کشمیر میرا شاداب وطن

0
0
ڈاکٹر پریمی رومانی
ڈاکٹر برج پریمی اپنی کتاب’’ کشمیر کے مضامین ‘‘میں رقمطراز ہیں۔۔
’’جہاں میں رہتا ہوں اُسے صدیوں سے دھرتی کا سورگ کہاجاتا ہے ۔ اپسراؤں کا یہ دیس تہذیب کی صبح سے اپنے ملکوتی حسن ، اپنے رنگ اور اپنے نور سے سورگ کے انسانی تصور کاپیکرہے ۔ یہ وہ خطہ ٔ ارضی ہے جہاں کے صدرنگ جلوؤں نے صدیوں سے سیلانیوں کو برمایا  ہے۔ یہاں گیان وعرفان کے کتنے سوتے پھوٹے ہیں، آگہی وبصرت کے کتنے چراغ روشن ہوئے ہیں اورعقل وعشق کے کتنے مرحلے انجام کوپہنچے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر یہ سب داستانیں منقش ہیں۔‘‘
 نہ صرف یہی اقتباس بلکہ کشمیر کے بارے میں اُن کی بے شمار تحریریں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ اُنہیں کشمیرسے والہانہ عقیدت تھی ۔ وہ کبھی اس کے حسن اورخوبصورتی کی بات کرتے ہیں اورکبھی قدیم تواریخی مقامات کاجائیزہ لیتے ہیں۔ کبھی یہاں کی روادار ی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور کبھی یہاں کے لوگوں کی ذہانت کی دِل کھول کرداد دیتے ہیں۔ اُن کا دل ایسے قلم کاروں کی تحریر وں سے اُوب گیا تھا جنہوںنے کشمیر کی تصویر کو مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ اُن کے مطابق ایسے بعض فنکاروں نے صرف کشمیر کے حسن اوراس کی خوبصورتی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے افلاس ناداری اورغربت کو کسی نے بھی محسوس نہیں کیا۔والد اُن پردوں کو سرکانا چاہتے تھے جن میں کشمیر کے حسن اس کی رعنائی ، اس کی مٹی کی خوشبو اوراس کے عرفان کے لازوال گوشے چھپے ہوئے ہیں۔
والد اپنے مادر وطن کشمیر سے بے پناہ عشق رکھتے تھے ۔انہیں کشمیر کے ذرے ذرے سے پیارتھا۔ یہاں کے صحت مند اقدار انہیں بے حدعزیز تھے ۔ اس لئے ان کی اکثر تحریروں میں کشمیر کی مٹی کی بُو باس محسوس کی جاسکتی ہے ۔ کشمیر کے شعر وادب کا منظر نامہ ہو یا کسی نادر نسخے کی دریافت ،ان کی دوربین آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں رہتا بلکہ وہ تلاش وجستجو سے نہ جانے کتنی تہیں کھول دیتے تھے اور پھر نتیجہ اخذ کرتے تھے اور یہی چیز ان کو اپنے معاصرین میں ایک الگ اورمنفرد مقام دلاتی ہے ۔ آثار قدیمہ شہر لالہ وگل ، کشمیر ، غیرملکی سیاحوں کی نظر میں ، کشمیر کاقدیم لباس اوررہن سہن اورکشمیر لوک گیتوں کاسماجی پس منظر جیسے  معلوماتی مقالات میں ان کا یہی جذبہ کار فرما ہے۔ اس طرح سے کشمیر سے اُن کی محبت اورعقیدت کاجذبہ اُن کی تحریروں میں جگہ جگہ عیاں ہے۔درج ذیل اقتباس سے آپ بھی ان کا یہ جذبہ بخوبی محسوس کریں گے ، اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں:۔
’’میں صدیوں سے اس سرزمین میں رہتا چلا آیا ہوں۔ میں اس کا انگ انگ اورروم روم ہوں۔ میری رگ رگ میں یہی عطر بیز ہوائیں ، یہی تقدس وطہارت ، قدرت کی مہانتا کے یہی رنگ ، کیسر کی کیاریوں کا یہی سہاگ علم وفن اورعقل ودِل کی یہی خوشبو ہے۔ مجھے ازل سے ان پرُ اسرار سناٹوں کو سمجھنے کی تلاش ہے۔  جو یہاں کے ہرپربت ہر جنگل ،ہرجھیل ، ہر پھول اورنیلے آکاش ہر آہستہ خرامی سے اُڑتے ہوئے ہربادل میںمحسوس ہوتے ہیں۔ میںنے اپنے اس مجموعے میں شامل اپنی الٹی سیدھی تحریروں میں ان حشر سامانیوں کو تھامنے کی کوشش کی ہے۔ ان حشر سامان سنا ٹوں  کے اس قدر رنگ ہیں کہ میرے الفاظ میں یار نہیں کہ ان سبھی رنگوں کو سمیٹ سکوں۔ یہ ایک چھلاوے کی طرح اڑ کر فضاؤں میں تحلیل ہوجاتے ہیں اورمیںحیران اورمبہوت خلاؤں کی پہنائیوں میں صرف تکتارہ جاتاہوں۔
 یہ رنگ میرے وجود کاحصہ ہیں!
یہ میں ہوں۔ میرا ریزہ ریزہ وجود!
اگر آپ کوان رنگوں میں کہیں کسی جگہ میرا لرزتا ہوا وجود ملے تو میںسمجھوں گا کہ میں اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں۔‘‘
والد کی تحریریں کشمیر کے تہذیب کلچر ادب اورثقافت کے مختلف گوشوں کی نقاب کشائی کرتی ہیں اورساتھ ہی ساتھ کشمیر کے تشخص کو نمایاں کرتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان  کے ہر سانس میں کشمیر بساہوا تھا ۔
 والد کی تحریروں میں شاعرانہ پیکر تراشیاں، افسانوی حُسن ونزاکت ،سادہ اور سلیس زبان ملتی ہے ۔ ان کے فن پاروں کی یہ خصوصیات قاری کو گرانباری اورثقالت کااحساس نہیں ہونے دیتے  اُن کی تصنیف’’جلوہ ٔ صدرنگ‘‘ سے یہ نثرپارہ پیش خدمت ہے۔ جس میں فکر کے نئے گوشے بھی سامنے آتے ہیں اورتواریخی حقائق بھی ، مادر کشمیرکا لمس بھی اورحسن کاری بھی لکھتے ہیں:۔
’’جہاں میں رہتا ہوں وہاں کی صبحوں اورشاموں پر بنارس کی صبحیں اوراودھ کی شامیں قربان ہیں۔ یہاں کی ہر سحر یہاں کی سحر ہے اوریہاں کی ہر شام یہاں کی شام ہے۔ ان صبحوں اورشاموں کی ہر شبیہ اور ہر رنگ بے مثال ہے ۔ اس کی ہمسری کایارا کسی شبیہ ، کسی اوررنگ میں نہیں ۔ یہ سرزمین شاعر کا تخیل ہے اورمغنی کاساز۔ یہ حسن پر ستوں کی عبادت گاہ ہے اورعقل وجذبے کی آماجگاہ ۔ یہاں قدرت اپنی تمام حشرسامانی بے نقاب کرتی ہے اورانسانی عقل جودت ذہن کے جلوے بکھیرتی ہے ۔ ستی سر کے نیلے پانیوں کے جلال سے لے کر آج تک اس سورگ بھومی کے پیوٹوں پر کتنے خواب بیدار ہوئے یہاں بودھوں نے ازلی حسن کی تلاش کی ہندو شو کو کھوجتے رہے مسلمان توحید کے یقین سے دِلوں کو روشن کرتے رہے اور عیسائی انجیل کی مقدس آیات سے اپنے باطن کے چراغ جلاتے رہے …… ہماری میراث یہ سارے نقوش ہیں۔‘‘
والد سچے معنوں میں کشمیر کے عاشق تھے وہ حقیقی معنوں میں اس قوم کے بہی خواہ تھے۔ اُنہوں نے اپنی تحریروں سے وہ نقش پاچھوڑے ہیں۔ جو ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے ۔بقول  پروفیسر جگن ناتھ آزادافسوس ہے کہ جو شخص کشمیر اورکشمیر یات سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا۔ وہی شخص ایک ستم زدہ مہاجر کی طرح کشمیرسے نکلااورجموں میں صرف ایک ہفتہ قیام   کرنے کے بعد نامساعد حالات کاشکار ہوکر اس دُنیا  سے کوچ کرگیا  لیکن ان کی یہ آواز پڑھنے والوں کے دلوں میں اب بھی گونج رہی ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا