ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پارلیمانی سیاست میں خواتین کی حصہ داری بڑھانے کا سوال 45 سال پہلے 1974 میں اٹھایا گیا تھا۔ گھونگھٹ کے نیچے پردے کے پیچھے رہنے والی خواتین کو جب گرام پنچایتوں میں ریزرویشن ملا تو انہوں نے گاؤں کی سب سے اہم انتظامی اکائی میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ حالانکہ یہ کہا گیا کہ خواتین تو برائے نام گرام پردھان، ممبر پنچایت اور سبھا سد ہوتی ییں اصل میں تو ان کے شوہر کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ پوری سچائی نہیں ہے، خواتین نے اپنی سوجھ بوجھ سے گاؤں کی کایا پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر خواتین کو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ابھی تک ریزرویشن نہیں مل سکا۔ پہلی مرتبہ دیوگوڈا کی قیادت والی یونائٹڈ فرنٹ حکومت نے پارلیمنٹ میں خواتین ریزرویشن بل پیش کیا تھا۔ اس کے بعد سے دس مرتبہ یہ بل پیش ہو چکا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی بہانے اسے التواع میں ڈالا جاتا رہا۔ 2010 میں یوپی اے حکومت نے راجیہ سبھا میں تو خواتین ریزرویشن بل پاس کرا لیا لیکن وہ لوک سبھا میں پاس کرانے میں ناکام رہی۔ ہندی پٹی کی پارٹیوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ اس وقت سرد یادو نے کہا تھا کہ اس کا فائدہ پر کٹی خواتین کو ہوگا۔ ابھی تک ملک کی پارلیمنٹ میں اتنے لمبے عرصہ تک کوئی بل اٹکا نہیں رہا جتنا خواتین ریزرویشن بل۔
بی جے پی 19 ستمبر 2023 کو پارلیمانی سیاست کا ایک تاریخی دن بتا رہی ہے۔ وہ اس بل کے ذریعہ وزیراعظم نریندر مودی کو ناری شکتی کا سرخیل دکھانا چاہتی ہے۔ پھر بھلے ہی انہوں نے باہوبلی برج بھوشن سنگھ پر خواتین پہلوانوں کے جنسی استحصال کے سنگین الزامات، ہاتھرس اور منی پور میں خواتین کے خلاف ہو رہے تشدد کے واقعات پر چپی ہی کیوں نہیں سادھے رکھی ہو۔
بی جے پی بہت پہلے سے خواتین ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اْجلا اسکیم، جن دھن کھاتے، بیت الخلا اور تین طلاق جیسے حکومت کے اقدامات کا رخ خواتین کی طرف رہا ہے۔ کرناٹک الیکشن میں کانگریس کے اور پنجاب میں عآپ کا خواتیں کو نقد فائدہ پہچانے کے اعلان سے متاثر ہو کر ہی مدھیہ پردیش میں بی جے پی خواتین کو نقد فائدہ پہچانے کی اسکیموں کا اعلان کر رہی ہے۔ حالانکہ اس نے گجرات الیکشن کے وقت مفت کی ریوڑیوں پر سخت اعتراض کیا تھا۔ 2014 کے بعد سے کوئی بھی ریاستی انتخاب ایسا نہیں گزرا جس میں بی جے پی نے لیپ ٹاپ، ٹیب، موبائیل، اسکوٹی، گیس سلنڈر وغیرہ مفت دینے کا وعدہ نہ کیا ہو۔ دراصل خواتین ووٹر 1952 میں صرف 46 فیصد تھے۔ جو 2019 میں بڑھ کر 67 فیصد ہو گئے۔ یہ انڈیا کی سیاست میں سب سے بڑا اعدادی شفٹ ہے۔ 2024 کے پیش نظر ایک طرف اسے دھیان میں رکھا گیا وہیں دوسری طرف انڈیا الائنس کی ممبء میٹنگ میں اڈانی کے مسئلہ سے بی جے پی پریشان ہو گئی۔ اڈانی کی طرف سے دھیان ہٹانے اور خواتین ووٹروں کو سادھنے کے لئے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین ریزرویشن بل لایا گیا۔
ٹی ایم سی اور بیجو جنتادل کو چھوڑ کر کسی بھی پارٹی نے خواتین کو حصہ داری دینے کے معاملہ میں سنجیدگی نہیں دکھائی ہے۔ بی جے پی کی بات کی جائے تو پچھلے سال ہوئے گجرات انتخابات میں اسمبلی کی 182 سیٹوں میں سے صرف 18 پر خواتین کو ٹکٹ دیا تھا۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کی بیٹی خود کو خواتین ریزرویشن کی اگوا کے کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن بی آر ایس نے تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لئے 115 امیدواروں کی جو لسٹ جاری کی ہے ان میں صرف 7 خواتین کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ رہی کانگریس تو اس نے یوپی الیکشن کی کمان پرینکا گاندھی کو سونپی تھی۔ ان کا نعرہ تھا "لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں” 40 فیصد ٹکٹ خواتین کے لئے ریزرو کئے تھے۔ لیکن کرناٹکٹ اسمبلی کی 224 سیٹوں میں سے صرف 11 پر خواتین کو اتارا تھا۔ ان جماعتوں کے برخلاف بیجو جنتادل نے 2019 میں اڑیسہ کی 21 پارلیمانی سیٹوں میں سے ایک تہائی پر خواتین کو امیدوار بنا کر 33 فیصد کا ہدف حاصل کیا تھا۔ وہیں ٹی ایم سی نے مغربی بنگال کی 42 سیٹوں میں سے 17 پر خواتین امیدواروں کو اتارا تھا۔ اس کی کارکردگی بیجو جنتا دل سے بھی بہتر رہی تھی۔ 2021 کے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں 294 سیٹوں میں سے 50 پر خوتین کو ٹکٹ دیا تھا۔ شاید ممتا بنرجی اکیلی وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے اس معاملہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انڈیا کی پارلیمانی سیاست میں خواتین کی حصہ داری پڑوسی ملک پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ 198 ممالک کی فہرست میں خواتین کی پارلیمانی حصہ داری کے معاملہ میں انڈیا 148 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ پاکستان 116 ویں اور بنگلہ دیش 111 ویں مقام پر۔ ہمارے یہاں خواتین کی حصہ داری 13-14 فیصد سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے۔ صنفی مساوات اور لیبر فورس کے معاملہ میں بھی بھارت بہت پیچھے ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن 2023 کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں روزگار کے لائق صنف کا فرق 50 فیصد تک چلا گیا ہے۔ جس میں لیبر فرس میں کام کر رہے 70.1 فیصد مردوں کے مقابلہ 19.2 فیصد خواتین ہیں۔ پھر مردوں کے مقابلہ مزدوری میں بھی خواتین کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔موجودہ بل تو پارلیمنٹ میں پاس ہو گیا لیکن اس پر عمل درآمد ہونا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ ریزرویشن بل کے ساتھ حکومت نے خواتین کی مردم شماری کرانے اور انتخابی حلقوں کی دوبارہ حد بندی کرنے کی شرط جوڑ دی ہے۔ اسی کے ساتھ او بی سی اور مسلم خواتین کو ریزرویشن سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ راہل گاندھی نے بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "مرکزی حکومت کے 90 سکریٹریوں میں ست محض 3 او بی سی سماج سے ہیں”۔ ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا کا کہنا ہے۔ ملک میں سیاسی حصہ داری کے معاملہ میں او بی سی اور مسلم خواتین کی حالت سب سے خراب ہے۔ 1952 سے 2004 تک صرف 8 مسلم خواتین منتخب ہو کر لوک سبھا آئی ہیں۔ اس وقت جو دو مسلم خواتین ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ وہ ٹی ایم سی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ پہنچی ہیں۔ انڈونیشیائ کے بعد سب سے زیادہ مسلمان انڈیا میں رہتے ہیں۔ برسراقتدار بی جے پی کا ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ میں نہیں ہے۔ اب خواتین بل سے بھی مسلم خواتین کو الگ رکھا گیا ہے۔ رہا سوال پارلیمنٹ کی سیٹوں میں اضافہ کا تو اس وقت جو بات سامنے آرہی ہے اس کے مطابق تمل ناڈو کی 26 فیصد، آندھرا 37 فیصد، اڑیسہ 33 فیصد، راجستھان 100 فیصد، بہار 90 فیصد لیکن کرالہ کی سیٹوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ پر شمالی ہند کی بالا دستی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخابی حلقوں کی حد بندی اور سیٹوں کے اضافہ کو پورا ملک مان لے گا؟
بی جے پی کا خیمہ خواتین ریزرویشن بل کو گیم چینجر کے طور پر دیکھ رہا ہے لیکن اپوزیشن نے ذات پر مبنی مردم شماری اور او بی سی ریزرویشن کا مدعا اٹھا کر اس کی سیاسی بساط کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے۔ اس کی کاٹ کے لئے بھگوا خیمہ نئے سرے سے غور و فکر کر رہا ہے۔ وہیں کانگریس اپنی حکومت آنے پر ذات پر مبنی مردم شماری کرانے اور او بی سی کی حصہ داری کو یقینی بنانے کا وعدہ کر رہی ہے۔ اس نے بی جے پی کی حکومت پر او بی سی طبقہ کو نظرانداز کرنے کا الزام مڑھ دیا ہے۔ وہیں مہوا موئترا کا کہنا ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں گرام پنچایتوں کی طرز پر ریزرویشن دیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے اگر حکومت خواتین کی سیاسی حصہ داری کے معاملہ میں سنجیدہ ہے تو موھودہ ووٹر لسٹ کو بنیاد بنا کر ریزرویشن دیا جا سکتا ہے۔ جو بھی ہو لیکن اگر لوک سبھا میں 181 خواتین ہوں گی تو نہ صرف پارلمنٹ کا مزاج بدلے گا بلکہ ملک کی سیاست اور اس کا کردار بھی بدل جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے لئے کتنا انتظار کرنا ہوگا۔
٭٭٭