ڈاکٹر برج پریمی کی 29 ویں برسی ’’پر لازوال‘‘ کا خراج عقیدت

0
118
ایک شمارہ کشمیر کے مایہ ناز اور ممتاز ادیب، منٹو شناس و کشمیر شناس برج پریمی کے نام
غلام نبی کمار
اداریہ
’’وہ جنھیں ہم فراموش کر بیٹھے ہیں‘‘
آج ہی کے دن مورخہ 20 اپریل1990 کو جموں و کشمیر کی ایک معروف شخصیت،نامور ادیب، ممتاز محقق و ناقد،مقبول افسانہ نگار، مترجم ڈاکٹر برج پریمی اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے تھے۔حقیقتاً آج کے دن کا ذکر سنہرے حروف میں کیا جانا چاہیے۔اس دن وہ ممتاز اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت ہم سے بچھڑ گئی جس کی تلافی ناممکن ہے۔وہ اہم اور ناقابلِ فراموش کارنامے جو برج پریمی نے انجام دیے ہیں،اب تاریخ کا ایک اہم حصہ بن گئے ہیں۔جب جب اور جہاں جہاںجموں و کشمیر کے اردو قلم کاروں، ادیبوں، صحافیوں اور اردو اساتذہ کا ذکر آئے گا ،برج پریمی کانام نامی سرفہرست ہوگا اور جب جب منٹو شناسی ، کشمیر اور کشمیریت کی بات چھیڑی جائے گی ،بغیر برج پریمی کا حوالہ دیے بات نامکمل اور تحقیق ادھوری کہلائے گی۔برج پریمی1935 میں پیدا ہوئے۔کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔لیکن بعد میں کشمیر کے نامسائد حالات کے سبب انھیں ہجرت کا دُکھ جھیلنا پڑا۔شاید اسی کرب نے انھیں ہم سے1990 میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ کر دیا۔وہ آج اگر چہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کایادگار تخلیقی،تحقیقی اورتنقیدی سرمایہ آج بھی موضوعِ بحث بن رہا ہے۔ان پر ریسرچ کیا جا رہا ہے اور وہ سرمایہ جو برج پریمی اپنی زندگی میں شائع نہیں کر پائے تھے ،کی اشاعت عمل میں لائی جا رہی ہے جس کے لیے ہمیں ان کے ہونہار،لائق و فائق صالح فرزندڈاکٹر پریمی رومانی کا ممنون و مشکور ہونا چاہیے،جنھوں نے اپنے والد کی غیر مطبوعہ تحریروں کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اسے سنبھالے رکھا نیز شائع کرکے اسے لوگوں تک پہنچایا ۔اپنے والدِ محترم کے کارناموں کو ادبی دنیا سے متعارف کرانے میں جو کردار پریمی رومانی نے ادا کیا ہے،اس سے بڑھ کر ایک بیٹے کی اپنے والد کے تئیں عقیدت اور احترام کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
برج پریمی کا شمار جموں و کشمیر کے معتبر ادیبوں اور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی مختلف موضوعات پر ایک درج سے زائد تصنیفات شائع ہوئی ہیں۔جن میں ’’حرفِ جستجو‘‘، ’’جلوۂ صد رنگ‘‘،’’کشمیر کے مضامین‘‘، ’’سعادت حسن منٹو: حیات اور کارنامے‘‘، ’’ذوقِ نظر‘‘، ’’جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما‘‘، ’’چند تحریریں‘‘، ’’منٹو کتھا‘‘، ’’مباحث‘‘، ’’پری ناتھ :عہد شخص اور فنکار‘‘وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’سپنوں کی شام‘‘ کے نام سے ان کے انتقال سے کچھ برس قبل شائع ہوا تھا۔برج پریمی نے جموں و کشمیر میں تحقیق و تنقید کی نشو و نما میں ایک اہم فریضہ انجام دیا۔منٹو پر ان کا تحقیقی مقالہ’’ سعادت حسن منٹو :حیات اور کارنامے‘‘ اردو تحقیق و تنقید اور منٹو شناسی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس تحقیقی مقالے نے برج پریمی کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا۔اردو میں یہی تحقیقی مقالہ برج پریمی کو زندہ رکھنے کے لیے کافی تھاجس کا اعتراف اردو کی تمام معروف اور قد آورہستیوں نے کیا ہے۔اس مقالے کی تکمیل اور منٹو کے حال و احوال جاننے کے لیے موصوف نے پاکستان کا بھی سفر کیا اور نادر و نایاب معلومات فراہم کی جس کی وجہ ان کا مقالہ معلومات کا خزینہ بن کر سامنے آیا،شاید اسی لیے اس مقالے کو انسائیکلوپیڈیا کا نام دیا گیا۔برج پریمی نے کئی ہفت روزہ اور رسائل و جرائد کے ادارتی فرائض انجام دیے۔جن میںہفت روزہ ’’دیش‘‘،شعبہ اردو کشمیر یونی وروسٹی کا رسالہ’’آگہی‘‘،اسی شعبے کا سالنامہ’’بازیافت‘‘،اوررسالہ’’سہیل‘‘کلکتہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
برج پریمی نے پہلے ایک استاد کی حیثیت سے خدمات انجام د یں۔ آخر پر شعبۂ اردو کشمیر یونی ورسٹی سے وابستہ ہوئے تھے جہاں وہ بطورِ ریڈر فرائض انجام دیتے رہے۔برج پریمی نے اردو اور کشمیری زبان پر کامل عبور تھا اور دونوں قابلِ ذکر زبانوں میں ان کی تصانیف بھی شائع ہوئیں۔ برج پریمی کے دوستوں کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا ان کے چند اہم دوستوں میں غلام رسول نازکی، رحمن راہی،فراق، دینا ناتھ نادم، امین کامل، سوم ناتھ زتشی، اختر محی الدین، احمد شمیم وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ یوں توبرج پریمی کا حلقۂ ادب لامحدود تھا لیکن یہاں پر سب کے نام لینا ممکن نہیں۔
اس بات کا ہمیں بہت افسوس ہے جو کسی المیے سے کم بھی نہیں کہ برج پریمی کی اس قدر پذیرائی اور ان کی خدمات کو اس حد تک یاد نہیں کیا گیا جس حدتک کیا جانا چاہیے تھا۔اگرچہ جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے۔تاہم ریاست کے کسی صوبے میں موصوف پر کوئی سیمینار منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ہمیں اس بات کی بھی شکایت ہے کہ کلچرل اکادمی سے ماہ نامہ ’’شیرازہ ‘‘کے  تاحال زندہ شخصیات پر کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے اور فی الوقت ہورہے ہیں کیا برج پریمی پرخصوصی شمارہ شائع کرنا اُن کا حق نہیں بنتا تھا؟۔بہرحال روزنامہ’’لازوال‘‘نے اس کمی کو محسوس کیا اوراس ہفتے کا ادب نامہ موصوف کے نام معنون اور ان کی 29 ویں برسی پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ہم پُر امید ہیں کہ آپ ہمارے اس فیصلے کا خیرمقدم کریں گے اور ہماری اس کوشش کو سراہیں گے۔ہم اس کام کو آئندہ بھی جاری رکھیں گے اور وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خصوصی شمارے شائع کرتے رہیں۔اس میں آپ سب کا قلمی تعاون ضروری ہے۔ہم ان سب کے بھی ممنون ہیں جنھوں نے اس شمارے کے لیے قلمی تعاون کیا اوربرج پریمی پر خصوصی شمارے کو یقینی بنایا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا