وسائل کے باوجود اتراکھنڈ کی ترقی کیوں نہیں ہورہی؟

0
0

 

 

 

منجودھپولا
کپکوٹ، اتراکھنڈ

کسی بھی ملک یا ریاست کی ترقی کا انحصار بہت حد تک اس کے وسائل پر بھی ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ آمدنی کا بڑا ذریعہ بنتا ہے اور دوسری طرف شہریوں کی زندگیوں کو آسان بھی بناتا ہے۔ اس کے بغیر ترقی کا تصور نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی ایسی ریاستیں ہیں جنہیں قدرت نے بھرپور طریقہ سے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن کئی بار اس کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے نہ صرف شہری اس کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں بلکہ ریاست ترقی میں بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری ریاستیں اور شہر آگے بڑھتے ہیں۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ بھی اس ریاست میں شامل ہے جسے قدرت نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ریاست اور اس کے دیہی علاقے اس سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس سے لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ریاست کے دیہی علاقوں کی ترقی ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے دیہی علاقے ترقی میں صرف اس لیے پیچھے رہ گئے کہ ان وسائل کو استعمال کرتے ہوئے شہر ترقی کر رہے ہیں۔ ریاست میں آمدنی کا بڑا ذریعہ ہونے کے باوجود دیہاتیوں کو روزگار کے لیے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف ان وسائل کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے اب یہ محدود مقدار میں رہ گئے ہیں۔ اگر وسائل کی تیزی سے نقل مکانی کو نہ روکا گیا تو اتراکھنڈ اور خاص کر اس کے دیہی علاقوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ انسانی توقعات لامحدود ہیں، لیکن قدرتی وسائل کی مقدار محدود ہے۔

قدرت کی گود میں واقع اتراکھنڈ کے کئی اضلاع میں جڑی بوٹیاں اور دواؤں کے پودے وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے باگیشور ضلع کے کپکوٹ بلاک پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔جہاں واقع پہاڑوں میں لامحدود مقدار میںجڑی بوٹیاں اور دواؤں کے پودے اگتے ہیں ۔ جن کا استعمال ادویات بنانے میں کیا جاتا ہے۔ ایسی کئی جڑی بوٹیاں ہیں جو لاعلاج بیماریوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ خود گاؤں والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی اہمیت سے ناواقف ہے۔ دوسری طرف ادویات بنانے والی کمپنیاں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اس سے ادویات بنا کر بھاری منافع کما رہی ہیں۔ گاؤں والے وہی دوائیں زیادہ قیمتوں پر خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے ایک مقامی بزرگ 60 سالہ پارولی دیوی کا کہنا ہے کہ پہلے یہ جڑی بوٹیاں سنگین بیماریوں کے لیے بھی استعمال ہوتی تھیں اور لوگ جلد صحت یاب ہو جاتے تھے۔ اس کے کوئی مضر اثرات نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے گاؤں میں کوئی میڈیکل اسٹور نہیں تھا۔ لیکن اب جدیدیت کے نام پر لوگ جڑی بوٹیوں کو ترک کر کے انگریزی ادویات کے محتاج ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنی صحت کے ساتھ بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کسی انگریزی دوا کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے انہیں دوسری دوائیں لینا پڑتی ہیں۔ دوسری جانب شہر کے لوگ ان جڑی بوٹیوں کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور انہیں سستے داموں میںخرید رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ جڑی بوٹیاں آہستہ آہستہ محدود ہوتی جارہی ہیں۔دوسری طرف زراعت اور معدنی وسائل کے معاملے میں بھی ریاست کے دیہی علاقوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں مل رہا ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق، اس وقت اتراکھنڈ کی تخمینہ شدہ آبادی ایک کروڑ 17 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں مردوں کی آبادی 59 لاکھ 60 ہزار سے زائد ہے جبکہ خواتین کی آبادی کا تخمینہ 57 لاکھ 39 ہزار سے زائد ہے۔ جبکہ اس کا جغرافیائی رقبہ تقریباً 59,226 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں 37,999 مربع کلومیٹر جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ جو کل مربع کلومیٹر کا 63.41 فیصد بنتا ہے۔ اس وقت کل 6.98 لاکھ ہیکٹر اراضی پر زرعی کام کیا جاتا ہے جو کہ کل رقبہ کا صرف 11.65 فیصد ہے۔ جبکہ ریاست کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ لیکن مسلسل موسمیاتی تبدیلی نے اتراکھنڈ کے زرعی کام کو بہت متاثر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی کم ہوئی ہے اور نئی نسل اس سے منہ موڑ رہی ہے اور روزگار کے دوسرے ذرائع کی تلاش میں دہلی، ممبئی، امرتسر، نینیتال اور دہرادون جیسے شہروں کی طرف ہجرت کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں کئی دور دراز گاؤں ایسے ہیں جہاں نقل مکانی کی وجہ سے نوجوانوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔اس علاقے میں زراعت کے علاوہ میگنیسائٹ اور چونا پتھر معدنی وسائل کے طور پر پیدا ہوتا ہے جسے مقامی زبان میں کھڈیا کہا جاتا ہے۔ یہ بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اسے نکالنے کے لیے پہاڑوں کو بے دریغ کاٹا جا رہا ہے اور درختوں کی اندھا دھند کاٹائی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ریاست میں ماحولیاتی عدم توازن کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے زرعی کام چھوڑ کر کچھ پیسوں کے لیے پہاڑوں کی کھدائی شروع کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے اتراکھنڈ کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے کپکوٹ بلاک کے ایک گاؤں کے 75 سالہ بزرگ منموہن رام کا کہنا ہے کہ زراعت میں ہونے والے نقصانات ، معاشی بحران اور روزگار کی کمی کی وجہ سے گاؤں کے لوگ پہاڑوں کو لامحدود کھود کراس سے نکلنے والے وسائل کوکم قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاک کی اصل قیمت معلوم ہے لیکن پیسے کی خاطر ہم اسے کم قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ روزگار کے لیے شہروں کی طرف بھی ہجرت کر رہے ہیں۔

بہرحال،ترقی کی دوڑ میں اتراکھنڈ کے مسلسل پیچھے رہنے اور وسائل کی کمی کی سب سے بڑی وجہ اس کا لامحدود استعمال اور لوگوں کی نقل مکانی ہے۔ درحقیقت قدرت وسائل پیدا کرنے میں ایک خاص وقت لیتی ہے، لیکن انسانوں کی طرف سے لالچ کے تحت کیے جانے والے کاموں کی وجہ سے اس کے بہت خطرناک انجام ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ریاستی حکومت ایسی منصوبہ بندی کرے کہ اس کے شہریوں بالخصوص اس کے دیہی علاقے کے لوگوں کو اس کے قدرتی وسائل کے استعمال کا پہلا حق ملے تاکہ نقل مکانی جیسے سنگین مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ مصنفہ سوبن سنگھ جینا یونیورسٹی، الموڑہ، اتراکھنڈمیں گریجویشن کی طالبہ ہے۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا