بات ان تک پہنچنی چاہئے جن کے لئے کہی

0
0

 

 ابراہیم آتش گلبرگہ کرناٹک

 زباں بھی ایک میڈیا ہے اور زباں سے نکلی ہوئی بات ایک دوسرے کو سمجھنے کا ذریعہ بنتی ہے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں نے اپنی اپنی زباں بنالی ہے اور بعد میں ان زبانوں کو تحریری شکل دی گئی لوگ زباں کے ذریعہ اور تحریر کے ذریعہ سمجھنے لگے مگر یہاں ایک شخص وہی زباں سمجھ سکتا ہے جو اس کو جانتا ہے اور تحریر کے معاملے میں بھی ویسا ہی ہے جو شخص اس زباں کی تحریر سمجھ سکتا ہے وہی پڑھ سکتا ہمارے ملک میں مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں پائی جاتی ہیںاو ر بعض ریاستوں میں ایک سے زائدزبانیں موجود ہیںحالانکہ ایک ملک ہونے کے باوجوداتنی بہت ساری زبانیں حکومت کے لئے اور عوام کے لئے بھی دشواری کا سبب بنتی ہیں اور متحدہ ملک کے لئے ہمیشہ خطرہ بنا رہتا ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک ملک ایک زباں ہی دیکھنے میں آتی ہے جیسے جاپان اگر کسی جاپانی سے پوچھیں گے,, آپ کے ملک کا نام,, تو وہ کہے گا,, جاپان,, اگر اس کو پوچھیں گے ,, آپ کی زباں,, تو وہ کہے گا,, جاپان ,, ہمارے ملک میں جب یہی سوال کریں گے تو وہ ملک کے معاملے میں تو ایک ہی جواب دے یا ہو سکتا ہے ایک سے زائد جواب بھی دے کوئی کہے گا ,,ہندوستان,, کوئی کہے گا ,, بھارت,, کوئی کہے گا,, انڈیا,, غرض لوگ اپنی اپنی پسند سے کہیں گے اور جب اس کی زباں پوچھیں گے تو کوئی کہے گا بنگالی کوئی کہے گا ملیالی کوئی کہے گا ٹمل کوئی کہے گا تلگو کوئی کہے گا ہندی اور کوئی کہے گا اردو اور کوئی کہے گا کنڑااس طرح بے شمار زبانیں ہونے کی وجہہ سے لوگ اپنی زبان کا نام لیں گے حالانکہ ملک ایک ہی ہے جب ہمارے ملک میں کوئی شخص ایک ریاست سے دوسری ریاست کا سفر کرتا ہے تواس شخص کو بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی طرح جب ملک کے وزیر اعظم کو مختلف ریاستوں کا دورہ کرناپڑتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں ان کیساتھ ایک ترجمان ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی تقریر کومقامی زباں میں ترجمعہ کرتا رہتا ہے اور ترجمعہ کے دوران اکثر دیکھا گیا جب وہ شخص ترجمعہ کرتا رہتا ہے اس وقت وزیر اعظم اس کا چہرہ تکتے رہتے ہیں جب وہ اپنی بات کہہ چکا ہوتا ہے پھر وزیر اعظم دوبارہ کہنا شروع کر دیتے ہیں میرے مضمون کا اصل مقصد اب سامنے آ رہا ہے اگر وزیر اعظم ہندی تقریر ٹمل ناڈو میں کریں گے تو سامعین اونگھنے لگ جائیں گے اور سو جائیں گے کیونکہ وہ ہندی سمجھ نہیں سکتے اس لئے,, بات ان تک پہتچنی چاہئے جن کے لئے کہی,, اس لئے ٹمل کا ترجمعہ کرنے والا شخص وہاں موجود ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہاں کے لوگ آسانی سے وزیر اعظم کی بات کو سمجھ جاتے ہیں اگر فرانس کا لیڈر ہمارے ملک میں آکر تقریر کرنے لگ جائے تو ہم سب اس کا منہ تکتے رہ جائیں گے کیونکہ ہم فرانسی زباں جانتے نہیں ہیں قرآن کے مختلف ترجمے مختلف زبانوں میں اس لئے کئے گئے کہ اللہ تعالی کی بات لوگوں تک پہنچے اور سمجھ میں آئے بعض دفعہ ایسا لگتا ہے ہم اس بنیادی اصول سے واقف نہیں ہیں ایک مثال دینا چاہوں گا کچھ دن پہلے میں ایک جماعت کے جلسے میں شرکت کرنے کا تفاق ہوا جلسہ کے آخر میں سوال جواب کا سیشن رکھا گیا تھا کچھ دیر پہلے جن صاحب کی تقریر ہوئی تھی وہ جواب دے رہے تھے ان کی تقریر کے حوالے سے میں نے پوچھا ,, آپ نے اپنی تقریر میں کہا اسلام کی غلط تصویر پیش کی جا رہی ہے اور بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے آپ کی جماعت کی جانب سے ایک رسالہ نکلتا ہے اور تمام ان لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو میرا سوال آپ سے یہ ہے,, جماعت کی جانب سے جو رسالہ نکلتا ہے وہ کس زبان میں ہوتا ہے,, تو انھوں نے جواب دیا انگریزی میں , ان کے اس جواب نے چو نکا دیا جب کہ ملک کی تقریبا آبادی مختلف ریاستی زبانیں جانتی ہے انگریزی تو بہت کم لوگ جانتے ہیںاسلام کی غلط تصویر پیش کرنے کی بات تو ہم تکے پہنچ رہی ہے مگر جو لوگ غلط تصویر پیش کر رہے ہیں اور جو لوگ اسلام کو غلط سمجھ رہے ہیں ان تک ہماری بات نہیں پہنچ رہی ہے اسلام کے متعلق غلط فہمیاںیوں ہی قائم رہیں گے اردو اخبارات میں بھی اس طرح کی غلطیاں دیکھی جاتی ہے بی جے پی اور آر یس یس کو نصیحت یا مشورہ دیا جاتا ہے سب سے پہلے تو یہ کہ اپنی قیمتی نصیحتیں اور مشورے ان کے لئے کیوں قیمتی مشورے اور نصیحتیں تو ملت کے لئے بہت ضروری ہیں کاش یہ قیمتی مشورے اورنصیحتیں ملت کو ملی ہوتیں تو آ ج ملت اس مقام پر نہیں پہنچتی آپ کی نصیحت راست اردو کے ذریعہ ہر مسلمان تک پہنچ جاتی ہے چبکہ بی جے پی اور آر یس یس تک نہیں پہنچتی اگر ان تک بات پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں انگریزی ہندی اور مقامی زبانوں سے اچھا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا کسی سیاسی جماعت کو مشورہ دینا ہے تو ہندی یا انگریزی زباں کا استعمال بہت موثر ہوگا اگر اردو میں لکھیں گے تو وہ مسلمانوں تک ہی محدود رہے گاان سیاسی پارٹیوں تک بات نہیں پہنچے گی اردو اخبارات کے ذریعہ صرف مسلمانوں تک بات پہنچتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ ان کو آپ کی نصیحت اور مشورے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ ان کے پاس مشورے دینے والے بے شمار افراد اور وہ بھی اعلی تعلیم یافتہ موجود ہیں جیسے آئی اے یس ,,آئی پی یس ,,ریٹائرڈ کیبنٹ سکریٹری فوجی آفیسرس بیوروکریٹس ان کے مشوروں سے بی جے پی کو فائدہ ہو رہا ہے اور بی جے پی کامیاب ہو رہی ہے اردو زباں کے ذریعہ مسلمانوں سے جڑے مسائل پیش کئے جا سکتے ہیں جیسے معلوماتی مضامین ,تاریخ یا اور بھی میدان ہیںوہ مسلمانوں کے سامنے رکھے جا سکتے ہیںسیاسی پارٹیوں کے بارے میں تبصرہ کیاجا سکتا ہے سیاسی پارٹیوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے ہندو توا کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے ہندو توا کو کس طرح روکا جا سکتا ہے اس پر بات ہو سکتی ہے اوقاف کی جائدادوں کی کس طرح حفاظت کی جائے اس پر بات ہو سکتی ہے یہ بہت اہم بھی ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے امت مسلمہ کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کو تحریک کی شکل دینے کے لئے کیا کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تفصیل پیش کی جاسکتی ہے مسلمانوں میں مذہب کے نام بے ہودہ رسومات کا خاتمہ کس طرح ہو اس پر لکھا جا سکتا ہے اردو اخبار کو وسیلہ بنایا جا سکتا ہے شادی بیاہ کو آسان کرنے کے لئے مہم چلانے کی ضرورت ہے اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے صحت و تندرستی کے لئے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مسلمانوں میں اردو کے ذریعہ دینی معلومات پہنچائے جا سکتے ہیں بچوں میں دینی تعلیم کے متعلق کیا کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے مسلمانوں میں اتحاد کے لئے مسلسل لکھنے کی ضرورت ہے ان تمام پر بات کی جاسکتی ہے مگر ہندو تنظیموں کو اپنی رائے اور نصیحت اردو اخبار ات سے نہ دیں کیو ں کہ وہ لوگ اردو اخبارات نہیں پڑھتے جب اخبار ہی نہیں پڑھیں گے تو بات بھی نہیں پہنچے گی ہمارے ملک میں اسلام کے متعلق جن غلط فہمیوں کو مسلمان اردو اخبارات کے ذریعہ دور کرنا چاہتے ہیںاس کے بجائے ملک کی تمام ان زبانوں کا استعمال کیا جائے جو ملک کے غیر مسلم جانتے ہیں یہ کامیاب کوشش ہو گی دعوت اسلام کے اعتبار سے دیکھا جائے تواردو کے وہ علماء مقرر اردو ریاستوں سے وابستہ ہیں بہت عمدہ تقریر کرتے ہیں اور ان کے معلومات بھی بہت وسیع ہوتے ہیں تقریر کے فن میں بھی وہ بہت ماہر ہوتے ہیںمگر وہ کسی غیر مسلم کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ان کی فصیح وہ بلیغ اردو بھی کام نہیں آ سکتی وہیں پر مقامی زبانوں میں جیسے ٹمل ناڈو کیرالا اور دوسری ریاستوں کے علماء کرام اپنی مقامی زبانوں میں تقریر کرتے ہیں تو مقامی غیر مسلموں کو متاثر کرتی ہیںکیونکہ ان تک بات پہنچتی ہے ابراہیم آتش گلبرگہ کرناٹک 9916729890 محترم ایڈیٹر لا زوال جموں اسلام و علیکم امید کرتا ہوں خیریت سے ہوں گے,, بات ان تک پہنچنی چاہئے جن کے لئے کہی,,ایک منفردعنوان اور بلکل مختلف موضوع کے سا تھ ایک تحقیقی مضمون ارسال خدمت ہے امید کرتا ہوں میری اس کوشش کو پسند کیا جائے گا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا