مدثراحمدشیموگہ کرناٹک
9986437327
ریاست کے مختلف مقامات پر میلاد النبیﷺ منایاگیا،ریاست کے بعض علاقوں میں جہاں میلاد کو نبی کریم کی پیدائش کی خوشی کے طورپر منایاگیاتو کہیںمیلاد کے نام پر مذاق کیاگیا۔ ان تما م باتوں سے نتیجہ تو اخذ کیاجاسکتاہے کہ مسلمانوں کی مذہبی قیادت ناکام ہوئی ہے اور اس مذہبی قیادت کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔جلوس کے نام پر مسلم نوجوانوں کا بڑا طبقہ میلادالنبی کے حقیقی معنوں کو ہی نہیں جان سکاہے ،کرناٹک کے مختلف مقامات پر میلادالنبی کی سجاوٹ کے دوران کہیں ٹیپوسلطان کا کٹ ائوٹ نظرایاتو کہیں اورنگ زیب کا کٹ ائوٹ دکھائی دے رہاتھا،اس کے علاوہ ذوالفقارکی تلوار کے نمونے سجائے گئے تو کہیں توپ خانوں کو ہی سجاوٹ کا حصہ بنایاگیاتھا۔کہیں غیر مسلم لوگوں کا یہ سوال رہاہے کہ کیاٹیپو اپ کے پیغمبرہیں؟تو کئی غیر مسلم یہ سوال رہاہے کہ کیاٹیپوسلطان کاتعلق حضرت محمدمصطفیٰ سے ہے؟۔بعض نے یہ پوچھاکہ ٹیپوسلطان اور میلاد سے کیا تعلق ہے؟۔یقیناً ٹیپوسلطان مسلمانوں کے عظیم حکمران ہیں،ان کا مرتبہ الگ ہے اور نبی کریم کا مرتبہ الگ ہے۔لیکن میلادکے موقع پر جس طرح سے ٹیپوسلطان کے کٹ ائوٹ لگانا،فلکس لگانا،ٹیپوسلطان کے اقوال کو ڈی جے پر چلانا،ٹیپوسلطان سیریل کی میوزک پر نوجوانوں کا ناچنایہ سب نہ صرف ٹیپوسلطان کی توہین ہے بلکہ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ کی امدکے نام پر منائے جانیوالے میلاد النبی کی بھی توہین ہے۔کچھ عرصہ قبل میلاد کاجلوس پورے اطمینان کے ساتھ درودوسلام پیش کرتے ہوئے نکالاجاتاتھا،لیکن اب شائدہی نوجوانوں کی زبان پر درود کا ایک لفظ نکلتا ہو،نکلے گا بھی کیسے ؟،کئی نوجوان تو نشے میں دْھت ہوکر جلوس میں ناچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اخر مسلمان کس نہج پر میلاد منارہے ہیں اس کا اندازہ نہیں ہورہاہے۔میلاد کے نام پر جو بدتمیزیاں اور بے ضابطگیاں کی جارہی ہیں وہ افسوسناک پہلوہے۔ہوناتویہ چاہیے تھاکہ میلادکے مو قع پر نبی کریمﷺ کے پیغام کو عام کیاجاتا،ان کی احادیث کو عام کیاجاتا،ان کے حب الوطنی اور انسانیت کے پیغام کو غیروں کے سامنے پیش کیاجاتا،خیرات،امداداور نیک کاموں کے ذریعے سے نبی کریم کے طریقہ کارکو دْنیاکے سامنے پیش کیاجاتا،لیکن افسوس ایساشائدہی کوئی کررہاہے۔ملتِ اسلامیہ کی نئی نسل اج کس طرف جارہی ہے،اس کا اندازہ نہیں ہورہاہے۔جس طرح سے اب ٹیپوسلطان کا تذکرہ میلادکے موقع پر کیاجاتاہے،ممکن ہے کہ انیوالے کچھ سالوں میں نوجوان نسل یہ سمجھے گی کہ ٹیپوسلطان کی ولادت کوہی میلاد منایاجاتاہے۔ایسانہ ہو اس کیلئے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ٹیپوسلطان کو یادکرناہے تو اس کیلئے الگ موقع بنایاجائے،الگ طریقے سے ٹیپوسلطان کی شجاعت کو یادکیاجائے۔ٹیپوسلطان کے کٹ ائوٹ لگاکر میلادمنانیوالے ایک کمیٹی سے ہم نے سوال کیاکہ ٹیپوسلطان اور میلادکے درمیان کیاتعلق ہے تو اْس میں سے ایک نوجوان نے کہاکہ گنیش تہواراور شیواجی میں کیا تعلق ہے؟،یقیناً گنیش تہواراورمیلادایک نہیں ہوسکتے نہ ہی ٹیپوسلطان کا مقام اللہ کے رسول کے مقام کے برابرہے۔ایسے میں مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ میلاد کو میلادکے طورپر منائیں نہ کہ ٹیپویا کسی اور حکمران کو اس تقریب کے موقع پر لایاجائے۔انیوالے دنوں میں ایسے حالات پیدانہ ہوں اس کیلئے مسلم سماج کے ذمہ داران غوروفکرکرتے ہوئے ایک ایسا منصوبہ تیارکریں کہ نوجوانوں کو سوائے میلادکے اور کچھ منانے کا موقع نہ ملے۔کئی ایسے جلوس بھی دیکھے گئے جس میں نہ صرف ڈی جے پر نوجوان ناچتے رہے بلکہ شراب کے نشے میں دْھت ہوکروہ میلادالنبی کی حرمت کو پامال کررہیتھے۔وہیں دوسری جانب میلادکے مناظر دیکھنے کیلئے مسلم خواتیں بھی کم پیچھے نہیں تھیں،ان کیلئے یہ موقع ایک میلے سے کم نہیں تھا۔دن کونسا،اس کی شان کیاہے ،اس کی عظمت کیاہے ،اس کا تو کسی نے پاس لحاظ نہیں رکھا،بلکہ سڑکوں پر دیر رات تک ایسے گھومتی رہیں جیسے کہ وہ ایگزبیشن میں گئی ہوئی ہیں۔اکثریہ سوال اٹھتاہے کہ صحیح کہنیوالے علماء ،قلمکاریا دانشوران صحیح ہیں یا پھر سماج میں شرپھیلارہے لوگ صحیح ہیں۔یہاں کسی ایک تو غلط ہوناہی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ائے دن حق بات کو حق ماننے سے لوگ انکارکرتے ہیں اور حق کہنیوالوں پر ہی تہمتیں لگاتے ہیں۔