تحریر…جمیل اختر شفیق
رابطہ:7004771081
3 اکتوبر 2023 بروز منگل کو دیر رات سوشل میڈیا کے حوالے سے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مظفرپور شہر کے چندوارہ محلے میں رات 9 بجے کے قریب کسی برقعہ پوش خاتون کو سرِ راہ کسی نامعلوم شخص نے گولی مار کر موت کی نیند سلادیا،سن کر افسوس ضرور ہوا لیکن میں نے اسے آئے دن پیش آنے والی واردات کا ایک حصہ سمجھ کر نظر انداز کردیا-
4 اکتوبر بروز بدھ کی شام صحافی شہنواز عطا کی ہندی میں رقم کی ہوء ایک چھوٹی سی خبر واٹس ایپ پہ موصول ہوئی جس کی سرخی پڑھتے ہی میرے ہوش اڑگئے،جسم گویا مفلوج ہوکر رہ گیا،دل اس حقیقت کو کسی بھی طور تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا کہ بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟مزید دوسرے ذرائع سے تصدیق کرنے پر معلوم ہوا کہ جس سانحے پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے وہ ایک ایسی صداقت ہے جس کے احساس سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،بعد میں سی سی ٹی وی فوٹیج کسی نے بھیجی جسے دیکھ کر دھڑکنیں مزید تیز ہوگئیں کہ خود پہ قابو پانا مشکل تھا،جس میں صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ سڑک پر دور تک بلب کی روشنی پھیلی ہوئی ہے،ایک برقع پوش خاتون ہاتھوں میں ضروریات کی چیزیں لیے بہت آرام سے اپنے گھر کی طرف جارہی ہے،اچانک ایک بیس بائیس سال کا نوجوان بڑی آہستگی سے یوں نمودار ہوتا جیسے کوئی پردے کے پیچھے سے باضابطہ اس کے شکار کی نشاندہی بھی کر رہا ہو وہ نوجوان آتا ہے اور پیچھے سے غالباً ان کے سر کے اندر گولی اتارکر نکل جاتا ہے،ایک خوفناک آواز کے ساتھ لمحہ بھر میں خاتون زمین پر ڈھیر ہوجاتی ہے-
منظر کیا تھا مانو جیسے دیکھنے والے کی روح لرز اٹھے،تصویر اتنی صاف ہے کہ فوٹیج کی مدد سے مجرم کی شناخت کرکے اب تک اسے سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جاسکتا تھا لیکن حسبِ دستور مجرم قانون کی گرفت سے آزاد ہے،پتہ چلا ہے کہ پولس معاملے کی تحقیق کر رہی ہے،پورے وثوق کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ تحقیق کب تک مکمل ہوگی؟ اور سزا تو دور مجرم کب تک پکڑا جائے گا؟-
ہماری بیبسی شہروں کی دیواروں سے چپکی ہے
ہمیں ڈھونڈے گی دنیا کل پرانے اشتہاروں میں
زندگی جیسے روز دوڑتی تھی ہنوز دوڑ رہی ہے،جہاں موت ہوء تھی آج بھی ان گلیوں سے لوگوں کو آنا جانا جاری ہے،موت کی ہی تو خبر تھی ممکن ہے کچھ وحشت پھیلی ہو،آس پڑوس کے لوگوں کو پل بھر کے لیے کچھ غم بھی ہوا ہو، وہ بھی ممکن ہے کچھ دنوں میں ختم ہوجائے یا ہوسکتا ہے ختم بھی گیا ہو- یہ آخری جملہ اسی لیے بھی حقیقت سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آج جس عہد میں جی رہے ہیں وہ بنیادی طور پر مفاد پرستوں کا عہد ہے،بیضمیروں کی دنیا ہے،مادہ پرستوں کی کائنات ہے ایک ایسی کائنات جہاں ایک بیٹا باپ کو دوگز زمین میں لٹانے کے بعد دعائے مغفرت تو دور پلٹ کر رسماً یاد بھی کرنے کی زحمت نہیں کرتا اسی لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ گلی روز کی طرح آج بھی سکون کی نیند سو رہی ہوگی کیونکہ ان کا بگڑا ہی کیا ہے؟اتنا ہی نا کہ روز گزرنے والی ایک پردہ نشیں،وہاں کے لیے گمنام ایک خاتون وہاں سڑکوں سے اب کبھی نہیں گزر پائے گی؟پوچھیے اس خاندان سے جس کی فیملی کی نیک نامی کا سبب بننے والی خاتون سماج دشمن عناصر کی بھینٹ چڑھ گئ،پوچھیے اس شوہر سے جس نے اپنے مرکزِ تسکین کو کھویا،پوچھیے اس بھاء سے جس نے اپنی جوان بہن کے جنازہ کو کاندھا دیا ہے کہ ان کے دلوں پہ کیا گزر رہی ہے؟تو شاید اندر کی دبی ہوئی غیرت لمحہ بھر کے لیے سہی چینخ اٹھے-
محترمہ سنجیدہ عنبری سے میری کبھی براہِ راست ملاقات نہیں تھی لیکن پھر بھی میں انہیں کم وبیش چودہ پندرہ سالوں سے جانتا تھا،بہار کے متعدد اخبارات اور ملک کے مختلف حصوں سے شائع ہونے والے رسالوں میں ان کی تخلیقات کثرت سے شائع ہوتی تھیں،مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں بھی کوئی گریز نہیں کہ جب میں اخبارات میں جگہ پانے کا خواب دیکھ رہا تھا اس وقت تک سنجیدہ عنبری کو شائع ہوتے ایک زمانہ گزر چکا تھا،مدتوں بعد جب مجھے بھی شائع ہوتے سالوں بیت گئے تو ایک روز ان کی کال آئ،نام کو صیغہء راز میں رکھ کر تم کہتے ہوئے اس طرح مخاطب کیا گیا گویا میری بڑی بہن بول رہی ہو،گفتگو میں کچھ تحسین آمیز کلمات تھے،کچھ نصیحتیں تھیں اور حوصلہ افزا جملوں کی بارشیں بھی -زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے سینیر کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ بھی اس راہ کے کسی نئے مسافر کے لیے کتنا معنیٰ رکھتا ہے؟ وہ وہی بہتر جانتا ہے اسے شاید لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا-بیچ میں کورونا کی لہر آء اور ہر شخص کی زندگی اتنے حصوں میں تقسیم ہوگء کہ رشتے کیا انسانیت کا تانا بانا بکھر کر رہ گیا،شاید ان ہی ذہنی اذیتوں کے زیرِاثر پچھلے چار پانچ سالوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ممکن ہے کبھی کال بھی آء ہو اور نمبر سیو نہ ہونے کے سبب گفتگو کے شرف سے محروم رہا –
اپنے قلمی تعلق اور وقفے وقفے سے ہونے والی گفتگو کی روشنی میں جو میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا وہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر سنجیدہ عنبری صاحبہ ایک مشرقی پسند خاتون تھی،ان کے مزاج میں استغنا تھا،اللہ کی عطا کی ہوء ہر نعمت پر قانع رہ کر زندگی گزارنے کا ہنر جانتی تھی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ شاعری کے ساتھ ان کا ترنم بھی اس لائق تھا کہ ملک گیر سطح پر نہ سہی کم ازکم بہار کی سطح پر تو وہ مشاعروں کے اسٹیج سے اپنے ضلع کی مضبوط نمائندگی کرسکتی تھی لیکن میں نہیں جانتا کہ مشاعرہ تو دور کسی شعری نشست میں بھی کبھی انہوں نے بحیثیت شاعرہ اپنی موجودگی درج کروائی ہو،وہ اخبارات ورسائل میں جگہ پاکر اپنی پرسکون خانگی زندگی جینے والی،مثبت فکر کی حامل، ایک بااخلاق، پردہ نشیں طبع خاتون تھی،امکانات کے باوجود چمکتی ہوئی دنیا سے خود کو دور رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی اس تناظر میں سنجیدہ عنبری کی زندگی کی سنجیدگی پر نظر ڈالیے تو ان کے والدین کی حسنِ تربیت پہ رشک ہوتا ہے اور ان کے حق میں دل سے دعائیں نکلتی ہیں -اللہ ان کے درجات بلند فرمائے -آمین-
المیہ یہ ہے کہ ان کی رحلت پر دوسرے میڈیا کے پلیٹ فارم کی طرح اردو اخبار میں بھی محض ایک روایتی قسم کی خبر آء اور تادمِ تحریر دور دور تک سکوت کا ماحول قائم ہے،ان کی موت کی وجہ کیا تھی؟اب تک کیا کاروائی ہوئی؟اس طرح کے دیگر درجنوں سوالات سے قطع نظر بہرصورت وہ اردو کی ایک اچھی شاعرہ تھی، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو کی کسی شاعرہ کی ناگہانی موت دراصل ہم اردو والے کے لیے ایک فیملی ممبر کی موت کے مترادف ہے، اگر ہم انہیں اپنی فیملی نہیں مانتے تو ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم واقعی اردو کے لیے کام کر رہے ہیں یا اپنے اپنے مفاد کی ڈفلی بجا رہے ہیں؟-
اتنے بڑے سانحے کے بعد ہم اردو والوں کا کیا یہ فرض نہیں بنتا کہ ان کے لواحقین کی مزاج پرسی کریں؟مجرم کیوں اب تک قانون کی گرفت سے آزاد ہے اس بابت سسٹم سے سوال کریں؟اردو کے کسی شاعر یاادیب کے لیے برے وقتوں میں اگر ہم ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے تو پھر ہمیں کوئی یہ بتلائے کہ اردو کے نام پر چلنے والی نام نہاد تنظیموں کے قیام کا مقصد کیا ہے؟