برج پریمی: ایک مطالعہ

0
0
  پر وفیسرمحمد اسد اﷲ وانی
اُردو زبان و ادب کو ریاست جموں وکشمیر میں اپنا اثر و نفوذ قائم کیے ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ ہو گیاہے۔ اس دوران میں اس نے نہ صرف بول چال اور تحریر کے زینے طے کیے بلکہ یہ تخلیقی مراحل سے گزر کر تنقید کے ہدف بہنے کی عادی بھی ہو گئی اور اس نے ریاست کے تینوں خطّوں کے عوام کے درمیان رابطے کی زبان کا اہم فریضہ بھی ادا کیا۔ اس میں شک نہیں کہ یہاں اس کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی عمر بہت کم ہے مگر اس مختصر سی مدت میں اس نے اُردو ادب کے سرمائے میں کئی اہم اور قابلِ ذکر اضافے کیے۔ شاعری، ناول، افسانہ ، ڈراما، تاریخ نویسی، اِنشا پردازی، تنقید اور تحقیق غرض سب اصنافِ ادب میں یہاں کے جن ادبأ، شعرأ اور محققین نے اپنی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اُن میں ایک اہم اور معروف شخصیت ڈاکٹر برجؔ پریمی کی بھی ہے۔
ڈاکٹر برج ؔپریمی کا پورا نام برج کشن ایمہ تھالیکن عوام میں وہ برجؔ پریمی کے قلمی نام سے مقبول تھے۔ اُن کی ولادت ۲۴؍ستمبر ۱۹۳۵ء کو محلہ درابی یار، حبہ کدل سرینگر کے ایک کشمیری پنڈت گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت میں اُن کے والد پنڈت شیام لال ایمہ کا کافی ہاتھ رہا ہے جو اپنے وقت کے ایک قابل مدرس مانے جاتے تھے۔انہیں شعر و شاعری اور صنفِ افسانہ سے کافی دلچسپی تھی، انھوں نے خود افسانے بھی لکھے اور مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ چنانچہ اُن کے اس ادبی لگاؤ کی وجہ سے برجؔ پریمی کو بچپن سے ہی ادبی ماحول نصیب ہوا جس میں انھوں نے پرورش پائی۔ برجؔ پریمی ابھی چھوٹے تھے کہ اُن کے والد نے اپنے آبائی مکان حبہ کدل سے رہائش ترک کرکے اپنے سسرالی مکان رنگہ ٹینگ عالی کدل میں مستقل سکونت اختیار کی جہاں برجؔ پریمی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹریکولیشن امتحان ڈی۔اے ۔وی اسکول مہاراج گنج سے پاس کیا۔ ۱۹۴۹ء میں پریمی کی عمر ابھی ۱۴ برس کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد انہیں اُن کے والد کی جگہ ماڈل اسکول امیرا کدل میں بحیثیت مدرس تعینات کیا گیااور تمام گھریلو ذمہ داریاں اُن کے معصوم اور ناتواں کندھوں پر آ پڑیں، جنہیں انھوں نے بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ نبھایا۔ سولہ بر س کی عمر میں اُن کی شادی بھی کر دی گئی جس سے اُن کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا۔ اب وہ ایک طرف گھر گرہستی کے کاموں کو خوش اسلوبی کے ساتھ نِبھا رہے تھے تو دوسری طرف ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پرائیوٹ طور پر بی۔اے اور ایم۔اے کے امتحانات بھی پاس کئے۔ انھوں نے بی۔ای۔سی اور بی۔ایڈ کی تربیت بھی اسکول کی ملازمت کے دوران میں پائی۔ ۱۹۷۶ء میں کشمیر یونیورسٹی نے انھیں اُردو کے نامور اور ممتاز ادیب اور افسانہ نگار ’’سعادت حسن منٹو۔حیات اور کارنامے‘‘ پر پی۔ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ ۱۹۷۷ء میں وہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو سے وابستہ ہو گئے جہاں وہ قبل از موت ریڈر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
ڈاکٹر برجؔ پریمی کا ادب سے لگاؤ ان کے والد پنڈت شیام لال ایمہ کی ادبی صحبتوں کا نتیجہ تھا جنھوں نے اپنے بیٹے کے ادبی ذوق کو بچپن سے ہی نکھار کر انھوں نے چھوٹی عمر میں ہی اپنے قلم کے جوہر دکھانا شروع کیے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوتا ہے۔ ۱۹۴۹ء میں ان کا پہلا افسانہ ’’آقا‘‘ امر جیوتی میں شائع ہوا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب کشمیر میں پریم ناتھ پردیسیؔ کی افسانہ نگاری اپنے عروج پر تھی۔ وہ ڈاکٹر برجؔ پریمی کے والد کے ہم جلیس تھے۔ اس لیے پریمی پر ہمیشہ مشفقانہ نگاہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ برجؔ پریمی کے انتقال کے بعد ان کے ادبی ذوق کو مزید نکھارنے ، پروان چڑھانے اور جلا بخشنے کا کام پریم ناتھ پردیسیؔ کی صحبتوں نے انجام دیا۔برجؔ پریمی نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے افسانے کی فن کی نزاکتوں ، کردار سازی کا گُر اور کہانی کی بنت کاری کا فن پردیسیؔ سے سیکھا جو ان کی کہانیوں کی تصیح بھی کیا کرتے تھے۔ اس دور میں برجؔ پریمی نے زبان، فن اور تکنیک غرض ہر اعتبار سے بہترین افسانے لکھے۔ اُن کے افسانوں میں ’’ہنسی کی موت‘‘، ’’میرے بچّے کی سالگرہ‘‘، ’’پھٹی پھٹی آنکھیں‘‘، ’’مانسبل سوکھ گیا‘‘، ’’فرض‘‘، ’’لمحوں کی راکھ‘‘ ، ’’یہ گیت یا مزار‘‘، ’’زاویے‘‘، ’’قبا کے ایک طرف‘‘، ’’راجو‘‘، ’’سپنوں کی شام‘‘، ’’ایک پھول ایک کلی‘‘، ’’اُجڑی بہاروں کے اُجڑے پھول‘‘ اور ’’ٹیس درد کی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے افسانوں کا ابھی تک کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔ مگر بیشتر افسانے بیسویں صدی (دہلی)، راہی (جالندھر)، مصوّر (پٹنہ)، پگڈنڈی (امرتسر)، دیش (سرینگر)، استاد(سرینگر)، جیوتی(سرینگر)، شعلہ و شبنم(دہلی)، سب رنگ (بمبئی)، فلمی ستارے(دہلی) اور ہمارا ادب (سرینگر) جیسے اہم ادبی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔
برجؔ پریمی کو افسانے کی ڈگر سے ہٹا کر تحقیق و تنقید کی راہ پر ان کا تحقیقی مقالہ ’’سعادت حسن منٹو۔ حیات اور کارنامے‘‘ لے آیا۔ انھوں نے اس موضوع پر اس قدر جانفشانی اور جگر کاوی سے کام کیا کہ اُردو کے ناقدین اور محققین نے اس کی اہمیت اور افادیت تسلیم کی۔ اس سلسلے میں اُن کی آرأ کا مطالعہ دلچسپ اور قابلِ توجہ ہے جن کا اظہار اس کتاب کے مطالعے کے بعد کیا گیا ہے:۔
’’میرے خیال میں کم از کم ہندوستان میں منٹو پر ایسی بھرپور کتاب شائع نہیں ہوئی ہے… آپ نے تو منٹو مرحوم کے بارے میںایک انسائیکلوپیڈیا تیار کر دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ منٹو پر کام کرنے والا کوئی طالب علم ، کوئی اہلِ قلم اس صحیفے کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔‘‘   (پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ)
’’منٹوپر ایسی جامع کتاب اب تک اُردو ادب میں نہیں لکھی گئی ہے۔ منٹوپر آئندہ بھی تحقیقی کام ہوگا، لیکن آپ کا یہ مقالہ ہمیشہ بنیاد کا کام دے گا۔‘‘  (پروفیسر قمر رئیس)
’’منٹو کی شخصیت اور فن پر ان کی کتاب بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘   (پروفیسر گوپی چند نارنگ)
’’واقعی آپ نے حالات و واقعات جمع کرنے میں بڑی کدوکاوش سے کام لیا ہے اور منٹو کے فن کا جائزہ نہایت ہی شگفتہ اسلوبِ نگارش میں پیش کیا ہے۔ ہر بات کو توقع سے زیادہ پایا۔‘‘  (پروفیسر مسعود حسین خان)
غرض منٹو کے بارے میں ڈاکٹر برجؔ پریمی نے جس زاویے سے کام کیا ہے، اُس کی ادبی حلقوں میں بے پناہ اور شایانِ شان پذیرائی ہوئی۔ ’’سعادت حسن منٹو۔ حیات اور کارنامے‘‘ کے بعد پریمی نے اپنی تمام تر توجہ تحقیق و تنقید کی جانب مبذول کی اور یکے بعد دیگرے کئی اہم کتب شائع کرکے جہاں اُردو ادب کے سرمائے میں اضافہ کیا وہاں کشمیری نژاد ہونے کی وجہ سے کشمیر کے تئیں اپنی ذمہ داریوں اور وفاداریوں سے سبکدوش ہونے کی کامیا ب سعی کی ہے۔
جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہو چکا ہے کہ برجؔ پریمی کا تحقیقی مقالہ ’’سعادت حسن منٹو۔ حیات اور کارنامے‘‘ ۱۹۷۶ء میں مکمل ہوا۔ مگر اسے شائع ہونے میں دس سال کا عرصہ لگا۔ اس دوران میں ان کے مضامین کے دو مجموعے شائع ہو چکے تھے۔
ڈاکٹر برجؔ پریمی کا صحافت کے ساتھ بھی تعلق تھا۔ انھوں نے ایک عرصہ تک روزنامہ ’نوجیون‘ میں ’یگ دیپ‘ کے فرضی نام سے ایک مستقل کالم ’’قاشیں‘‘ لکِھا جو کافی مقبول ہوا۔ وہ ’’جیوتی‘‘ اور ’’مارتنڈ‘‘ میں بھی لکھا کرتے تھے۔ مختلف ادوار میں ’’دیش‘‘، ’’استاد‘‘، ’’ہمارا استاد‘‘، ’’گاشہِ آگر‘‘، ’’آگاہی‘‘، ’’بازیافت‘‘ اور ’’صدف‘‘ جیسے ادبی رسائل کے حلقہ ادارت سے بھی اُن کی عملی وابستگی رہی۔
ڈاکٹر برج ؔ پریمی ایک سنجیدہ اور باصلاحیت ادیب، باذوق اور صاحبِ نظر نقاد، ایک محنتی اور ذمہ دار محقق اور ایک ایماندار اور پُرخلوص استاد تھے۔ ان کی تخلیقات خواہ تنقید سے متعلق ہوں یا تحقیق سے، اُردو زبان و ادب سے متعلق ہوں یا کشمیری زبان و ادب سے، تاریخ و تمدن سے متعلق ہوں یا تہذیب و ثقافت سے، اُن میں فلم کی بات کی گئی ہو یا عوامی زندگی کی غرض یہ کہ کوئی پہلو کیوں نہ ہو تمام مضامین موضوعات کی بوقلمونی اور خشکی کے باوجود ان کے اسلوبِ نگارش، طرزِ اظہار اور طریقۂ استدلال کی بدولت ایسی حلاوت و شیرینی میں ڈھل جاتے ہیں کہ قاری کی طبیعت بوجھل یا گرانباری کا شکار نہیں ہوتی۔ ان کی نثر شگفتہ، رواں، آسان اور عام فہم مگر زور دار اور پُر اثر ہے۔انھوں نے ابتدا میںایک افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ بعد ازاں ایک نقاد اور محقق کے طور پر اپنی شخصیت تسلیم کروائی۔ انھوں نے اُردو زبان و ادب کے علاوہ کشمیر اور بیرونِ کشمیر کی شخصیات کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور جاندار تحریریں پیش کیں۔ ’’حرفِ جستجو‘‘ سے لے کر کشمیر کے مضامین تک بشمول ’’سعادت حسن منٹو۔حیات اور کارنامے‘‘ ان کی سب تصانیف ان کے دستِ مطالعہ، کشادہ نظری، عمیق مشاہدہ، تجّر علمی، محققانہ ژرف نگاہی اور کشمیر کے تئیں جذبۂ وفاداری اور حُب الوطنی کا بین ثبوت ہیں۔ انھوں نے اپنی ان تصانیف میں اُردو ادب، فلم اور ان سے وابستہ بلند قامت ادبی شخصیات، جموں و کشمیر میں اُردو ادب ، کشمیر کی تواریخی صحافت، کشمیری ادب، فنِ تعمیر، ثقافت، کشمیر کی شخصیات، ادبی تحریکات اور اسطور سے متعلق محنتِ شاقہ اور دیدہ ریزی سے کام لے کر معلومات کا بیش بہا گنجینہ فراہم کیا ہے۔ ان کی تحریر میں بے تعصبی، وسیع المشربی او رکشادہ نظری کی آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے نقدو احتساب میں کسی قسم کی جانبداری سے کام نہیں لیا ہے بلکہ ہمیشہ خدا لگتی بات کہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں توازن و اعتدال پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر برجؔ پریمی کا ایک موضوع پر باقاعدہ تحقیقی کام  ’’سعادت حسن منٹو۔حیات اور کارنامے‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ شائع شدہ دوسری تصانیف مختلف مضامین کے مجموعے ہیں ، اُن میں سے یہاں چیدہ چیدہ مضامین کاذکر کرنے پر اکتفا کروں گا جنہیں مختلف موضوعات کے تحت یوں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اُردو زبان و ادب:۔ پریم چند اور تحریکِ آزادی، پریم چند کے تکنیکی تجربے، منٹو کے خطوط، پردیسیؔ اور اُن کے افسانے، اُردو کے چند قد آور افسانہ نگار، پریم چند اور دیہات، مختصر افسانہ اور خواتین، اُردو کہانی کے بدلتے ہوئے رنگ، منٹو۔ فکر وفن کے چند پہلو، سردارؔ جعفری اور قومی رواداری، کشمیر میں اُردو تنقید، جموں و کشمیر میں اُردو افسانہ، جموں وکشمیر میں صحافت، تحریکِ آزادی اور اُردو ادب، اُردو فِکشن اور قومی وحدت، قومی وحدت اور اُردو شاعری۔
شخصیات:عبدالقادر سروریؔ، نند لال کول طالبؔ کاشمیری، گوئیند کول، پریم ناتھ پردیسیؔ، پریم ناتھ دھر، حامدیؔ کاشمیری، سعادت حسن منٹوؔ۔
کشمیر،کشمیر۔فنِ تعمیر، مارتنڈ۔سوریہ مندر، برنیر اور کشمیر، لل دید کی شاعری، کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک، کشمیر۔غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں، کشمیر۔رہن سہن اور لباس۔
فلم:سعادت حسن منٹو اورنگار خانے، سعادت حسن منٹواورہندوستانی فلم، راجندر سنگھ بیدیؔ اور ہندوستانی فلم، ہماری فلموں میں ہندوستانیت، ہندوستانی فلم میں خواجہ احمدؔ عباس کا حصّہ، نغموں کا سوداگر۔ساحرؔلدھیانوی، جاں نثارؔ اختر بحیثیت نغمہ نگار، اوپندر ناتھ اشکؔ اور ہندوستانی فلم۔
انشائیے اور خاکے:باتیں توہمات کی، باتیں استدلال اور قوتِ برداشت کی، قدیم اخلاقی قدریں اور جدید سماجی تقاضے، وہی چراغ بُجھا جس کی لو قیامت تھی۔شیرِ کشمیر، ہمارے میکدے کا بجھ گیا اِک اور چراغ۔پریم ناتھ بزاز، دودِ چراغِ خاموش، کشپ بندھو، جلتی بھُجتی یادیں۔ سوم ناتھ سادھو، بزمِ احساس میں قائم ہے خلا تیرے بعد۔کلدیپ راعنا۔
ڈاکٹر برج ؔ پریمی ایک خوش پوش، سیدھے سادے، سچّے اور پُر خلوص انسان تھے۔ انھوں نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ساری عمر صعوبتوں اورپریشانیوں میں گزاری اور ہر پریشانی کا ہنسی خوشی اور پامردی سے مقابلہ کیا۔ اُن کے چہرے پر ہر آن بشاشت اور لبوں پر ایک ہلکا سا تبسم رقص کرتا رہتا تھا۔ ان کے بیٹے پریمیؔ رومانی کا کہنا ہے کہ وہ مذہب کے سخت پابند تھے لیکن میں نے اُن میں کسی قسم کا مذہبی کٹر پن نہیں دیکھا۔ وہ اپنی نجی زندگی میں کیا تھے؟ میں بتا نہیں سکتا مگر دوسرے مذاہب کے تئیں اُن کا احترام ان کی وسیع المشربی کی کھُلی دلیل ہے۔ وہ مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ نفاست و شرافت اور عاجزی و انکساری ان کی سرشت میں تھی۔ ان کی آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی جو ہر وقت کسی شے کی تلاش میں رہتی تھی۔ وہ کم گفتار تھے مگر جب کسی موضوع پر بات کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ زمانے کے بہت سردوگرم دیکھے ہوئے ہیں۔ ان کی ہر بات سنجیدہ اور معنی آفرین ہوتی تھی۔ جب گھر سے باہر نکلتے تھے، ہاتھ میں ضرور بریف کیس یا بیگ ہوتا، چال میانہ ہوتی۔ اگر کوئی دوست یار ساتھ ہوتا تو دُنیاو مافہیا سے بے نیاز ان سے گفتگو بھی کرتے اور ان کی دلجوئی بھی اور اگر اکیلے ہوتے تو خیالات کی پنہائیوں میں گُم دکھائی دیتے۔ وہ ہر ملنے والے سے ایسے تپاک سے ملتے کہ اجنبی کو بھی اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔
محمد الدّین فوقؔ کے بعد شائد برجؔ پریمی پہلے شخص ہیں جنہوں نے کشمیر کے ادبی، ثقافتی اور تہذیبی خزینوں کومنظرِ عام پر لانے کی بے لاگ کوشش کی۔ وہ وادیٔ کشمیر کے ایک ایسے ادیب تھے جن کا وسیلہ ٔ اظہار صرف اور صرف اُردو تھی۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مِشن کشمیر اور کشمیریات کی بازیافت تھی۔ وہ کشمیر کے ادب، یہاں کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کے نئے ابعاد کی نقاب کشائی کرکے انہیں ’’اُردو نثر کے وسیلے سے دُنیا کے وسیع تر حلقے تک‘‘۱؎ پہنچانا چاہتے تھے جس میں وہ بلاشبہ کامیاب رہے مگر وہ اس سے مطمئن نہ تھے۔ جیسا کہ انھوں نے خود کہا تھا:
’’میرا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا
میری پیاس یہیں نہ بھجتی
میں اپنا راستہ ٹٹول ٹٹول کر تراشنے کی کوشش برابر کر رہا ہوں۔ میں کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکوں گا جو میری زندگی کا سب سے ارفع اور سب سے بڑا مشن ہے۔ کشمیر کی تلاش! کون جانے؟‘‘۲؎
اور سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ حقیقت کی کسی کو خبر نہیں۔ کشمیر کی تلاش جن کی زندگی کا ’’سب سے ارفع اور سب سے بڑا مشن‘‘ تھا۔ جنہیں کشمیر کے ذرّے ذرّے سے پیار تھا وہ کشمیر سے دور عالمِ مہجوری میں ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگئے جہاںسے واپسی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ انھیں کشمیر سے عشق تھا اور اس عشق کو تازگی و تابندگی عطا کرنے اور استحکام بخشنے کی خاطر جو رسمِ وفاداری انھوں نے نبھائی وہ تا ابد دائم و قائم رہے گی۔ عشق کو تو دوام حاصل ہے!
                                                                    ہرگز نمیرد آنکہ دِلش زند ہ شد بعشق
                                                                   ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا