تحریر ۔محمدتوحیدرضا علیمی بنگلور رابطہ ۔9886402786
ماہ ربیع النور کو حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ مبارکہ کا مہینہ ہونے کی نسبت سے خصوصی شرف وامتیاز حاصل ہے اس میں امت ِ مسلمہ کی فرحت و مسرت کا عالم دیدنی ہوتا ہے اس ماہِ مقدس کا استقبال پورے عالمِ اسلام میں انتہائی عقیدت و احترام اور تزک و احتشام کے ساتھ کیا جاتا ہے یوں تو حضور ﷺ کے تذکارِ سیرت ساراسال کئے جاتے ہیں مگر اس مہینہ میں آپ کی نورانی تخلیق اور ولادتِ باسعادت کے حالات و واقعات کے تذکرے بڑے اہتمام سے کئے جاتے ہیں ،یہ مہینہ اگر چہ خلقتِ محمدی ﷺ کا نہیں کیونکہ نوری محمدی کی تخلیق تو اس وقت ہوچکی تھی جب ابھی کی اکائیوں کا نام و نشان تک بھی نہ تھا لیکن ائمہ و محدثین کے طریقہ پر میلاد النبی ﷺ کے عنوان کے ذیل میں حضور ﷺ کی اس شان کو بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔
وجود نبوی ﷺ کے ظہور کے مراحلِ ثلاثہ
یعنی حضور اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کے ظہورکے تین مراحل ہیں (۱ ) پہلا مرحلہ حضور ﷺ کی خلقت کا ہے اس سے مراد وجودِ مصطفی ﷺ کے ظہور کا وہ مرحلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے نور کو عالم عدم سے عالم وجود میں منتقل فرمایا ۔مرحلہ ثانیہ ،حضور ﷺ کے وجود مسعود کے ظہور کا دوسرا مرحلہ نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق کے بعد اور اسکے ظہور بشری سے پہلے کے دور پر مشتمل ہے ، اس مرحلہ میں نور مصطفی ﷺ پشت در پشت پاکیزہ صلبوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا تا آنکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں چمکا اور سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی گود میں اتر آیا۔مرحلہ ثالثہ ،ولادتِ محمدی ﷺ ہے حضور نبی اکرم ﷺ کے ظہور وجود کا تیسرا مرحلہ آپ کی ولادت ہے جو ائمہ متقدمین و متاخرین کی اکثریت کی رائے کے مطابق ۱۲ ربیع النو رکا دن ہے اس طرح ان تین مراحل سے گزار کر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کوظہور کا مل کے درجہ پر فائز فرمایا ،ماہ ربیع الاول کا تعلق حضور ﷺ کے ظہور ِ ثالث کے ساتھ ہے
کائنات کی ہر شے کا وجود رحمت محمدی ﷺ کا محتاج ہے
کائنات کی ہر چیز اپنے وجود اپنی بقاء او رحصول و کمال کے ہر مرحلے اور درجے میں رحمت مصطفی ﷺ کی محتاج ہے ۔اب یہ قانون فطرت اور اٹل حقیقت ہے کہ محتاج شئے اپنے محتاج الیہ کے بعد آتی ہے ۔ہماری دنیوی زندگی اپنے وجود اور اس کی بقاء کے لئے ہوا کی محتاج ہے اگر ہوا پہلے سے موجود نہ ہوتی تو ہم کبھی بھی وجود میں نہ آسکتے ،لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہوا کو پہلے پیدا فرمایا اور ہمیں زندگی بعد میں عطاکی (۲) اسی طرح زندگی پانی کی محتاج تھی ،اس لئے پانی کو پہلے پیدا کیا اور جو چیز پہلے پانی کی محتاج تھی اس کو پانی کے بعد تخلیق کیا ،(۳) اسی طرح اولاد اپنے وجود اور پیدائش و پرورش میں اپنے والدین کی محتاج ہے ،والدین نہ ہوں تو اولاد از خود وجود میں نہیں آسکتی ، لہٰذا اولاد اس وقت وجود میں آتی ہے جب والدین پہلے سے موجود ہوں ۔ان مثالوں سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ محتاج بعد میں آیا کرتا ہے اور جس کی احتیاج ہو اس کا پہلے ہونا ضروری ہے ۔ہر شئے کسی عالم کی حصہ ہوتی ہے اور تمام عالم حضور کے دامن رحمت میں ہیں لہٰذا ہر شئے کے لئے رحمت محمدی ﷺ واسطہ اور وسیلہ بنی ہر شئے کا وجود میں آنا رحمتِ مصطفی ﷺ کے سبب سے ہوا ،اگر رحمت پہلے نہ ہو تو شئے وجود میں نہیں آسکتی
خلقتِ نورمحمدی ﷺ کے وقت کا تعین ناممکن ہے
کائنات میں تخلیقِ آدم سے پہلے حضور ﷺ کب سے موجود تھے اس کا تعین کوئی بھی نہیں کرسکتا ،ا س سلسلے میں مختلف ائمہ نے ایک روایت ذکر کی ہے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت فرمایا جبرائیل ذرا یہ تو بتائو کہ تمہاری عمر کتنی ہے ،حضرت جبرائیل امین عرض کیا آقا میری عمر کا تو مجھے صحیح اندازہ نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ ( ساری کائنات کے پیداہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حجابات عظمت میں سے)چوتھے پردہ عظمت میں ایک نورانی ستارہ چمکا کرتا تھا اور وہ ستارہ ستر ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھاآقا میں نے اپنی زندگی میں وہ نورانی ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے ،حضور رحمت ِ عالم ﷺ ( تبسم کناں چہرہ انور کے ساتھ ) فرمانے لگے جبرائیل مجھے اپنے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم وہ ( چمکنے والا ستارہ ) میں ہی ہوں
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں تخلیق آدم سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے پروردگار کے حضور میں ایک نور تھا ،اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ ہمارے حضور ﷺ نے فرمایا ۔ترجمہ،یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا ،میں اللہ کے نور سے ہوں اور ساری مخلوقات میرے نور سے ہے (مدارج النبوۃ ،ج ۲)اور بخاری شریف و ترمذی شریف میں ہے ہمارے حضور ﷺ فرماتے ہیں ترجمہ، میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام جسم اور روح کے درمیان میں تھے ۔اس حدیث سے اس وقت نور محمدی ﷺ کا حضورِ الٰہی میں موجود رہنا ثابت ہوگیا ،
فرشتہ تھا نہ آدم تھے نہ ظاہر تھا خدا پہلے
بنے ساری خدائی سے محمد مصطفی پہلے
نبوت کب عطاکی گئی
اور حضرت میسرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میںعرض کیا ، آپ کب سے نبی تھے ؟ تو نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ( میں اس وقت بھی نبی تھا ) جبکہ حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے ۔حدیث ابن عباس طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے ، عرض کیا گیا ،یارسول اللہ
ﷺ آپ کب نبی تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ،ابھی آدم روح اور جسم کے درمیان تھے ۔اس حدیث کو طبقات میں روایت کیا ہے ایک شخص نے نبی ﷺ سے سوال کیا،آپ کب نبی تھے آپ نے فرمایا آدم ابھی روح اور مٹی کے درمیان تھے ۔حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے کہ ترجمہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں خاتم النبیین لکھا جا چکا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کا پیکرِ خاکی ابھی تیار کیا جارہا تھا۔حضور ﷺ کو نہ صرف نبوت عطا کردی گئی تھی بلکہ آپ کو خاتم النبیین ﷺ بنا دیا گیا تھا اور اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا تیار نہ ہواتھا
حضور ﷺکا خود اپنی نعت سننا
حضور نبی اکرم ﷺ خود محفل نعت منعقد فرماتے اور حسان بن ثابت کوفرماتے کہ وہ مدح میں لکھے ہوئے قصائد پڑھ کر سنائیں اسی طرح بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بھی حضور کی مدح سرائی کا شرف حاصل ہوا ۔حضرت حسان بن ثابت سے نعت سننا ۔ام المئو منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں حضور نبی اکرم ﷺ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ کی نعت بیان کرتے اورفرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کا دفاع کرتے اور آپ فرماتے ، بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ رسول ِ اللہ ﷺ کی نعت بیان کرتے ہیں یا ان کا دفاع کرتے ہیں (ترمذی ،کتاب الادب ،الجامع الصحیح،)
حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں ترجمہ ۔ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ بے شک میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور آپ ﷺ کی نعت بیان کی ہے ،پس آپ ﷺ نے فرمایا آئو اور اللہ کی حمد سے ابتدا ء کرو(احمد بن حنبل ،المسند) حضرت عبد اللہ بن رواحہ سے نعت سننا ۔حضرت ہیثم بن ابی سنا فرماتے ہیں ترجمہ ۔ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنے وعظ میں کہتے ہوئے سنا اس حال میں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا ذکر خیر کررہے تھے کہ تمہارے بھائی یعنی عبد اللہ ابن رواحہ بالکل لغویات نہیں کہتا ۔اور ہمارے درمیان اللہ کے رسول ہیں جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں جبکہ فجر طلوع ہوتی ہے
انصار کی بچیوں کی دف پر نعت خوانی
محفل میلاد مصطفی ﷺ میں نعت خوانی اور قصیدہ گوئی کے جواز پر حضور رحمت کائنات ﷺ کے استقبال میں انصار مدینہ کی بچیوں کی مدح سرائی بھی نعت کی دلیل ہے ،حضور ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار مدینہ کی بچیوں نے آ پ ﷺ کی آمد کے موقع پر دف بجا کر ایک قصیدہ گایا جس کے درج ذیل اشعار شہرت دوام پاگئے ہیں
وداع کی گھاٹیوں سے چودہویں کا چاند ہم پر طلوع ہواہے تو ہم پر شکر واجب ہے کہ جب تک بلانے والا اللہ کے لئے بلائے ، اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی آپ ایسے امر کے ساتھ تشریف لائیں ہیں جس کی اطاعت کی جائے گی
جہاں تاریک تھا ظلمت کدہ تھا سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلاکہ گھر گھر میں اجالاتھا
امام مسجدِ رسولُ اللہ ﷺ خطیب مسجد رحیمیہ میسور روڈجدید قبرستان مہتمم دارالعلوم حضرت نظا م الدین رحمۃ اللہ علیہ نوری فائونڈیشن بنگلور کرناٹک انڈیا
[email protected]