جموں خطے میں خصوصا اور عموما پورے جموں وکشمیر میںاشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمتوں پر لگام لگانے کی انتظامیہ کی جانب سے ہر آئے روز کوشش کی جاتی ہے لیکن جموں و کشمیر میں ان چیزوں کی قیمتوں کے بڑھانے اور کم کرنے کے کا فیصلہ تاجروں کی من مانی سے ہوتی ہے جس پر سرکاری لگام مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتی ہیں یو تو یہاں تو اس سلسلے میں اشیائے خوردو نوش ہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ ہر تاجر انہ سازو سامان میں بھی من مانی ہی کا چلتا ہے جسکی مثال کمپوٹر میں ایک پرنٹ نکالنے کی قیمت سے لیکر ہر دن سبزی قیمتوں کے بڑھنے تک دی جاسکتی ہے ۔لیکن اشیائے خور و نوش کی تخصیص اس لئے یہاں کی گئی ہے اس کا تعلق ہرغریب امیر کی جیب سے براہ راست ہے قیمتو ں کے گھٹانے بڑھانے کاکچھ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بہت اچھا عوامی اہمیت اور عوامی وکاس والا نظام ہے ۔ لیکن یہاں فوڈ سپلائی اور اس پر کنٹرول کرنے کے لئے کنزیومر افیرئرس تک جیسے محکمے ہیںجنکا زمینی سطح پر کوئی ایسا میکانزم نہیں ہے جس کے زریعہ غریب لوگوں جیب خالی کرتے ان تاجروں کی من مانیوں پر کنٹرول کیا جاسکے ہیں ۔ اشیائے خورد و نوش دکانوںکے مالکان دکانوں پر کام کررہے ملازمین کی اجرت عام لوگوں سے پوری کرتے ہیں جوکہ کسی جُرم سے کم نہیں ہے بازاروں سے سبزیو ں اوردودھ تک کی قیمتوں میں تب مذید اضافہ ہوجاتا ہے جب گائوںمیںان چیزوں کی رسائی ہوتی ہے قاعدے سے ہر ہفتے سرکار ی اپڈیٹ قیمتوں کی لیسٹیں دکانوں پر چسپاں کرنے کی ذمہ داری اوراُن پر عمل کرانے کا ذمہ کس کے ذمہ ہے عمل نہ کرنے والے تاجروں کے متعلق جانکاری حاصل کرنیوالے انسپکٹر رینک کے افیسران عوام کے کام کب آئیں گے جموں و کشمیر میںاشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا اضافہ جسکا تعلق براہ راست عوام سے ہے پر سختی سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ایل جی آفس کو اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ذمہ دار لوگوں کو متحرک کرناچاہئے ۔عوام کی ذمہ داری بھی بنتی ہے جہاں پر قیمتوں میںاضافہ لگے متعلقہ محکمہ کو باخبرکرے اور تاجرحضرات بھی اس سلسلے میں عوام مفاد کو ترجیح دیکر اپنے مفاد کی طرف بڑھیں