۔ابوالبرکات شاذ قاسمی
پارلیامنٹ میں خواتین کو ایک تہائی ریزرویشن دینے والی 128 ویں ترمیمی بل لوک سبھا میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے پاس ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بل خواتین کو با اختیار بنانے، انہیں برابری کا حقوق فراہم کرنے، روزمرہ کی زندگی میں ان کے ساتھ ہورہے عدم مساوات اور متعصبانہ سلوک سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوگا۔ بل کے حق میں 454 ووٹ پڑے جب کہ اس کے برخلاف محض دو اوٹ ڈالے گئے اور یہ اوٹ اسدالدین اویسی اور انہی کے پارٹی کے ایم ایل اے امتیاز جلیل کا تھا۔ اب یہ بل راج سبھا میں جمعرات یعنی 21.9.2023 کو پیش کیا جائے گا۔ بل کو لانے والی مرکزی حکومت کا یہ دعوی ہے کہ یہ بل خواتین کو خود مختار بنائے گا۔ ان کو سماج اور معاشرے میں برابری عطا کرے گا۔خواتین کی عزت نفس مقام و مرتبہ اور احترام میں اس بل کے ذریعے اضافہ ہوگا۔انہون نے اس بل کی اہمیت کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ خواتیں؛ معاشرے کی نصف آبادی ہیں ان خواتین کو برطرف کرتے ہوئے اتنے بڑے جمہوری ملک کو "وشو گرو” بنانے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ واضح ہو کہ خواتین ریزرویشن بل کی مانگ بہت پہلے سے کی جا رہی تھی مگر وقت اور حالات اور سیاسی داؤ پیچ کے وجہ سے یہ خواب شرمندۀ تعبیر نہ ہو سکا تھا ۔ جو اب مودی حکومت میں پورا ہو رہا ہے واضح ہوکہ رواں سال کے اختتام سے پہلے جبکہ اگلے سال لوک سبھا کا الیکشن ہونے والا ہے سرکار نے اس بل کو لاکر دوہرا کارڈ کھیلا ہے۔سرکار کو اس کی ٹائمنگ کا فائدہ بھی خوب خوب مل رہا ہے اور وہ اس سے جہاں خواتین کے درمیان اپنی کھوئی وقار کو بازیاب کرنے میں لگے ہیں۔ تو وہی اپنے وٹرس کو لبھانے میں بھی کوئی کمی کسرنہی چھوڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس بل کے پاس ہونے کے فوراً بعد ہی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ "اس قسم کے کاموں کےلیے بھگوان نے ہمیں ہی چنا ہے” ۔یہ بات بھی دھیان دینے کی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کو دیوی تسلیم کیا جاتا ہو ان کی ہر گھر میں ہر در پہ پوجا کی جاتی ہو ۔جہاں کے اکثر تیوہار دیوی دیوتاؤں اور خواتین کے نام سے منسوب ہوں اسی ملک میں خواتین کے حقوق ،عزت نفس اور خود مختاری اور وقار کے لیے بل پاس کرانا یہ اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہی ہے ۔ یہ ایک بڑے المیے سے کم نہی کہ ہم جن کو اس قدر تکریم سے نوازتے ہیں ان کی پوجا کرتے ہیں ہم نے اب تک ان کو سماج میں درست مقام مرتبہ نہی دے پایا ہے۔ ہماری ترقی برق رفتاری اور وشو گرو بننے کے بلند و بالابانگ صدا بہ صحرا ہے۔ ایک طرف ہم چاند پر کمندیں ڈال کر فخر سے پھولے نہی سم رہے ہیں تو دوسری طرف اس بل کو پاس کر کے ہم دنیا کو یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارے یہاں آج بھی خواتیں؛ مظلوم مقہور ذلیل اور سماج میں دوسرے درجے کی شہری ہیں ان کا معیارِ زندگی یورپ امریکہ جیسی ترقی یافتہ ممالک کی خواتیں کے مقابلے گری ہوئی ہے اتنی ترقی کے دعووں کے باوجود بھی ہم ابھی تک خواتین کو حقوق فراہم نہیں کر پائے ہیں اور اس کے لئے ہمیں پارلیامنٹ سےبل پاس کرانے کی ضرورت پڑ رہی ہے یہ اپنے آپ میں ایک طرح سے اپنی ناکامی کا اعتراف حقیقت ہے اور عتراف سچائی بھی!
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ خواتیں ریزرویشن بل کے پاس ہو جانے کے بعد بھی خواتیں کی حالت زار میں کچھ اصلاح ہو جائے یہ یقینی طور پر نہی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ بل کا پاس ہوجانا الگ بات ہے اور اسے زمینی سطح پر نافذ ہوجانا کار دیگر!!! اس بل کے ذریعے خواتین کو اپنے مسائل سے نجات ملے اس کی گارنٹی کون لے سکتا ہے کیا اس بل کے پاس ہونے پر کامیابی کی ڈفلی بجانے والے لوگ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اس کے بعد خواتین کے تمام تر مسائل حل ہو جائیں گے ؟؟کیا یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتیں کے خلاف زنا باالجبر، قتل ،لوٹ، ہتک عزت، گھریلو تشدد اور ذہنی و جسمانی اذیتوں سے نجات مل پائے گا؟ کیا خواتین بل میں مسلم ،دلت، آدی واسی، قبائلی ،درج قبایلی خواتین شامل ہیں ؟اگر ہیں تو کیا حکومت اس بات کو ڈنکے کے چوٹ پر کہ سکتی ہے کہ اس کے بعد ان کے ساتھ ناانصافی، ظلم ،بھید بھاو اور نفرت کا سلوک نہی کیا جائے گا ؟ ہمیں یہ نہی بھولنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں خواتین کو اس سے قبل بھی تعلیم حاصل کرنے ،اپنی بات رکھنے ،اپنا مذہب اختیار کرنے ،اپنے پسند کی شادی کرنے ،اپنی رائے کا اظہار کرنے وغیرہ جیسی کئی اہم معاملوں میں حقوق و مراعات حاصل ہیں انہیں مردوں کے مقابل یا مساوی تسلیم کیا جاتا رہا ہے مگر اس کے باوجود انہیں ان سب کو پانے اور قانونی مراعات کو حاصل کرنے میں کئی طرح کی پر یشانیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ ابھی وہ دن نہی گزرا کہ لوگ مسکان کو اپنی حقوق کے لئے کالج میں دنگائیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ویڈیوز مین دیکھ رہے تھے ۔منی پور میں ایک مخصوص اقلیت کی بیٹی کو ننگا نچایا گیا تھا ۔یوپی کی ایک دلت بیٹی کو انصاف دئے بغیرر جلایا دیا گیا تھا اور ایسا ہر بار بے خوفی کے ساتھ ہوتا آرہا ہے نہ صرف یہ کہ ہوتا ہے بلکہ ان کی پست پناہی بھی ہوتی ہے انہیں ہمت، حوصلہ ،جملہ ہتھیار و اسباب بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ ہر روز ان کے ساتھ ذات پات مذہب رنگ و نسل زبان و بھاشا کا تعصب دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت کا منظور شدہ ادارہ National Crime Records Bureau کے مطابق سن 2021 میں اپنے یہاں زنا بالجبر کے کل 3167 کیس ہوئے یعنی اوسطاً یومیہ 86 معاملے جبریہ زنا کے درج کیے جاتے ہیں اسی طرح اس سال خواتین کے خلاف جرائم 50 فیصد فی گھنٹہ درج کیے گئے ہیں قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ یہ ظلم و زیادتی دن بدن فزوں تر ہوتی جا رہی ہے ۔ آئے دن اخبارات میں ظلم، ستم ،قتل ،ہتک عزت ، گھریلو تشدد اور تذلیل کرنے کے واقعات بھرے پڑے رہتے ہیں۔ حیرت و استعجاب کی حد اس وقت ہوتی ہے جب خواتیں پر زیادتی کرنے والوں میں ان کا نام آتا ہوا نظر آتا ہے جو قانوں بناتے ہیں اور قانون کی رکھوالی کا دم بھرتے ہیں۔ ایسے حالات میں خواتین بل کے نفاذ کو ماہرین سماجیات ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ اسی وقت صحیح طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے جبکہ حکومت خاص طور سے بی جے پی کی برسر اقتدار پارٹی ہر طبقے کی خواتین کی برابری کا سوچیں اپنے پارٹی میں بھی اوبی سیز ،بیک وارڈ کاسٹ اور دیگر اقلیتوں کے طبقے سے بھی نمائیندہ خواتین کو شامل کرے کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کی طرف سے لایا ہوا خواتین ریزرویشن بل یہ صرف رواں سال کے اختتام پر ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لیے ایک پلے کارڈ ہے جس کو بی جے پی خواتین کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کھیلنا چاہتی ہے انہیں خواتین کے حقوق ،عزت اور سماج میں برابری کا مرتبہ دلانے سے کوئی مطلب نہی ! اس بات کو کچھ وقت کے لئے تسلیم بھی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ وہ الیکشن کے وقت اچھے جملوں خوبصورت وعدوں اور سبز باغ دکھاکر عوام کو بہکانے میں ماہر رہی ہے چنانچہ ہم یقینی طور پر کہ سکتے ہیں کہ اگر حکومت کو حقیقت میں خواتیں کے حقوق سے دلچسپی ہے تو سماج کے سب طبقات کے خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا اور اسے زمینی سطح پر نافذ کرنا ضروری ہوگا ورنہ صرف بل کے پاس ہوجانے سے خواتین کی سماجی معاشی تعلیمی فکری ترقی ہو یہ قبل از وقت ہوگا۔
[email protected]