برج پریمیؔ کی منٹو شناسی

0
0
برج پریمیؔ کی منٹو شناسی
 ڈاکٹر سرتاج احمد بدرو
(کشمیر)
’’سعادت حسن منٹو حیات او ر کارنامے‘‘اور ’’منٹو کتھا‘‘ کے خصوصی حوالے سےقدرتی حسن و جمال سے مزین وادیٔ کشمیرازمنہ قدیم سے اپنی زرخیزی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے علم و ادب کے گلستاں کی زینت برقرار رکھنے میں اپناکردار بہ حسن و خوبی ادا کر رہی ہے۔روئے زمین پر اس جنت نما وادی سے متعدد ادباء کے اسمائے گرامی اُس کہکشاںپر سنہرے حروف سے ثبت ہیں‘ جس کی ضو فشانیوں سے آسمانِ ادب روشن ہے۔ایسے ہی ادیبوں میں سے ایک نام برج کشن ایمہ کا بھی ہے جو ادبی دنیا میں برج پریمیؔ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ انہوں نے اردوادب کی خدمت انجام دیتے ہوئے جو سرمایہ چھوڑ ا وہ اردو ادب کے طلباء او رمحققین کے لیے سرمۂ چشم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار‘ محقق‘ ناقد‘ مؤرخ‘ مترجم او رصحافی تھے ۔
تحقیق و تنقید کے میدان میں برج پریمیؔ نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کی برصغیر کے ادبی حلقوں میں مناسب حد تک پذیرائی ہوئی اور انہوں نے بحیثیتِ محقق‘ناقد‘افسانہ نگار‘ منٹو شناس اور کشمیر شناس کے ارد وادب میں وہ مقام پایا جس کے وہ یقینا مستحق تھے۔ تخلیقی سفر کے دوران دیگر موضوعات کے پہلو بہ پہلو سعادت حسن منٹو اوراپنا مادر وطن کشمیر ان کے دوخاص مرغوب موضوعات رہے ۔ اس حقیقت کا اظہار وہ اپنے ایک تحقیقی و تنقیدی مضامین کے مجموعہ میں یوں کرتے ہیں:
         ’’منٹو اور کشمیر ……… یہ دونوں میرے محبوب ہیں۔اس لیے ان کے مختلف پہلوئوں پر
          لکھنا میرے لیے باعثِ سعادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ میرے ہر مجموعے میں یہ دونوں پیکر
           بار بارسامنے آتے ہیں۔‘‘  ۱؎
    دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ برج پریمی ؔ نے جب ایوانِ ادب میں قدم رکھا تو دوسرے افسانہ نگاروں کی موجودگی میں اردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ان کی توجہ کا مرکز و محور بنے۔چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں :
  ’’ہوش سنبھالا تو مختلف اصنافِ ادب سے دلچسپی پیداہوئی ۔چند قدم آگے بڑھائے تو صنفِ افسانہ سے جذباتی او رذہنی رشتہ قائم ہوا۔ ٹیگور‘پریم چند‘سدرشن‘کرشن چندر‘ احمدندیم قاسمی اور اس قبیل کے دوسرے افسانہ نگار برمانے لگے لیکن اس دوران سعادت حسن منٹو کے چند افسانے پڑھنے کو ملے۔مجھے محسوس ہواکہ یہ شخص بات کہنے کاایک نیا سلیقہ رکھتاہے ۔ منٹو کے افسانوں کی پلاٹ سازی کر دار نگاری کافن‘موضوعات کی انفردایت او رالفاظ کی بے حد کفایت کے ساتھ ترسیل وابلاغ کی فنکاری او رکہانی کی بُنت کاہنر مجھے بہت پسند آیا۔ اس کے بعد ایک تشنہ لب کی طرح میں منٹو کی تخلیقات کو کھو جتا رہا او ران کا مطالعہ کرتا رہا‘‘
اس طرح برج پریمیؔ سعادت حسن منٹوؔ کی فنی صلاحیتوں کے قائل ہوگئے۔ ان کے مطابق منٹوؔ ایک ایسے فنکارہیں جوکشمیر سے والہانہ عشق رکھتے ہیں او ریہاں کے تخلیقی ذہن کے ترجمان ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے کے موضوع کے لیے اس عظیم افسانہ نگار کاانتخاب کیااور ’’سعادت حسن منٹوؔ۔حیات اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے مفصل او ر مدلل تحقیقی مقالہ لکھ کر نہ صرف پی۔ ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی بلکہ اس مقالے کو ادبی حلقوں میں ایسی پذیرائی حاصل ہوئی کہ برصغیر کے معتبر محققین‘ناقدین او ر دانشور حضرات نے اس معرکتہ الآراء تحقیقی و تنقیدی کارنامے پر تحسین بھرے تاثرات کااظہار کرکے برج پریمیؔ کے منٹوشناس ہونے پر مہر ثبت کردی۔ یہ منٹو شناس‘پریمیؔ کی ابتداء تھی ۔ آگے چل کر انہوں نے تا دمِ مرگ اردو ادب کے سرمایے میں اپنے قلم کی جولانیوں سے قابل قدر اضافے کیے او رتقریباً ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میںحرفِ جستجو‘جلوۂ صدرنگ‘ کشمیر کے مضامین‘ذوقِ نظر‘ چندتحریریں او رمباحث وغیرہ جیسی تحقیقی و تنقیدی کتابیں شامل ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ ان تصانیف میں فکشن‘ تاریخ‘ تحقیق وتنقید‘ فلم‘ شخصیات‘ ادب‘ آرٹ اور کلچر وغیرہ جیسے مختلف النوع مضامین کے پہلو بہ پہلو سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فکر وفن کے حوالے سے نئے نئے حقائق بھی منظر عام پرلانے کی کامیاب کوشش دیکھنے کو ملتی ہے ۔
        ’’سعادت حسن منٹو حیات او رکارنامے‘‘ کے علاوہ منٹو شناسی کے سلسلے میں برج پریمی ؔکی ایک او رکتاب’’منٹو کتھا‘‘کے نام سے ۱۹۹۴ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آئی۔یہ کتاب بھی ادبی حلقوں میں کافی سراہی گئی۔منٹو کی شخصیت او رفکر وفن پر مبنی اس اہم تصنیف پر اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے پروفیسر مسعود حسین خان لکھتے ہیں:
’’برج پریمی ؔصاحب کی تصنیف’’منٹو کتھا‘‘ کاایک نسخہ موصول ہوا۔ انہوں نے ہر طرح سے منٹو کاحق ادا کردیا ہے ۔پہلے ان کے فن پرمقالہ لکھا۔ اب ان کی شخصیت اور حالات پر مبنی یہ تصنیف ۔ میں نے اسے دلچسپی سے پڑھا او رمجھے اس سے منٹو کے بارے میں’’خیر وشر‘‘ دونوں باتو ں کاعلم ہوا۔ منٹو کی زندگی اس کے فن کی طرح ایک کھلی کتاب تھی ‘‘
        ’’سعادت حسن منٹوحیات اور کارنامے‘‘برج پریمی ؔ کی منٹو شناسی کی ضامن وہ اہم تصنیف ہے جس کے منظرِ عام پر آتے ہی مصنف یو۔پی اور مغربی بنگال کی اردو اکادمیوںکے اعزازات سے نوازے گئے۔ اگرچہ منٹو پر اب بہت کچھ لکھا جاچکاہے اور لکھا جارہاہے لیکن پریمیؔ کی یہ مشہور و معروف تصنیف منٹو پر پہلی باقاعدہ تحقیقی تصنیف کا حکم رکھتی ہے او راس لحاظ سے اسے حوالے کا درجہ حاصل ہے ۔زیر بحث کتاب میں برج پریمیؔ نے نہایت ہی لگن اوردلسوزی سے سعادت حسن منٹو کی حیات کے پہلو بہ پہلو ان کے فکر وفن کاتجزیاتی مطالعہ پیش کیاہے ۔ان کی تحقیقی کاوشیں تنقید آمیز انداز میں سامنے آتی ہیں جب کہ تنقیدی تحریریں بھی تحقیق کی دست نگر معلوم ہوتی ہیں۔اس طرح ان کی تحریریں تحقیق کی جستجو او رتنقید کے استدلالی انداز سے مملو ہیں ۔وہ نہایت ہی عرق ریزی سے پہلے مواد جمع کرتے او رپھر اس پر تجزیاتی عمل سے نتائج حاصل کرتے ہوئے اپنے منفرد او رمتحر کن فیصلے سے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔چھ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں برج پریمی ؔ نے منٹو کی حیات ‘ شخصیت  اور کارناموں کو بنیاد بنا کران کے فن کے مختلف او رمتنوع پہلوؤں سے مفصل او رمدلل بحث کی ہے۔پہلا باب تقریباً ۱۳۰ صفحات پرمشتمل دو ذیلی حصوں میں منقسم ہے ۔جن میں برج پریمیؔ نے سعادت حسن منٹو کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا جامع انداز میں جائزہ لینے کی سعئی جمیل کی ہے اور قاری بخوبی منٹو کی شخصیت اور گھریلو و سماجی حالات و واقعات سے روشناس ہوتا ہے ۔
اس طرح اس باب کے غائر مطالعے سے نہ صرف منٹو کے تخلیقی ذہن اور فکروفن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ اس بات سے بھی واقفیت ہوتی ہے کہ منٹو نے جو ادب تخلیق کیا اس پر ان کی زندگی ‘شخصیت ‘گھریلو اور آس پاس کے سیاسی ‘سماجی اور معاشی حالات کس حد تک اثر انداز ہیں ۔ ۔منٹو کی زندگی کاشاید ہی کوئی پہلو ایسا ہوگا جس پر سے برج پریمی ؔ نے کتاب کے اس باب میںتاریخی گردوغبار کی دبیز چادر نہ ہٹائی ہو ۔
تصنیف کا دوسرا باب ۲۶ صفحات پر مشتمل ہے جس میں’’اردو کامختصر افسانہ منٹو تک‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر برج پریمی ؔنے منٹو تک کے اردو افسانے کی تاریخ کامفصل جائزہ لیا ہے ۔یہ باب اس لیے اہم ہے کہ اس کے آئینے میں برج پریمی ؔآگے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیںکہ منٹو کے دورتک آتے آتے اردوافسانے کی ہیئت کیاتھی اورمنٹو نے اس میراث کی توسیع میںاپنا کونسا اہم رول اداکیا۔ یہاں بر ج پریمیؔ کی بالغ نظری اور فنکارانہ چابک دستی کاقائل ہونا پڑتاہے کہ منٹو کی حیات اورکارناموں کے بارے میں معلومات کھنگالتے ہوئے ان کامطالعہ صر ف ایک محدود دائرے میں قید نہیں رہتا بلکہ اس سے باہر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پھیلتا جاتاہے ۔تیسرا باب ’’منٹو کی افسانہ نگاری‘‘ سے متعلق ہے ۱۱۶صفحات پر مشتمل یہ اس کتاب کاسب سے اہم باب ہے جس میں منٹو کی افسانہ نگاری‘ان کے فن او رنمائندہ کرداروں کے حوالے سے ان کی کردار نگاری کاجائزہ لیا گیا ہے۔ برج پریمیؔ نے سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کو چارادوار میں تقسیم کیاہے اور ہر دَور کی افسانہ نگاری کی فکری و فنی خصوصیات کا تجزیاتی مطالعہ حتی الامکان اپنی ادبی بصیرت او رتنقیدی شعورکے تحت پیش کیاہے ۔پریمی ؔ کے مطابق منٹو کی افسانہ نگاری کاپہلا دور ابتداء سے ۱۹۳۷ء تک‘دوسرا دور ۱۹۳۷ء سے۱۹۴۷ء تک‘ تیسرا دور ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۸ء(فسادات کا ادب) جب کہ چوتھا دور ۱۹۴۸ء سے۱۹۵۵ء یعنی ( قیام پاکستان کے زمانے کاادب) تک محیط ہے۔ مذکورہ باب میں برج پریمی ؔنے نہ صرف اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر منٹو کے تقریباً سبھی افسانوں او رافسانوی مجموعہ جات کو منظر ِ عام پر لایا ہے بلکہ اپنی تنقیدی بصیرتوں سے ان کے افسانوں کافنی و تنقیدی جائزہ لینے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
   منٹوؔ کے پہلے دور کے افسانوں میں تماشا‘ خونی تھوک‘انقلاب پسند ‘ جی آیا صاحب‘ ماہی گیر‘  طاقت کاامتحان‘دیوانا شاعر او رچوری وغیرہ کابر ج پریمی ؔنے جائزہ لیاہے اور ان کے علاوہ’روسی افسانے‘ او ر’ آتش پارے‘ نامی افسانوی مجموعہ جات پر بھی کھل کر مدلل بحث کی ہے۔ ابتدائی دور میں منٹوبرج پریمیؔ کے مطابق آسکرو ائلڈ‘وکٹر ہیوگو اور وسی مصنفین کا مطالعہ کرنے لگے اورانہوں نے کئی روسی افسانوں ڈراموں او رنظموں کاترجمہ بھی کیا۔منٹو کی دوسرے دور کی افسانہ نگاری پر بحث کرتے ہوئے برج پریمیؔ نے اُن کے جن افسانوی مجموعہ جات کاتجزیہ کیا ہے ان میں’’ منٹو کے افسانے۱۹۴۰ء ‘دھواں ۱۹۴۱ء‘ افسانے اور ڈرامے۱۹۴۳ء‘ لذت سنگ ۱۹۴۸ء وغیرہ شامل ہیں ۔ان مجموعہ جات میںشامل جن افسانوں کی روشنی میںبرج پریمی ؔنے منٹو کی افسانہ نگاری کاجائزہ لیاہے ان میں نیا قانون‘مشغل‘پھاہا‘شوشو‘ہتک‘ ڈرپوک‘دس روپے‘ خوشیا‘ ترقی پسند‘منتر‘نعرہ ‘کبوتروں والا سائیں‘کالی شلوار‘ دھواں ‘بواو رسوراج کے لیے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔برج پریمیؔ منٹو کی دوسرے دور کی افسانہ نگاری کے حوالے سے  لکھتے ہیں:
’’یہ سار ا زمانہ منٹو کے فنی ارتقاء کازمانہ ہے ۔اسی زمانے میں ان کے قلم میںگہرائی او رگیرائی پیدا ہوئی۔یہی وہ زمانہ ہے جب ان کے بہت سے شاہکار منظر عام پر آئے جو اردو افسانے کی  تاریخ میںہمیشہ زندہ رہیں گے ۔۱۹۳۷ء کے آس پاس کچھ عرصے تک منٹو اشتراکی اثرات کے تحت رہے او رانہوں نے بعض انقلابی چیزیں لکھیں جن میں مزدور طبقے کے ساتھ حسب معمول ہمدردی کااظہار ملتا ہے ۔‘‘
اسی طرح برج پریمی ؔنے منٹو کی تیسرے اورچوتھے دور کی افسانہ نگاری کانمائندہ افسانوں کے حوالے سے مدلل جائزہ پیش کیا ہے اورجہاں منٹو کے شاہکار افسانوں کی فنی او رفکری خوبیوں سے بحث کی ہے وہیں ان کے کمزور افسانوں کو الگ سے موضوع بحث بنایاہے۔ پریمیؔ کے مطابق منٹو کے ابتدائی اور آخری ادوار میں بے شمار ایسے بھی افسانے ہیں جو بالکل بے مقصد ہیں۔ ایسے افسانے موضوعات او ر زبان وبیان کے لحاظ سے بھی پھیکے ہیں۔اس قبیل کے افسانوں میں برج پریمیؔ کے مطابق سرکنڈوں کے پیچھے‘شاداں‘پڑھے کلمہ‘مس ٹین والا‘ اللہ دتا‘لالٹین ‘گاف گم‘ تین میں نہ تیرہ میں‘سگریٹ اور فونٹین پن‘ شلجم‘پسینہ وغیرہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ زیر بحث باب میں برج پریمی ؔنے منٹو کے مختلف افسانوں سے حوالے اخذ کرکے ان کے فن پر ( موضوع‘ زبان وبیان او راسلوب کے حوالے سے) مدلل بحث کی ہے او ریہ بتانے کی قابل قدر کوشش کی ہے کہ منٹو نے کس قابلیت ‘مہارت اور فنی چابکدستی سے اس صنفِ ادب کو برت کر اس کی شاہراہ پر لازوال نقوش چھوڑے۔باب کے آخر پر برج پریمی نے منٹو کی متعدد کہانیوں کے نمائندہ کرداروں کاتجزیہ کرکے منٹو کی کردار نگاری کامفصل جائزہ لیاہے ۔منٹو نے اردو افسانے کو لافانی کردار عطا کیے جن میں منگو کوچوان ‘ بابو گوپی ناتھ‘سہائے رام کھلاؤن ‘ ایشر سنگھ‘ بشن سنگھ‘ممد بھائی‘ موذیل‘ سوگندھی اور بیگو وغیرہ شامل ہیں ۔
        تحقیقی مقالے کا چوتھا باب منٹو کی مضمون نگاری ‘انشائیہ نگاری او رخاکہ نگاری پر مشتمل ہے جس کا عنوان ہے ’’منٹو کے مضامین انشائیے او رخاکے‘‘ منٹو نہ صرف ایک افسانہ نگار تھے بلکہ انہوں نے معیاری مضامین‘انشائیے او رخاکے بھی لکھے ہیں۔۲۷ صفحات پر پھیلے ہوئے اس باب میں برج پریمی ؔنے سعادت حسن منٹو کے ان مجموعہ جات اور ساتھ میں ان رسائل کی  فہرست بھی مرتب کی ہے جن میں ان کے مختلف مضامین شامل ہیں ۔انہوں نے منٹو کے مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے ۔(الف) ادبی مضامین(ب)سیاسی وسماجی مضامین او ر(ج)فلمی مضامین( جن میں خاکے بھی شامل ہیں) اور پھر تفصیل سے منٹو کے تینوں اقسام کے مضامین پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے ۔ ادبی مضامین میں پریمی ؔ منٹوؔ کے پہلے دور کے افسانوں میں تماشا‘ خونی تھوک‘انقلاب پسند ‘ جی آیا صاحب‘ ماہی گیر‘  طاقت کاامتحان‘دیوانا شاعر او رچوری وغیرہ کابر ج پریمی ؔنے جائزہ لیاہے اور ان کے علاوہ’روسی افسانے‘ او ر’ آتش پارے‘ نامی افسانوی مجموعہ جات پر بھی کھل کر مدلل بحث کی ہے۔ ابتدائی دور میں منٹوبرج پریمیؔ کے مطابق آسکرو ائلڈ‘وکٹر ہیوگو اور وسی مصنفین کا مطالعہ کرنے لگے اورانہوں نے کئی روسی افسانوں ڈراموں او رنظموں کاترجمہ بھی کیا۔منٹو کی دوسرے دور کی افسانہ نگاری پر بحث کرتے ہوئے برج پریمیؔ نے اُن کے جن افسانوی مجموعہ جات کاتجزیہ کیا ہے ان میں’’ منٹو کے افسانے۱۹۴۰ء ‘دھواں ۱۹۴۱ء‘ افسانے اور ڈرامے۱۹۴۳ء‘ لذت سنگ ۱۹۴۸ء وغیرہ شامل ہیں ۔ان مجموعہ جات میںشامل جن افسانوں کی روشنی میںبرج پریمی ؔنے منٹو کی افسانہ نگاری کاجائزہ لیاہے ان میں ’’نیا قانون‘‘ مشغل‘پھاہا‘شوشو‘ہتک‘ ڈرپوک‘دس روپے‘ خوشیا‘ ترقی پسند‘منتر‘نعرہ ‘کبوتروں والا سائیں‘کالی شلوار‘ دھواں ‘بواو رسوراج کے لیے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح برج پریمی ؔنے منٹو کی تیسرے اورچوتھے دور کی افسانہ نگاری کانمائندہ افسانوں کے حوالے سے مدلل جائزہ پیش کیا ہے اورجہاں منٹو کے شاہکار افسانوں کی فنی او رفکری خوبیوں سے بحث کی ہے وہیں ان کے کمزور افسانوں کو الگ سے موضوع بحث بنایاہے۔ پریمیؔ کے مطابق منٹو کے ابتدائی اور آخری ادوار میں بے شمار ایسے بھی افسانے ہیں جو بالکل بے مقصد ہیں۔ ایسے افسانے موضوعات او ر زبان وبیان کے لحاظ سے بھی پھیکے ہیں۔اس قبیل کے افسانوں میں برج پریمیؔ کے مطابق سرکنڈوں کے پیچھے‘شاداں‘پڑھے کلمہ‘مس ٹین والا‘ اللہ دتا‘لالٹین ‘گاف گم‘ تین میں نہ تیرہ میں‘سگریٹ اور فونٹین پن‘ شلجم‘پسینہ وغیرہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ زیر بحث باب میں برج پریمی ؔنے منٹو کے مختلف افسانوں سے حوالے اخذ کرکے ان کے فن پر ( موضوع‘ زبان وبیان او راسلوب کے حوالے سے) مدلل بحث کی ہے او ریہ بتانے کی قابل قدر کوشش کی ہے کہ منٹو نے کس قابلیت ‘مہارت اور فنی چابکدستی سے اس صنفِ ادب کو برت کر اس کی شاہراہ پر لازوال نقوش چھوڑے۔باب کے آخر پر برج پریمی نے منٹو کی متعدد کہانیوں کے نمائندہ کرداروں کاتجزیہ کرکے منٹو کی کردار نگاری کامفصل جائزہ لیاہے ۔منٹو نے اردو افسانے کو لافانی کردار عطا کیے جن میں منگو کوچوان ‘ بابو گوپی ناتھ‘سہائے رام کھلاؤن ‘ ایشر سنگھ‘ بشن سنگھ‘ممد بھائی‘ موذیل‘ سوگندھی اور بیگو وغیرہ شامل ہیں ۔
        تحقیقی مقالے کا چوتھا باب منٹو کی مضمون نگاری ‘انشائیہ نگاری او رخاکہ نگاری پر مشتمل ہے جس کا عنوان ہے ’’منٹو کے مضامین انشائیے او رخاکے‘‘ منٹو نہ صرف ایک افسانہ نگار تھے بلکہ انہوں نے معیاری مضامین‘انشائیے او رخاکے بھی لکھے ہیں۔۲۷ صفحات پر پھیلے ہوئے اس باب میں برج پریمی ؔنے سعادت حسن منٹو کے ان مجموعہ جات اور ساتھ میں ان رسائل کی  فہرست بھی مرتب کی ہے جن میں ان کے مختلف مضامین شامل ہیں ۔انہوں نے منٹو کے مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے ۔(الف) ادبی مضامین(ب)سیاسی وسماجی مضامین او ر(ج)فلمی مضامین( جن میں خاکے بھی شامل ہیں) اور پھر تفصیل سے منٹو کے تینوں اقسام کے مضامین پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے ۔ ادبی مضامین میں پریمیغرض اس کتاب (سعادت حسن منٹو حیات او رکارنامے)میں برج پریمی ؔنے منٹو کی زندگی‘شخصیت اور فکرو فن کے مختلف پہلوؤں کاگہرائی او رجامعیت کے ساتھ تجزیہ کیا ہے ۔منٹو کی حیات او رادبی سرگرمیوں کاشاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس کو پریمی ؔ کی محققانہ اور ناقدانہ نگاہوں نے اپنی لپیٹ میں نہ لیا ہو۔پروفیسر محمد حسن کے مطابق پورا تحقیقی مقالہ توصیفی ہے او رمنٹو کی شخصیت اورفکر وفن کی تیزا بیت کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر کتاب کے غائر مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ برج پریمیؔ ؔنے اردو دنیا کو اپنے منٹو شناس ہونے کا ٹھوس ثبوت فراہم کیا ہے ۔
         ’’منٹو کتھا‘‘منٹو شناسی کے سلسلے میں ڈاکٹر برج پریمی ؔکی ایک اور تصنیف ہے جوان کے انتقال کے ۴ سال بعد ۱۹۹۴ء میں ان کے فرزند پریمی رومانی نے مرتب کرکے شائع کروائی۔منظر عام پر آتے ہی یہ کتاب ادبی حلقوں میں کافی سراہی گئی۔عنوان کی مناسبت سے یہ کتاب نہ صرف منٹو شناسی کے حوالے سے درجہ رکھتی ہے بلکہ تحقیق وتنقید کے کٹھن میدان میں بھی قبولیت حاصل کرچکی ہے کیونکہ برج پریمیؔ نے تحقیقی صلاحیتوں او رتنقیدی بصیرتوں کو بروئے کار لاکر اس کتاب میں سعادت حسن منٹو کی شخصیت اورفکر و فن کے مختلف گوشوں کی نقاب کشائی کرکے ان کا تجزیہ کیاہے ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ‘اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’برج پریمیؔ صاحب کاکام منٹو پر بنیادی نوعیت کاہے ۔ منٹو کاسنجیدہ مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص مرحوم برج پریمیؔ کے کام سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ انہوں نے پوری زندگی اس میں کھپا دی ۔ان کاادبی  کمٹ منٹ مثالی تھا۔ان کی دلسوزی ‘نیکی اورشرافت ان کے رفقاء  کے لیے نمونے کادرجہ رکھتی ہے ۔‘‘
         شخصیت‘فکر وفن‘ خطوط‘معاصرین‘ فلم اور تراجم جیسے ابواب پرمشتمل اس مجموعے میں کل ملا کر ۲۲ مضامین اور آخر پرمنٹو کے ادبی کارناموںکی مفصل فہرست بعنوان ’’منٹو کاادب‘‘شامل ہیں۔ ’’منٹو کاخاندان‘‘ منٹو اس کتاب کی پہلی کڑی ہے ۔جس میں برج پریمیؔ نے منٹو کے جدِ اعلیٰ خواجہ رحمت اللہ سے لے کر سعادت حسن منٹو کے انتقال تک منٹو خاندان کے بارے میں نادر معلومات جمع کرکے پشت درپشت تک منٹو خاندان کے تعلیمی‘معاشی او رتجارتی احوال پر سیر حاصل تبصرہ کیاہے ۔ منٹو کی پیدائش کے وقت ان کے والد معاشی اعتبار سے کن مشکلات سے دوچار تھے او رمنٹو کے بھائیوں اور بہنوں کے برعکس منٹو کی پرورش کن نامساعد حالات میںہوئی۔
کتاب میں شامل دوسرا مضمون ہے ’’منٹو شخصیت کے چند پہلو‘‘ ۔عنوان کی مناسبت سے صاف ظاہر ہے کہ برج پریمیؔ نے اس مضمون میں سعادت حسن منٹو کی شخصیت کے چند پہلوؤں پر سیر حاصل تبصرہ کیاہے ۔برج پریمی ؔچونکہ ایک غیر جانبدار نقاد اور محقق تھے اس لیے منٹو سے والہانہ عقیدت کے باوجود انہوں نے اس مضمون میںمنٹو کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی اجاگر کیاہے ۔ ایک طرف منٹو کی فیاضی او رخلوص کا ذکر کیاہے دوسری طرف’’انجمن احمقان‘‘ سے وابستہ منٹو کی شوخیوں کومنظر عام پر لایا ہے۔ اس کے علاوہ منٹو کی انانیت‘ بت شکنی‘مروجہ اصولوں سے بغاوت‘فحش نگاری‘ ہنگامہ آرائی‘سیاسی نظریات او رسیاست سے دوری‘ اشتراکیت سے وابستگی‘مذہبی مظالم کے خلاف منٹو کی بغاوت او رشراب نوشی وغیرہ کاجائزہ برج پریمیؔ نے نہایت ہی شاندار طریقے سے پیش کیاہے ۔غرض اس مضمون میں برج پریمیؔ نے منٹو کے طالب علمی کے زمانے کی منظم کردہ انجمن’’انجمن احمقان‘‘ سے لے کر ان کے گھرکے ’’دارُالاحمر‘‘ نامی کمرے تک او رپھر تقسیم ملک کے وقت تک منٹو کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔
    ’’منٹو کے مرشد۔باریؔ‘‘ ایک معلوماتی مقالہ ہے جس میں برج پریمی نے سعادت حسن منٹو کے گرو غلام باریؔ(باری علیگ) کی شخصیت کے چند پہلوؤں سے بحث کی ہے او ر    سا تھ ہی ساتھ منٹو کے تخلیقی ذہن پر باریؔ صاحب کی شخصیت کے اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ باریؔ صاحب کے کہنے پرمنٹو نے جن روسی اور فرانسیسی (اشتراکی اور انقلابی) کتابوں کے تراجم کیے ان پر بھی اس مضمون میں روشنی ڈالی گئی ہے او رباریؔ صاحب کے تئیں انانیت پسند منٹو کی و الہانہ محبت اور گہری عقیدت سے بھی دلائل کے ساتھ بحث کی گئی ہے ۔ برج پریمی ؔکے مطابق باریؔ نے ہی منٹو کے کمرے کانام’’دارالاحمر‘‘ تجویز کیا۔
’’منٹو گھر میں‘‘ منٹو کتھا کی اگلی کڑی ہے ۔جس میں برج پریمی ؔ نے صفیہ بیگم کے ساتھ منٹو کی شادی سے لے کرموخر الذکر کے انتقال تک کی گھریلو او رازدواجی زندگی کوموضوع بحث بنایاہے ۔منٹو کوگھریلو زندگی میںجن دشواریوں ‘ناکامیوں او رمعاشی بدحالیوں کاسامنا کرنا پڑا‘پریمی ؔ نے ان کا بھی اس مضمون میں احاطہ کیا ہے۔اسی طرح’’منٹو اورکشمیر‘‘ بھی ایک بصیرت افروز مقالہ ہے جس میں سعادت حسن منٹو کی کشمیر سے دلی وابستگی اورکشمیر کے تئیں ان کے جذباتی لگاؤ سے بحث ہے ۔برج پریمیؔ کے مطابق منٹو کشمیر ی الاصل تھے او ران کے بزرگ علامہ اقبال کی طرح کشمیری پنڈت تھے۔ علاوہ ازیں اس مضمون میں منٹو کی تحریروں میںکشمیر اورکشمیریوں کی ذکر کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔
منٹو کے فکر وفن کے حوالے سے منٹو کتھا میں شامل’’ منٹو ۔بحیثیت ناول نگار‘‘ ایک بصیرت افر وز مقالہ ہے جس میں برج پریمی ؔ نے اپنی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاکر منٹو کے ایک اہم ناولٹ’’ بغیر عنوان کے ‘‘ کامفصل جائزہ لیتے ہوئے ان کی ناول نگاری سے بحث کی ہے ۔ان کاماننا ہے کہ اگر سعادت حسن منٹو اس شعبے میں اسی لگن اور فنکارانہ خلوص کے ساتھ توجہ کرتے جو ان کی کہانیوں کاطرۂ امتیاز ہے تو اردو ناول نگاری میں ایک بالکل نئی نہج کااضافہ ہوتا۔
’’منٹو شناسی‘‘ کے عنوان سے منٹو کتھا میں برج پریمیؔ نے رسائل و جرائد کے ساتھ تقریباً ان سبھی تصانیف کی (مع مصنف‘ناشر او رسال اشاعت)فہرست مرتب کی ہے ۔جو ۱۹۸۹ء تک منٹو شناسی کے سلسلے میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس مرتب کردہ فہرست سے نہ صرف برج پریمیؔ کی تحقیقی صلاحیتوں کااندازہ ہوتاہے بلکہ اس کے پسِ منظر میں ان کے اس وسیع مطالعے کابھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جوان کی منٹو شناسی کاضامن ہے ۔بلاشبہ برج پریمیؔ وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اورنقاد و محقق ہونے کے ساتھ ساتھ صف اول کے منٹو شناس ہیں۔
     ’’منٹو کے خطوط__ایک جائزہ‘‘’’منٹو کے نام مشاہیر ادب کے خطوط‘‘ ’’منٹو کے چند اہم خطوط‘‘ اور ’’ چند تصویر بُتاں‘‘(برج پریمی کے نام معاصر ادیبوں کے خطوط)منٹو کتھا میں شامل الگ الگ نوعیت کے چار مضامین ہیں۔ اول الذکر میں برج پریمیؔ نے مکتوب نویسی کی تاریخ پر ہلکی سی روشنی ڈالتے ہوئے منٹو کے تحریر کردہ چند خطوط کے حوالے سے ان کی مکتوب نگاری کاجائزہ لیا ہے ’’ منٹو کے نام مشاہیر ادب کے خطوط‘‘ بھی ایک معلوماتی اور دلچسپ مضمون ہے جس میں برج پریمیؔ نے منٹو شناسی کاثبوت دیتے ہوئے منٹو کے معاصرین(احمد ندیم قاسمی‘جاوید اقبال‘ راجہ مہدی علی خان‘کنہیا لال کپور‘ فکر تونسوی‘سلام مچھلی شہری اورعبدالسلام خورشید)کے ان خطوط کو سمیٹا ہے جوان ادیبوں نے منٹو کے نام لکھے۔اس طرح ’’منٹوؔ کے چند اہم خطوط‘‘ کے عنوان سے برج پریمیؔ نے وہ خطوط مرتب کیے ہیں جو سعادت حسن منٹو نے اپنے ہم عصر ادیبوں کو لکھے ہیں جن میں محمد طفیل‘ممتازشیریں‘ سلام مچھلی شہری او رنصیر انور شامل ہیں ۔
’’چند تصویر بتاں‘‘ برج پریمیؔ یعنی کہ منٹو کتھا کے مصنف کے نام معاصر ادباء کے سترہ خطوط کی فہرست ہے ۔ان میں سے اکثر خطوط برج پریمی کے ان استفسارات

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا