ریاض فردوسی۔
9968012976
جنگ میں غیر اہل قتال (بچے، بوڑھے، عورتوں، مذہبی لوگوں) کا قتل کرنا شدید گناہ ہے،یہ قرآن مجید کا حکم ہے!
اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو بیشک اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر 190)
امت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہجرت سے پہلے قتال یعنی جنگ کی ممانعت تھی۔ قول باری ہے (فان تولوا فانما علیک البلغ وعلینا الحساب)
اگر یہ منہ موڑیں تو تمہارے ذمہ صرف ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے اور ان سے حساب کتاب لینا ہمارے ذمہ ہے)اسی طرح ارشاد باری ہے (واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً) اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں تم کو سلام)؛ اللہ تعالی کا ایک اور ارشاد ہے (لست علیھم بمصیطر، آپ ان پر مسلط تو نہیں ہیں) اور (وما انت علیھم بجبار، آپ ان پر جبر کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے)؛ نیز (فاعف عنھم واصفح، انہیں معاف کردیجیے اور ان سے در گذر کیجیے) نیز (قل للذین امنوا یغفروا للذین لایرجون ایام اللہ ،جو لوگ ایمان لے آئے ہیں آپ ان سے کہہ دیجیے ان لوگوں سے درگذر کریں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے۔ عمرو بن دینار نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور ان کے چند دوستوں کا مال و متاع مکہ میں تھا۔ انہوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ ہم جب تک مشرک تھے ہمارا دبدبدہ تھا جب ہم مسلمان ہوگئے تو ہم پر ذلت اور پستی طاری ہوگئی اور ہم کمزور ہوگئے،یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا (امرت بالعفو، فلاتقا تلوا القوم، مجھے درگذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے تم ان سے جنگ نہ کرو)۔
مکہ مکرمہ میں نبی کریم ﷺ کو قتال سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کی حیثیت مکہ مکرمہ میں ایک مبلغ، داعی، منذر، مبشر، مذکر، ہادی، ناصح اور واعظ کی تھی۔ دعوت و تبلیغ کے دوران ہر رسول اس بات کو جانتے تھے کہ ان کے جو مدعویین ہیں وہ پہلے سے ایک باطل عقیدہ پر قائم ہیں، اس عقیدہ سے انہیں محبت بھی ہے اور جب داعی اپنے مدعویین کو ان کے باطل عقیدہ اور نظریہ کے خلاف اپنے عقیدہ حق کو پیش کرتے ہیں تو مدعویین اپنے عقیدہ کے مدافعت میں داعی سے بدکلامی کر بیٹھتا ہے یہاں تک کے معاندت پر بھی اتر آتا ہے۔ ایسی صورت میں داعی کے لیے اللہ تعالی کا بس ایک ہی حکم ہوتا ہے کہ وہ بس صبر کریں جب تک کہ کوئی دوسرا حکم نہیں دیا جاتا۔ مشرکین مکہ کا ظلم و ستم جب اپنی حد کو پار کر گیا یہاں تک کے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور بعد میں خود نبی کریم ﷺ اور انکے ساتھیوں کو بھی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنی پڑی ،تب حضور ﷺ کو مشرکین مکہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا۔کفار سے قتال کرنے کا حکم لے کر کون سی آیت پہلے نازل ہوئی اس کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔
ربیع بن انسؓ وغیرہ سے مروی ہے کہ (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ،اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ سورہ البقرہ۔, 190۔ایک دوسرے گروہ سے جس میں حضرت ابوبکر صدیق، زہری اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں یہ مروی ہے کہ قتال کے متعلق پہلی آیت (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا، اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے انہیں جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس لئے کہ ان پر بہت ظلم ہوچکا سورہ الحج:39)۔
بہرکیف جب حضور ﷺ کو قتال کا حکم دیا گیا تو آپ ﷺ کو جنگ کے آداب و اخلاقی اصول بھی بتایے گئے۔ پہلا حکم یہ دیا گیا کہ مسلمان ان لوگوں سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ پر قتال کے لیے آویں (سورہ البقرہ, 192)۔ اس طرح جنگ کی نوعیت دفاعی جنگ ہوئی۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ جنگ میں کسی پر زیادتی نہ کی جائے کیونکہ اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(سورہ البقرہ، آیت 190)۔
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ عورتیں، بچے، بوڑھے، مذہبی لوگ عبادت گذار راہب، پادری وغیرہ اور ایسے ہی اپاہج ومعذور لوگ یا وہ لوگ جو کافروں کے یہاں محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے ایسے لوگوں کو جہاد میں قتل کرنا جائز نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنگ کے دوران اہل قتال (Combatants) اور غیر ایل قتال (Non Combatants) کے مابین امتیاز رکھنا ہوگا، غیر اہل قتال جنگ سے مستشنٰی رہیں گے۔ قرآن کے اس حکم کو ساری دنیا اصول میں تسلیم کرتی ہے۔
رسول ﷺ کی ہدایات جو مجاہدین اسلام کو بوقت جہاد دی جاتی تھیں ان میں اس حکم کی واضح تشریحات مذکور ہیں صحیح بخاری ومسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک حدیث میں ہے،
نھی رسولﷺ عن قتل النسآء والصبیان، یعنی رسول ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی جنگ میں عورت کو مقتولہ دیکھا تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ابوداؤد میں بروایت انسؓ جہاد پر جانے والے صحابہ کو رسول اللہﷺ کی یہ ہدایات منقول ہیں تم اللہ کے نام پر اور رسول اللہ کی ملت پر جہاد کے لئے جاؤ کسی بوڑھے ضعیف کو اور چھوٹے بچے کو یا کسی عورت کو قتل نہ کرو۔ حضرت صدیق اکبر ؓنے جب یزید بن ابی سفیان کو ملک شام بھیجا تو ان کو یہی ہدایت دی اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبادت گذار اور راہبوں کو اور کافروں کی مزدوری کرنے والوں کو بھی قتل نہ کریں جبکہ وہ قتال میں حصہ نہ لیں۔ اسی طرح میدان جنگ میں دشمن کے ناک کان وغیرہ اعضاء کاٹنے، لاش کو مثلہ کرنے سے بھی منع فرمایا۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ایک بار جب جنگ شروع ہو جائے تو اہل قتال کو جہاں پاو انہیں قتل کر ڈالو؛ قریش مکہ نے صحابہ کرام پر ظلم و ستم کیا تھا اور وہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کو انہی کے آبائی وطن مکہ سے نکالا تھا اس لیے صحابہ کرام کو حکم ہوا کہ جس طرح قریش نے تم لوگوں کو سرزمین مکہ سے نکالا تھا تم بھی ان کو مکہ مکرمہ سے باہر نکالو۔(اور مارڈالو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا سورہ البقرہ، 191)
جنگ کے دوران بعض علاقے (ہسپتال، تعلیمی ادارے، عبادت گاہیں وغیرہ) ایسے ہوتے ہیں جہاں جنگ کرنا ممنوع ہوتا ہے ایسے علاقے کو انگریزی میں No war zone کہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ مسجد حرام کے احاطے میں جنگ نہیں کی جائے یعنی مسجد حرام کو No war zone اعلان کیا گیا لیکن اگر قریش اس مسجد حرام میں بھی اپنی طرف سے قتال شروع کرے تو تم لوگوں کو بھی اجازت ہے کہ ان سے وہاں مقابلہ کرو۔ (اور نہ لڑو ان سے مسجد الحرام کے پاس جب تک کہ وہ نہ لڑیں تم سے اس جگہ پھر اگر وہ خود ہی لڑیں تم سے تو ان کو مارو یہی ہے سزا کافروں کی(سورہ البقرہ191)
مسجد حرام کے تقدس کے متعلق رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: یہ وہ شہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے حرام فرمایا جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک حرام (حرمت والا) ہے اس میں کسی لے لئے مجھ سے پہلے قتال حلال نہ تھا اور میرے لئے صرف دن کی ایک گھڑی حلال کیا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حرمت سے قیامت تک کے لئے حرام ہے۔اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول ﷺ کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں۔
اس کے بعد یہ حکم ہوتا ہے کہ ”اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہیئے” (سورہ البقرہ، 193)۔ اس آیت میں قتال کے دو مقاصد بیان کیے گئے ہیں ایک فتنہ کا خاتمہ اور دوسرا دین کا غلبہ، حضور ﷺ اور صحابہ کرام کو حکم ہوا کہ قریش سے جنگ اس وقت تک جاری رکھنا ہے، جب تک کہ وہ شرک اور کفر سے توبہ نہ کر لیں یعنی اسلام قبول کر لیں اور پورے سرزمین عرب میں اسلام کا غلبہ نہ ہو جائے۔ بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت و غیرت قومی سے لڑتا ہے، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے، جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا یہ کہ میں لوگوں سے جنگ کروں حتیٰ کہ وہ کہیں لآ الٰہ الا اللہ۔ یہ آیت اور حدیث دلالت کرتی ہیں کہ قتال کا سبب کفر ہے کیونکہ فرمایا: حتی لاتکون فتنۃ (حتیٰ کہ فتنہ نہ رہے) یعنی کفر نہ رہے۔ یہاں فتنہ سے مراد شرک اور وہ تمام چیزیں ہیں جو مسلمانوں کی اذیت کا باعث تھیں۔
آخری حکم یہ ہوا کہ اگر مشرکین مکہ اپنے شرک و کفر سے باز آجائے اور اسلام قبول کر لیں اور جنگ بند کر دیں تو ان سے بھی جنگ نہیں کی جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی ان کے گزشتہ کفر کو بخش دے گا اور مغفرت کے علاوہ بیشمار نعمتیں عطا کرے گا۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرزمین عرب میں حضور ﷺ اور صحابہ کرام نے مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے خلاف جو جنگیں لڑی تھیں اس کا واحد مقصد دین اسلام کو قائم کرنا تھا تاکہ وہاں نہ شرک رہے نہ یہودیت رہے اور نہ ہی عیسایت رہے۔ یہ جنگیں خاص تھی۔ یہ جنگیں عام جنگوں کی طرح کسی ملک کے قدرتی وسائل پر قابض ہونے یا کسی ارض خطہ کو چھیننے یا سلطنت کی توسیع کے لیے نہیں لڑی گئی تھیں۔جو جنگ کے تاجر (War Mongers) ہوتے ہیں انہیں اس بات کا غم نہیں ہوتا کہ جنگ میں ان کے اپنے کتنے لوگ مارے گئے یا مارے جائے گیں،بلکہ انہیں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ دشمن کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ہم نے تقریروں میں علماء سے متعدد بار لوگوں کے اندر جذبہ جہاد کا شوق بڑھانے کے لیے جنگ بدر کا حوالہ دیتے ہوئے سنا ہے لیکن مقام حدیبیہ میں قریش کے ساتھ جنگ کو مؤخر یا ملتوی کرنے کے لیے علماء سے اسکی وجہ نہیں سنی حالانکہ قریش کو جنگ بدر، جنگ احد (ابتدائی مرحلہ میں) جنگ خندق میں حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں شکست ہو چکی تھی اور جنگ بدر میں تو صحابہ کو نفسیاتی جیت بھی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن حکمت کے تحت مقام حدیبیہ میں نبی کریم ﷺ کو قریش کے ساتھ صلح کرنی پڑی حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر اس وقت جنگ ہوتی تو قریش بھاگ جاتے۔ ترجمہ: اور اگر لڑتے تم سے کافر تو پھیرتے پیٹھ پھر نہ پاتے کوئی حمایتی اور نہ مددگار(سورۃ الفتح، آیت نمبر 22)
لیکن اللہ تعالی نے قریش کے ساتھ جنگ کو اس وجہ سے ملتوی رکھا کہ اس وقت مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان مرد اور عورتیں کفار کے ڈر سے ایمان چھپا ئے ہوئے تھے لیکن صحابہ کرام کو اس بات کا علم نہ تھا اور اگر جنگ ہوتی تو اندیشہ تھا کہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان قتل ہو جاتے اور بالفرض اگر ایسا ہوتا تو کفار مسلمانوں کو عار دلاتے کے مسلمان اپنے ہی ہاتھوں سے مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں۔
ترجمہ: اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم ان کو پامال کر دیتے تو تم کو ان کی طرف سے بیخبری میں نقصان پہنچ جاتا۔(سورۃ الفتح، آیت نمبر25)۔
ایک امکانی جیت کے باوجود صرف چند مسلمانوں کی جان مال کی حفاظت کرنے کے لیے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ قریش کے ساتھ جنگ کی بجائے صلح کی جائے، لیکن جدید دور میں جو مجاہدین ہیں وہ صرف جنگ کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، وہ صلح، معاہدہ، التوا جنگ کو ایمان کی کمزوری اور بزدلی سمجھتے ہیں،تاریخ اسلام میں مسلمانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ کئی مرتبہ پانچ اور دس سالوں تک کے لیے التاوا جنگ کا معاہدہ کیا ہے۔