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے زنانہ تعلیم کی کوششیں نہ کی جاتیں ۔۱۷ نومبر ۱۸۹۶ء میں جو چار سکشن منظور ہوئے تھے اس میں ایک سکشن تعلیمِ نسواں کا بھی تھا۔بعد کی تعلیم یافتہ نسل نے اس جانب سنجیدگی سے دلچسپی لی اور کامیاب ہوئی ۔
غرض خواتین کی تعلیم،ان کے حقوق اور ان کے مسائل سے متعلق ان کی بیشتر تحریریں اور تقاریرمو جودہیں جن سے ایسانہیں ثابت ہوتا کہ وہ خواتین کی تعلیم کے مخالف ہیں۔البتہ ایک جگہ سر سید نے خواتین سے مخاطب ہو کر یہ کہا تھا کہ:
’’ اس زمانے کی نا مفید اور نا مبارک کتابوں کی تم کو کیا ضرورت ہے۔‘‘
توسر سید سے بہر حال اختلاف کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔شاید یہی وہ جملہ ہے جس کو بنیادبنا کر بعض لوگ کہنے لگے کہ سر سید تعلیمِ نسواں کے خلاف تھے۔
افتخار عالم خاں سر سید کو’’تعلیمِ نسواں کے سر گرم ہم نوا اور آزادیِ نسواں کے مسائل سے کسی حد تک محتاط رویے کے حامل‘‘ کہتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ:
’’ سر سید نے تعلیمِ نسواں پر تو اصرار کیا لیکن آزادیِ نسواں کی ستائش سے آگے قدم نہ بڑھاسکے تھے۔لیکن ان کے اس محتاط گریزسے ان کی روشن خیالی پر کوئی حرف صادر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ہمارے اس نتیجے کا ماخذ سر سید کا وہ موقف ہے جس میں انھوں نے نہایت وثوق کے ساتھ کہا تھا کہ:
’عورتوں کی تعلیم ، خواہ پردے میں،خواہ مدرسے میں ہونا اب ایسا سوال نہیں رہا ہے جس پر شک و شبہ باقی ہو‘‘ (تہذیب الا خلاق ۔۹؍ ستمبر ۲۰۱۴)
ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مصلحتاً خواتین کی تعلیم کا کوئی واضح منصوبہ تو انھوں نے نہیں بنایا لیکن خواتینِ پنجاب کے ایڈریس کے جواب میںسر سید نے بڑے پرُخلوص لہجے میں خواتین کو مخاطب کر کے اُن سے کہا تھا کہ:
’’ میں اپنی قوم کی خاتونوںکی تعلیم سے بے پروا‘ نہیں ہوں۔ میں دل سے ان کی ترقیِ ِ تعلیم کا خواہاں ہوں ‘‘
سر سید نے ان خواتین سے بڑے یقین کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ :
’’میرا یقین ہے کہ لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنالڑکیوں کی تعلیم کی جڑ ہے‘‘
یہاںسر سید کی سوجھ بوجھ اور ان کی دور اندیشی کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ بلا شبہ لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنے میں سر سید نے اپنی تمام فکری توانائی لگا دی۔اس سلسلے میں ان کی مساعی جمیلہ کو یقیناً’لڑکیوں کی تعلیم کی جڑ ‘کہا جاسکتاہے ۔
عورت کی تعلیم و تربیت اور اس کے حقوق سے متعلق کم وبیش سر سید نے وقتاً فوقتاً اظہارِ خیال کیا ہے اور اپنے مثبت نقطہ ٔ نظرکو پیش کیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔