مسلم پریشرگروپ کاقیام :وقت کا تقاضہ

0
0

حنیف ترین

1971کے بعد آج پھروطن عزیز دوراہے پرکھڑاہے ۔باشندگانِ ملک کو اس الیکشن میںیہ طے کرناہے کہ آیا اس ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم باقی رہے گی یایہ مملکت ایک ہندوریاست میں تبدیل ہوجائے گی اور پھر اُن ایجنڈوںکوزبردستی نافذ کرنے کی کوشش نئے انداز سے شروع ہوگی،جس کی جھلک موجود حکمرانِ وقت کے گد ی نشیںہوتے ہی ملک کے طول و عرض میں کبھی لوجہاد،کبھی گھر واپسی توکبھی وندے ماترم وغیرہ کے حوالہ سے اٹھنے والے شور ک درمیان دیکھنے کو ملی۔ پچھلے پانچ سالوں میں جو فرقہ پرستی کازہر گودی میڈیا کے ذریعہ لوگوں کے دماغوں میں بھرا گیا اور اقلیتوں میں خوف وہراس پھیلایاگیا، جس کے حوالہ سے اٹھنے والے سوالوںکاحکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ الٹے سوال پوچھنے والوں سے بہت سارے سوال کردیے گئے اور جوایکشن ترقی کے پرنام لیے گئے ان سے غربت، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتاگیا۔ عورتوں کے حقوق غصب کیے گئے، کسانوں کو مزید خودکشی پر آمادہ کیا گیا اورلوگوں کو ایسے ایسے نئے موضوعات میں الجھادیاگیاجن کا تعلق ملک کی تعمیر نو اورترقی سے بالکل بھی نہ تھالیکن اسے کیا کہاجائے کہ ایسے ایشوز کو ملک کے گودی میڈیا کے ذریعے ایک مشن کے طورپرپھیلایاگیا جس ک سلسلہ ہنوز جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ میڈیامیںملک کی تعمیر و ترقی کے حوالہ س باتیں نہیں کی جارہی ہیں، عوام کی بھلائی کیلئے حکومت وقت نے پچھلے پانچ سال میں کیا کچھ کیا،اس کا کوئی تجزیہ نہیں ہورہاہے ،ہرجگہ پاکستان، کشمیر، تین طلاق کا موضوع مرکزی حیثیت سے میڈیا میں جگہ پارہاہے۔پچھلے پانچ برسوں کے درمیان جس نے بھی حکومت پرانگلی اٹھائی یاسچ بولا، اس کو ملک کا غدا ر کہاگیا۔حکومت کے طریقہ¿ کارکی مخالفت کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ سیکولرزم کے علمبرداروںاورمسلمانوں کی اذیت دہی کے لیے انھیںکبھی کتے کاپلہ کہاگیا توکبھی حرام زادے اور’ رام زادے‘کا شور بھی سنا گیا۔ اب توحدہوگئی کہ ہمیں ’ہراوائرس‘ تک کہہ دیاگیا۔ مسلمانوں کو بی جے پی کوووٹ نہ دینے پر کھلے عام دھمکیاںبھی دی جارہی ہیں۔
پچھلے دنوں آسام میں شوکت علی کو بیف بیچنے کے جرم میں بی جے پی کے بھگتوں نے بے انتہا مارا پیٹا اور اسے زبردستی سور کا گوشت کھلایاجس کے دوران وہ کیچڑ میں کودگیا ورنہ اس کا قتل بھی جنید، افرازل، پہلوخان وغیرہ کی طرح کردیاجاتا تاکہ آسام میں الیکشن کے لیے سیاسی ماحول کو مزید پولرائز کیاجاسکے۔ کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ قوم اس وقت ایک بہت نازک دور سے گزر رہی ہے۔اس وقت نہ صرف ہماری مشترکہ تہذیب کوخطرہ ہے بلکہ ہمارے وجود پربھی نفرت پھیلانے والی طاقتیں سوال اٹھارہی ہیں۔ یہ بغیرسوچے سمجھے اورتصور کیے کہ ہم جرمنی میں بسنے والی مٹھی بھر یہودی قوم نہیں اور نہ ہی اسپین میں رہ کر کئی سوسال پورے یوروپ سے جنگیں لڑنے والے وہ عرب ہیں جنھیں وہاں سے نکال دیاگیا ہے۔ اس نفرت زدہ رویے کو جسے بی جے پی اور اس سے ملحق تنظیمیں پیش کررہی ہیں، اس وقت وطن عزیز میں بسنے والی اکثریت بغور دیکھ رہی ہے جو سناتن دھرمی ہےں ،بلا مبالغہ ان میں زیادہ تراہنسا وادی بھی ہیں،جوگزشتہ پانچ سالوں کی حکومتی طور طریقوںکو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ملک کے تمام بڑے اداروں کی معتبریت کوخطرے میں ڈالاگیا،کس انداز سے ان اداروںکا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیاگیا۔ملک کی جانچ ایجنسیاں ہوں، سی بی آئی ہو، الیکشن کمیشن ہو، ان کا بے جااستعمال حکومت اپوزیشن کودبانے، بدنام کرنے کے لیے لگاتار کررہی ہے۔یہ صورتحال بلاتفریق مذہب ہرکسی کی نگاہوں کے سامنے ہے۔
اب رہا ہمارے ووٹوں کاسوال کہ کبھی ہم بادشاہ گرتھے۔ آج یہ حالت ہے کہ ’پھرتے ہیں میرخوارکوئی پوچھتا نہیں‘ ہم صرف یوپی میں 20فیصد ہیں۔ اگرہم سب اس بار مل کر اپنے ووٹوں کوہراس جیتنے والے امیدوار کو دیں جوبی جے پی اور اس کے اتحادی امیدوار کو چت کرسکتا ہوتبھی ہم وطن عزیز کواس تباہی اور بربادی سے بچاسکتے ہیں، جس کا امکانی خطرہ پچھلے پانچ سالوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ ہمارادینی فریضہ بھی ہے کہ وطن سے محبت ہمارے دین اسلام کابھی حصہ ہے۔ آج تک ہمارے دین کی حفاظت ہمارے علمائے کرام کرتے آرہے ہیں۔ ان کے بغیر ہم بے منزل کے راہی بن جائیں گے مگرچند فیصدایسے بھی علماہمارے سامنے آئے ہیں جن کی زندگی کا مقصدذاتی فائدوںوالی سیاست تک محدود ہے۔یہ نام نہادعلما ءآپ کو ہرایک پارٹی میں نیتاو¿ں کے ساتھ نظر آئیں گے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی علماءکے تعلق سے کہا تھا:
’ملا کو جو ہے ہند میں سجدہ کی اجازت‘
سیاسی جماعتوں کی حاشیہ برداری کے علاوہ کچھ لوگوںنے سیاسی پارٹیاں بھی بنالی ہیں اورانہوں کچھ اورچھوٹی ونام نہاد پارٹیوں کو اپنی سیاسی ٹولی میں شامل کرلیا ہے۔ایسے لوگ سیاسی و جذباتی تقاریر کے ذریعہ تو کبھی اخباروں میں بڑے بڑے اشتہارات دے کر اسلام اور مسلمانوں کوخطرے میں بتاتے ہیں اور قوم کی مسیحائی کے دعووںکے ذریعہ ان سے ووٹ کامطالبہ کرتے ہیں۔ابھی کل کی ہی بات ہے،ایک معروف اردو روزنامہ میں مسلمانانِ ہند سے ووٹ دینے کی اپیل کچھ اس طرح سے کی گئی ہے جس میں’گھڑیالی‘ آنسوو¿ںکے ذریعہ مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کی گئی ہے۔دراصل اس قسم کی پارٹیاں اور نام نہاد سیاسی قوتیں صرف اورصرف اپنی اپیلوں سے گمراہی پھیلانے میں لگی ہیں،تاکہ بی جے پی کودھول چٹانے سے بچانے کاکام کرسکیں۔یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ کچھ فیصد ہمارے ووٹ بے کار کرکے اپوزیشن کے جیتے ہوئے امیدوار کو ہرانے کا کام کررہے ہیں لہٰذا مسلمان ان نام نہاد مسلمانوںاور مولویوں سے ہوشیار رہیں۔ اس الیکشن کے بعد اب مسلمانوں کو بیٹھ کر یہ فیصلہ بھی کرناچاہیے کہ ان کی اپنی پارٹی ہو، اگر 7فیصد یادو اکٹھے ہوکر پارٹی بناکر تین تین بار یوپی میں اپنی حکومت بناسکتے ہیں اوراپنی قوم کوآگے بڑھا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ بی ایس پی حکومت بناسکتی ہے تو20فیصد یوپی کے مسلمان اکٹھاہوکر کسی بھی پارٹی کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کی بازیابی کیوں نہیں کرسکتے۔ ان نام نہاد دانشوروں، مفکروں وغیرہ کے فریب سے اب ہمیں نکلناچاہیے جو ایک زمانے سے ہمیں دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر رہنے کامشورہ دے دے کر ہمیں یہاں تک لے آئے ہیں جہاں کسی بھی مسلم لیڈر کی سوائے اپنی ہی پارٹی میں نہ عزت ہے نہ ہی قدرومنزلت اوراہمیت۔
ہمارے پاس لیڈر اس وقت موجودہیں۔ بس انھیں ساتھ میں لانے کی ضرورت ہے۔ ساو¿تھ میں (ایم آئی ایم) کے اسدالدین اویسی، بہار میں علی احمد فاطمی اور اخترالایمان، مہاراشٹر میں ابوعاصم اعظمی، یوپی میں اعظم خاں اورکیرالہ میں مسلم لیگی قیادت اورشمال مشرق میں بدرالدین اجمل موجود رہے ہیں۔ آج ہم بالکل بے وزن ہوگئے ہیں لہٰذا حالات کا یہ تقاضا ہے کہ الیکشن کے بعد اس بات پر کھل کر بحث ہواوراگلے دوایک سال میں کوئی ایسی پارٹی یا گروپ تشکیل پائے جو2024کے الیکشن میں مسلمانوں کی درست اندازمیںرہنمائی کرسکے ۔
اب ذرایوپی میں دیکھئے 7مسلمانوں کو کانگریس نے ٹکٹ دیے جن میں میرے خیال سے سہارن پور کے عمران مسعودکے علاوہ دوسراکوئی مسلمان جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جیسے سلیم شیروانی بدایوں سے الیکشن لڑرہے ہیں جہاں 15فیصدمسلم ووٹ ہے جب کہ 30فیصد یادو ووٹ لہٰذا یہاںاگر تھوڑا سابھی مسلم ووٹ کٹتاہے توبی جے پی سیٹ نکال لے گی۔ اسی طرح مرادآباد میں جہاں گٹھ بندھن کاووٹ41فیصد ہے وہاں کانگریس نے عمران پرتاپ گڑھی کو ٹکٹ دیاہے جنھوں نے وہاں کے ووٹروں کے لیے کبھی کچھ کیاہی نہیںہے، دوسرے وہ مقامی بھی نہیںہیں۔ یعنی انھیں عام لوگ نہیں جانتے۔البتہ مرادآباد میں مسلمانوںکا تھوڑا جھکاو¿کانگریس کی جانب ضرورہے ۔اس کے علاوہ بھی جو لوگ کانگریس کے ٹکٹ پر کھڑے کیے گئے ہیں، وہ مسلم ووٹ کاٹ کر گٹھ بندھن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔دوسرے لفظوںمیں یہ امیدوار بی جے پی کوجتاسکتے ہیں۔ گویاان کا نگریسیوں کے جیتنے کے امکانات کم ہیںلیکن یہ یہ مہا گٹھ بندھن کا اتنا نقصان کر سکتے ہیںجس سے بی جے پی کا بھلا ضرور ہوسکتاہے۔ان حلقوں کی سچی تصویران چینلوں پرسامنے آنے والے عوامی رجحان سے بھی واضح ہوجاتی ،جو تھوڑی ایمانداررپورٹنگ کرتی ہیں۔ مطلب یہ کہ’گودی میڈیا‘جو چھوڑ کر باقی میڈیا کسی حد تک صحیح صورتحال کو ظاہر کررہاہے۔
آئےے اب رخ کریںدہلی کی جانب،جہاںکی سات سیٹیوںپر اتحاد کے حوالے سے بے یقینی والی کیفیت کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے،جو شاید بی جے پی کے نکلنے کے امکانات کوظاہرکرتاہے۔بہار میں بھی حالات پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہیںجہاں ایک طرف کنہیاکمار اوردوسری جانب روزنامہ ’سچ کی آواز‘ کے ایڈیٹر سیدفیصل علی میدان انتخاب میںقسمت آزمارہے ہیں۔ جن سے عام لوگوں کو بے انتہا امیدیں بھی وابستہ ہیں اور ان کا مستقبل بھی درخشاں دکھائی دیتا ہے۔ مگرآرجے ڈی نے ایک مسلمان لیڈر کوٹکٹ نہ دے کر ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے جس کی قوم و ملک کے لیے بڑی خدمات ہیں، جن کو بہار ہی میں نہیں پورے ہندوستان کی مسلم کمیونٹی نہ صرف جانتی ہے بلکہ پیار بھی کرتی ہے جنھوںنے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے بہت سے ایسے اقدام کیے اور اردو کے ادارے قائم کرنے میں مدد کی جنہیںمسلم قوم اشرف علی فاطمی کے نام سے جانتی ہے۔ ایک انٹرنیشنل شخصیت، تمام پڑھے لکھے مسلمانوں کے چہیتے، ان کا ٹکٹ کٹنے سے لالوپرسادیادو اوران کے سپوت کی عزت اب مسلمانوں میں یقینا کم ہوجائے گی اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اورہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اخترالایمان صاحب کی بہت سی کہی ہوئی باتوں پراب ہمیں یقین آنے لگا ہے۔ آئیے ملک کی جمہوریت، آئینی اداروں اورگنگا جمنی تہذیب کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے بچائیں اور اپنی خود کی پارٹی بھی آگے چل کر بنائیں، ورنہ ہماراحال اس وقت قابل رحم سے بڑھ کروہ ہوجائے گا جس کا ابھی تک ہم نے تصور تک نہیں کیاہے:
وہی لیتے ہیں زمانے سے خراج
جو ہیں آپ اپنی مدد پر قائم
¡¡
Dr. Hanif Tarin
# : 9971730422
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا