گورنر انتظامیہ پابندی کو وقار کا معاملہ نہ بنائیں: عمر عبداللہ
یواین آئی
سرینگرکشمیر شاہراہ پر ہفتے میں دو دن عام ٹریفک پر مسلسل پابندی کو سمجھ سے بالاتر قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ ‘میں حیران ہوں کہ نہ تو پولیس نے اس قسم کی مانگ کی ہے اور نہ ہی سی آر پی ایف اور فوج نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے، یہاں تک کہ فوج نے اس حکم نامے کو مسترد کیا ہے اور وہ پورے ہفتے اپنی کانوائے چلا رہے ہیں، اگرچہ سیکورٹی فورسز کو اس حکم نامے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے تاہم عام لوگوں کو اس کا بہت زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے، کچھ لوگوں نے اسے خوامخواہ وقار کا معاملہ بنایا ہے، میں گورنر اور اُن کی انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں کہ شاہراہ پر پابندی کو انا کا معاملہ نہ بنایا جائے،اس غیر دانشمندانہ حکم نامے کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور عوام لوگوں کو راحت پہنچائی جائے’۔ان باتوں کا اظہار عمر عبداللہ نے منگل کے روز وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے شولی پورہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر این سی معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال، ترجمانِ اعلیٰ آغا سید روح اللہ مہدی، آغا سید یوسف، شریف الدین شارق، میر سیف اللہ، تنویر صادق، ڈاکٹر سجاد اوڑی، حاجی عبدالاحد ڈار اور زاہد مغل بھی موجود تھے۔جلسہ سے خطاب کے دوران عمر عبداللہ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر چند مرکزی لیڈران پر ایک یا دو دن پابندی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو سخت کارروائی کرنی چاہئے، خصوصاً وہاں جہاں سے پیسہ کے استعمال کی شکایتیں آرہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج ایسے بھی لوگ میدان میں ہیں جن کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہے اور وہ جھوٹ اور پیسے کی بنیاد پر الیکشن لڑنے نکلے ہیں۔ ایسے لوگوں کو رد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ‘کمل کے پھول کے نشان والے ہو، قلم دوات والے ہو یا وہ جو آج کل سیب کا نشان لے کر گھوم رہے ہیں، ان تینوں جماعتوں نے گذشتہ ساڑھے 4 سال ریاست کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ یہ لوگ اپنی حکمرانی کے دوران زمینی سطح پر کیا گیا ایک بھی عوام دوست کام دکھائیں یا ایک گھر دکھائیں جو ان لوگوں نے بسایا ہو۔ ان لوگوں نے یہاں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا، جہاں پر 2014 میں ہم نے ریاست کو چھوڑا ان لوگوں نے ریاست کو آگے لے جانے کی بجائے دہائیوں پیچھے دھکیلا، اگر یہ لوگ 2014 کے حالات ہی برقرار رکھ پاتے تو بڑی بات تھی۔ اس تباہی اور بربادی سے نکلنے کے لئے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ذریعے اُن عناصر کو مسترد کریں جنہوں نے ہماری ریاست کو ہر لحاظ سے پیچھے دھکیلا’۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جن عناصر نے گذشتہ ساڑھے 4 سال ریاست میں تباہی کی وہی آج دفعہ 370 اور 35 اے کو تہس نہس کرنے کے لئے نکلے ہیں۔ 2015 میں پی ڈی پی بھاجپا حکومت کے قیام کے بعد کیسے حالات برپا ہوئے اُس سے کوئی نا آشنا نہیں۔ کس طرح ملی ٹنسی کی نئی شروعات ہوئی، کس طرح پیلٹ گنوں کے بے تحاشہ استعمال سے ہمارے نوجوان اندھے بنادیئے گئے، کس طرح کشمیری قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے، کس طرح مرکزی قوانین یہاں لاگو کئے گئے، کس طرح ہماری مسجدوں پر تالے لگائے گئے، کس طرح ہمارے درسگاہ بند کئے گئے۔ نیز اس ناپاک اتحاد کے تلے ریاستی عوام نے تباہی اور بربادی کے سوال کچھ نہیں دیکھا۔این سی نائب صدر نے کہا کہ ‘پی ڈی پی والوں نے مرکز سے 80 ہزار کروڑ پیکیج کا خوب ڈھنڈورا پیٹا، کہاں گئے وہ 80 ہزار کروڑ؟ اس حساب سے ہر ایک اسمبلی حلقے کے لئے 9 ہزار کے کام ہونے چاہئیں، 8 ہزار کی بات چھوڑیئے آپ ہمیں 8 سو کروڑ کے کام ہی دکھایئے۔ کہاں گئے وہ روزگار کے آرڈر؟ کہاں گیا وہ امن؟ کہاں گئی وہ ہندوستان اور پاکستان کی دوستی اور حریت کے ساتھ بات چیت جس کے خواب ہمیں ایجنڈا آف الائنس میں دکھائے گئے؟ کیا ہوا فوجی انخلائاور افسپا ہٹانے کے وعدوں کا؟ کیا ہوا بجلی گھر واپس لانے کے اعلان کا؟ افسوس قلم دوات جماعت لوگوں سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہ کرسکے الٹا ان وعدوں کے عین برعکس کام کیا اور ریاست کو اندھیروں میں دھکیلنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی’۔