نعیم الدین فیضی برکاتی
ٓؒؒ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی اور بھلائی کے لیے انبیائے کرام اور رسل عظام کو اس دنیا میں مبعوث فرمایااور اس سلسلہ کو نبی آخرالزماں پیغمبر اسلامﷺ پر ہمیشہ کے لیے بند فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بے شمار اوصاف حمیدہ اور عظمتوں سے نوازا ہے۔ان ہی میں سے ایک عظمت آپ کی شانِ رحمت و شفقت ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔(قرآن)
نبی کریم ﷺ کی رحمت صرف ملائکہ و مومنین ہی کے لیے نہ تھی بلکہ کفار و مشرکین بھی آپ کی رحمت سے محروم نہیں رہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ آپ کی شفقت ورحمت اورمحبت و مہربانی صرف انسانوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ کی رحمت سے جانوروں،کنکروں ،درختوں سمیت پوری مخلوق خدا کوحصہ ملا۔اس کی چند جھلکیاں قارئین کرام کے پیش نظر ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
کفارومشرکین کے لیے آپ کی رحمت:
مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پر وہ کون سا ظلم تھا جو کافروں نے نہ کیا ہو، آپﷺ علیہ وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا۔جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں۔پتھروں کی بارش برسائی گئی۔راستوں میں کانٹے بچھائے گئے۔گلا گھونٹا گیا۔یہاں تک کہ آپ کو قتل تک کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ جب آپ ان کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون سے رہنے نہیں دیاگیا۔ مکہ کے کافروں نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت ِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگیں لڑیں۔مگر جب فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو اپنی موت ،سامنے نظر آرہی تھی تو ان کو اس بات کا یقین تھا کہ آج ان کے ظلم و ستم کے بدلے ان کا قتل عام ہوگالیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم کو مجھ سے کیا توقع ہے۔میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ سے اچھی امید رکھتے ہیں۔ آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں ۔آپ نے ارشاد فرمایا :کہ میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا کہ آج تم پر کوئی الزام وملامت نہیں۔جاؤ تم سب آزاد ہو۔(بخاری،کتاب المغازی)
واضح رہے کہ پہلی امتوں پر ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے عذاب آجا تا تھا اور وہ بالکل ہلاک وبرباد کر دی جاتی تھیں۔قوم عاد کو ہوا اڑا لے گئی۔قوم ثمود زلزلہ سے ہلاک کر دیئے گئے۔قوم لوط کی بستیاں الٹ پلٹ کر دی گئیں۔قوم نوح کو طوفان نے تہس نہس کر دیا ۔بنی اسرائیل کے مجرمین خنزیر وبندر بنا کر ہلاک کرد یئے گئے۔مگر نبی اکرمﷺکی رحمت وشفقت کے صدقے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عذاب سے محفوظ فرما لیا ۔کفار مکہ نے آپ پر کیسے کیسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔شرک و بت پرستی کرتے رہے۔اللہ اور اس کے رسول پر غلط اور گندی تہمتیں لگاتے رہے اور ایسے ایسے ظلم و عدوان اور سرکشی و طغیان کا مظاہرہ کیا کہ زمین بھی ان کی بد اعمالیوں سے لرزہ بر اندام ہو گئی۔مگر ان گناہوں اور جرموں کے باوجود نہ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے ،نہ ان کی بستیاں الٹ پلٹ کی گئیں ااور نہ ہی ان کی صورتیں مسخ کی گئیں۔بلکہ کفار خوددعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ اگر قرآن حق ہے تو آسمان سے ہم پرپتھر برسادے مگر پھر بھی رحمۃ للعلمین کی رحمت نے ان کو بچا لیا اور خدا وند عالم نے یہ اعلان فرما دیا کہ: اے محبوب !یہ کفار آپ کے زیر سایہ رہتے ہیں اس لیے ہم ان کو عذاب نہیں دیں گے۔
بوڑھوں اور کمزوروں پر آپ کی رحمت:
نبی کریم ﷺ بوڑھوں اور کمزوروں پر کتنے مشفق و مہربان ہیں اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے۔آپ فرماتے ہیں:اگر بوڑھوں کے بڑھاپے اور بیماروں کی بیماری کا مجھے خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا۔
اسی طرح جب آپ اسلامی لشکر کو کسی جنگ کے لیے روانہ فرماتے تو نہایت سختی کے ساتھ یہ ہدایت فرماتے کہ خبردار! گرجاگھروں اور عبادت خانوں کے راہبوں اور بوڑھوں،عورتوں ااور بچوں کو ہرگز ہرگز قتل مت کرنا۔ضعیفوں،کمزوروں اور بیماروں کے ساتھ نہایت ہی رحم و کرم کا برتاؤ کرنا۔جنگی سپاہیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے ہونٹ ،ناک اور کان کاٹ کر ان کی صورتوں کو نہیںبگاڑنا ۔
جانوروں اور درختوں پر رحمت:
رحمت عالم ﷺ نے صرف انسانوں ہی پر رحم وکرم کا حکم نہیں فرمایا بلکہ جانوروں اور درختوں پر بھی آپ اس قدر مہربان تھے کہ اپنی امت کو جانوروں اور درختوں پر بھی حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ:خبردار! بے زبان جانوروں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادواور نہ بلا ضرورت انہیں مارو۔اور اگر مارنے کی ضرورت پڑ ہی جائے تو ان کے چہروں پر نہ مارو۔ان جانوروں کے گھاس،چارہ اور دانہ پانی میں ہرگز کمی و کوتاہی نہ کرو۔اسی طرح درختوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ : بلا ضرورت ہرے بھرے درختوں خصوصاًپھل دار درختوں کو ہرگز مت کاٹو اور ا ن درختوں کو بھی نہ کاٹو جو راستے کے اردگرد ہیں اور راہ گیر ان سے سایہ حاصل کرتے ہیں۔
میرے پیارے بھائیوں! آپ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور آپ کی شان رحمت سے ساری مخلوق کوکثیر حصہ ملا ۔آپ نے انسانوں ،فرشتوں،جا نوروں،کنکروںاور پتھروں اور درختوں الغرض ساری مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کیا اور ہم کو یہ درس دیا کہ انسان کو انسان ہو نے کے ناطے صرف انسانوں ہی کے ساتھ اچھے برتاؤ نہیں کر نا چاہئے بلکہ پوری مخلوقِ خداکے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ہم رسول ِرحمتﷺکے امتی اور غلام ہیں۔
ہمارے رسولﷺغریبوں،مفلسوں،یتیموں،بیواؤں ،پڑوسیوںیہاں تک کہ چرندوں اور پرندوں پر بھی سراپا رحمت تھے۔مگر آج ہمارے اعمال وکردار کیسے ہیںیہ ہم سب کوخوب معلوم ہے کہ ہم اپنے دستر خوانوں پر عمدہ عمدہ لذیذ غذائیں کھانے کے لیے بیٹھتے ہیںمگر ہمیں امتِ رسول کے ان بھوکے غریبوں،یتیموں اوربے سہاروں کی یاد نہیں آتی جن کوکئی کئی دنوں سے خشک روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملاہوتا ہے۔گرمی کے موسم میں ایئر کنڈیشن کمروں اورسہولیات سے لبریز پر تعیش زندگی گزارتے وقت ہمیں بے سہاروں اور دکھیوں کے ماروں کاخیال کہاںآتا ہے ؟ٹھنڈی اور گرمی کے ایام میں جب ہم اپنی تمام تر سہولیات کے ساتھ سکھ اور چین کی نیند سوتے ہیں۔للہ بتائیے! کیا اس وقت ہمیںملت کی وہ غریب بیوائیں بھی یاد آتی ہیں؟جو اپنے پھونس کے جھوپڑوں ،کیمپوںاوربے سروسامانی کے عالم میں ساری رات جاگ کر بسر کر لیتی ہیں۔برادران اسلام!سچ یہ ہے کہ ہمارے دلوں سے ایمانی رحمت اور اسلامی اخوت فنا ہو گئی۔آج نہ ہمیں غریبوں کی پروا ہے نہ بیواؤں اور یتیموں کا خیال۔نہ بھوکے پڑوسیوں کا غم ہے نہ بے سہاروں کے سہارا بننے کا جذبہ۔پھربھلا ہم کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم رحمت للعلمین کے فرماں بردار امتی ہیں۔ہمارے اعمال واخلاق تواس طرح کے ہونے چاہیے کہ لوگ دور ہی سے دیکھ کر سمجھ جائیں کہ یہ بندہ مسلمان اور نبی رحمت ﷺ کا سچاپیروکارہے اور مخلوق خدا کے ساتھ رحم وکرم کے ایسے ایسے نمونے پیش کرنے چاہئے جسے دیکھ کر ہمارے مخالفوں کی نفرتیں بھی موم کی طرح پگھل کر محبتوں میں تبدیل ہو جائیں ۔
پرنسپل:دارالعلوم برکاتِ غریب نواز کٹنی (ایم۔پی۔)
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آوازویب پورٹل؍میگزین( مہراج گنج)
[email protected]
9792642810