ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
تجارت کے چند اہم اسلامی اصول
از : ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
تجارت حصول رزق کے اہم اسباب میںسے ایک ہے اور یہ وہ سبب ہے جس کی اہمیت اور افادیت ہر دور میں یکساںطور پر تسلیم کی گئی ہے لیکن دور حاضر میں تو عالمی معیشت میں اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ آج جس قوم نے بھی تجارت کو اپنایا ہوا ہے، اس کی نہ صرف معاشی حالت بہتر ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی وہ ملکی اور عالمی سطح پر غالب ہے۔ ایک وقت تھا جب کہ مسلمان تجارت کے میدان میں ساری قوموں سے آگے تھے جس کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد حاصل تھے بہ شمول ان کے یہ بھی تھا کہ تجارتی اسفار میں دعوت دین ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے مسلمانوں نے تجارت کو ترک کردیا اور حصول رزق کے دوسرے ذرائع اختیار کرلئے جو منجملہ اور اسباب کے قوم کے زوال کا ایک سبب بنا بلکہ بقول اکبر الٰہ آبادیؔـ:
زوال قوم کی تو ابتدا وہ تھی کہ جب تجارت آپ نے کی ترک، نوکری کرلی
قوم کی کسبی روش میں یہ تبدیلی شاید اس وجہ سے واقع ہویٔ کہ اس کی نگاہوں کے سامنے رسول پاک ﷺ کا یہ فرمان نہ رہا: ’’عَلَیْکُمْ بِالتِّجَارَۃِ فَاِنَّ فِیْھَا تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الرِّزْقِ‘‘ یعنی ’’ تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے کیوں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے فقط اس میں ہیں‘‘۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، دار ابن حزم للطباعۃ والنشر و التّوزیع، بیروت، ۲۰۰۵ء، صفحہ ۵۰۴)۔ آج کی دنیا میں رسول اکرم ﷺ کے اس قول کی تعبیر ہر کسی کے آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہی نہیں، تجارت کی اہمیت اور فضیلت میں نبی کریم ﷺ سے او ر بھی اقوال منقول ہیں۔ مثلاًجب آپؐ سے یہ دریافت کیا گیا کہ کون سی کمایٔ سب سے زیادہ پاکیزہ ہے (أَیُّ الْکَسْبِ أَطْیَبُ)؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہِ وَ کُلُّ بَیْعٍ مَبْرُوْرٍ‘‘ یعنی ’’آدمی کااپنے ہاتھ سے کویٔ کام کرنااور ہر وہ تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو‘‘ یعنی شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے ۔ (مسند احمد، دارلکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۸ء، رقم ۱۷۷۲۸، بروایت رافع بن خدیجؓ)۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے کویٔ شخص اگر رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا لائے پھر اسے فروخت کرے (اور اس سے اپنا گزر بسر کرے) اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی آبرو محفوظ رکھے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے اور اسے کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ (صحیح بخاری، کتاب المساقاۃ،بابُ بَیْعِ الْحَطَبِ وَالْکَلَاِ، رقم ۲۳۷۳، بروایت زبیربن عوامؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب البیوع، بابُ مَاجَائَ فِی التُّجَّارِ وَ تَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ ﷺ إِیَّاھُمْ، رقم ۱۲۰۹، بروایت ابو سعید خدریؓ)۔
ان روایات سے تجارت کی فضیلت، روزی کے اسباب میں اس کی اہمیت، اس کے ذریعہ حاصل شدہ مال کی پاکیزگی اور تاجروں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام بالکل واضح ہے لیکن باوجود ان سب کے دیگر شعبوں کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی امت مسلمہ نے رسول اکرم ﷺ کی رہنمایٔ کو قبول کرنے میں عملاً کوتاہی برتی۔ لیکن ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ حال میںمسلمان ایک بار پھرتجارت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں، گو کہ اس کے پیچھے کچھ دوسرے عوامل کارفرما ہیں، پھربھی یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس میں افسوس کا پہلو صرف یہ ہے کہ مسلمان دوسری قوموں کی طرح شرعی اور اخلاقی ضابطوں سے بے نیاز ہو کر تجارت کررہے ہیں حالانکہ اگر و ہ نبی کریم ﷺ کی سنتوں کو اپنی تجارت میں داخل کرلیںتو ان کی تجارت اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ذریعہ بن جائے گی، اس دنیا میں بھی اس کی برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آخرت میں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے انعامات سے مالامال ہوں گے۔ اسی مقصد کے پیش نظر راقم نے آئندہ سطور میںتجارت کے اہم اسلامی اصول کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے کہ شاید یہ حقیر سی کوشش تجارت کے شعبے میں رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنے میںکچھ کام آجائے۔ چونکہ تجارت کا علم بہت ہی دقیق ہے اور کتب حدیث وفقہ میں اس کی بہت سی جزئیات ملتی ہیں اور سب کا احاطہ ایک مضمون میںناممکن ہے، اس لئے راقم نے صرف تجارت کے عام اصولوںپر اکتفا کیا ہے۔
۱۔ تجارت کے علوم کا حاصل کرنا: سب سے اول اور بنیادی بات یہ ہے کہ تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے اس سے متعلق علوم کو سیکھنا چاہیے۔ رسول پاک ؐ کے فرمان ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ یعنی ’’علم (دین) طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمۃ، باب فضل العلمآء والحثّ علٰی طلب العلم، رقم ۲۲۴، بروایت انس بن مالکؓ) کی تشریح میں فقہاء نے لکھا ہے کہ آدمی کسب معاش کے لئے جو کوئی پیشہ اختیار کرے اس کا علم حاصل کرنابھی اس پر فرض ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے تجارت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیاتو اس پر یہ فرض ہے کہ وہ بیع کے مسائل اور اس کی شرطیں معلوم کرے۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں: ’’واگر بمثل پیشہ دارد، علم آن پیشہ بروی واجب شود تا اگر بازرگان بود علم ربوا بروی واجب شود، بلکہ واجب شود کہ جملہ شروط بیع بداند تا از بیع باطل حذر تواند کرد‘‘۔ (مفہوم): ’’اسی طرح اگرآدمی کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس پیشہ کا علم بھی اس پر واجب (یعنی فرض) ہوجاتا ہے جیسے کہ اگر تاجر ہے تو سود کے مسائل کا علم اس پر واجب ہوجاتا ہے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہوجاتا ہے کہ بیع کی جملہ شرائط سے واقف ہو تاکہ بیع باطل سے بچ سکے‘‘۔ (کیمیای سعادت، کتابخانہ و چاپخانہ مرکزی، تہران، اشاعت دوم، ۱۳۳۳ھ، صفحہ ۱۱۵)۔ ایک جگہ امام غزالیؒ یہاں تک لکھتے ہیں کہ بیع کے مسائل جاننا سب پر فرض ہے کیوں کہ ہر ایک کو اس سے واسطہ پڑسکتا ہے، کوئی شخص اس سے بری نہیں ہوسکتا: ’’و علم بیع حاصل کردن فریضہ است کہ ہیچکس را ازین چارہ نباشد‘‘۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۵۹)۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میںیہ رقم کیا ہے کہ جب وہ بازار جاتے تو تاجروں سے بیع کے مسائل پوچھتے اور جو نہیں بتاتا اسے کوڑے لگا کر علم سیکھنے کے لئے بھیجتے اور فرماتے کہ جو بیع کے احکام نہ جانے اسے بازار میں نہیں ہونا چاہیے یعنی تجارت نہیں کرنا چاہیے کہ لاعلمی میںحرام اور سود میں مبتلا ہوجائے گا اور اسے خبر بھی نہ ہوگی۔ (حوالہ سابق، صفحہ ۱۱۵)۔
امام ترمذیؒ نے بھی اپنی سنن میں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’لَا یَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ‘‘ یعنی ’’ہمارے بازارمیں خریدو فروخت نہ کرے مگر وہ شخص جس نے دین میں خوب سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہو‘‘۔ (سنن ترمذی، کِتَابُ الْوِتْرِ، بابُ مَاجَآئَ فِي فَضْلِ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ، رقم ۴۸۷)۔
یہاں دین کی سمجھ سے ان کی مراد معاملات اور بیع و شراء (یعنی خرید و فروخت) کے مسائل سے آگاہ ہونا ہے۔ گویا حضرت عمرؓ کی رائے میںصرف ایسے شخص کے لئے تجارت کرنا درست اور جائز ہے جو معاملات اور بیع و شراء کے مسائل سے پوری طرح واقف ہو کیوں کہ جو شخص ان سے واقف نہیں ہوگا وہ کاروبار میں بے اصولیاں کرے گا جو معاشرے میں معاشی بگاڑ کا سبب بنیں گی۔ اس لئے ہر مسلمان تاجر بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بیع و شراء کے مسائل کو جانے کیوں کہ اپنے بشری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری اشیاء کی خرید و فروخت کے معاملات میں ملوث ہونا کسی کے لئے بھی ناگزیر ہے۔
۲۔ نیت کی درستی: تجارت میں نیت کی درستی بھی بہت ضروری ہے۔ اول یہ کہ ا پنی تمام تر محنت، مشقت اور جدوجہد کے باوجودصرف اللہ تعالیٰ کی ذات پرتوکل و اعتماد رکھے کہ رزاق مطلق اسی کی ذات ہے اور کسب وتجارت صرف ایک ظاہری وسیلہ کے درجہ کی چیز ہے اور اس کے پردے میںاللہ تعالیٰ کی قدرت کارفرما ہے۔ لہٰذا اپنے پیشہ و کسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے کیوں کہ یہ شرک خفی ہے۔ (مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف اردو،مطبوعہ ادارہ اسلامیات، دیوبند، ۱۹۸۶ء، جلد۳، صفحہ ۴۲۸)۔ دوئم یہ نیت کرے کہ تجارت اس لئے کرتا ہوںتاکہ خود کی اوراہل وعیال کی معاشی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوجائے، لوگوں کی محتاجی نہ رہے اور اس قدر فراغت میسر آجائے کہ دلجمعی کے ساتھ اللہ عزوجل کی عبادت کرسکوں۔ علماء نے اس قدر کمانے کو فرض لکھا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے: ’’طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ‘‘ یعنی حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے۔ (الجَامِعُ لِشُعَبِ الأِیْمَانِ لِلبَیْہَقِيؒ، مکتبۃ الرّشد، الریاض، ۲۰۰۳ء، رقم ۸۳۶۷، بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)۔ آپؐ سے اس کی بڑی فضیلت بھی منقول ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا حَلَالًا اسْتِعْفَافًا عَنِ الْمَسْأَلَۃِ، وَ سَعْیًا عَلٰی عَیَالِہِ، وَ تَعَطُّفًا عَلٰی جَارِہِ، لَقِيَ اللّٰہَ وَ وَجْھُہُ کَالْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ، وَ مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا حَلَالًا مُکَاثِرًا مُرَائِیًا لَقِيَ اللّٰہَ وَ ھُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ‘‘ جس کا مفہوم یہ ہیکہ جو شخص خود کو سوال سے بچانے، اپنے اہل و عیال (کی کفالت) کے لئے سعی کرنے اور اپنے پڑوسی پر شفقت و مہربانی کرنے کے لئے دنیا کو حلال اور جائز طریقے پر طلب کرتا ہے وہ (بروز قیامت ) اللہ جل شانہ سے اس حال میںملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا اور جو شخص کثرت مال اور ریاکاری (تفاخر) کی نیت سے حلال دنیا طلب کرتا ہے تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ (المُصَنَّفُ لِابْنِ أَبِي شَیْبَۃَ، کِتَابُ الْبُیُوْعِ وَالأَقْضِیَۃِ، باب فِي التِّجَارَۃِ وَالرَّغْبَۃِ فِیْھَا، بروایت ابوہریرہؓ)۔
علامہ غزالیؒ نے فضیلت کسب کے تعلق سے اپنی مایہ ناز تصنیف احیاء علوم الدین میں یہ روایت نقل کیا ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ان لوگوں کی نگاہ ایک طاقتور اور مضبوط جسم والے نوجوان پر پڑی جو صبح سویرے ہی طلب معاش کے لئے بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف تھا تو بعض صحابہ کرامؓ نے کہا کہ افسوس ہے اس پر، کاش اس کی جوانی اور طاقت اللہ کی راہ میں صرف ہوتی۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کہو! کیوں کہ اگر وہ محنت و کوشش اس لئے کررہا ہے کہ خود کو سوال کرنے سے بچائے اور لوگوں سے بے نیاز ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ اس لئے محنت کررہا ہے تاکہ اپنے ضعیف والدین یا کمزور و ناتواں اولاد کو لوگوں سے بے نیاز کردے اور ان کی کفایت کرے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے اور (ہاں) اگر وہ دوسروں پرمفاخرت اور کثرت مال کی غرض سے بھاگ دوڑ کررہا ہے تو (یقینا) وہ شیطان کی راہ میں ہے ۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، صفحہ ۵۰۳)۔
اسی مضمون کی روایت حافظ سلیمان بن احمد الطبرانیؒ نے معاجم ثلاثہ میں کعب بن عجرہؓ سے، امام بیہقیؒ نے سنن الکبریٰ میں انس بن مالکؓ سے اور امام ابن ابی الدنیاؓ نے کتاب العیال میں ابی المخارقؓ سے نقل کیا ہے۔ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صرف امام طبرانیؒ کی روایت نقل کی جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک صاحب کا نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزر ہوا تو (موجود) صحابہ کرامؓ ان کے جسم کی ساخت اور چستی کو دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ! کاش کہ یہ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں ہوتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے رزق کی تگ و دو میں نکلا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کی کوشش میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ اپنی ذات کو سوال و محتاجی سے بچانے کی سعی میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر اپنے گھر والوں( کی کفایت) کے لئے محنت کی خاطر نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور (ہاں) اگر تفاخر اور بسیار طلبی کی کوشش میں نکلا ہے تو طاغوت کی راہ میں ہے‘‘۔ (المعجم الصغیر للطبرانیؒ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۸۳ء، الجزء الثّانی، ص۶۰)۔
مذکورہ احادیث سے جہاں کسب معیشت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے وہیں یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے اور اہل و عیال کی ضرورت سے زیادہ اس نیت سے کمانا تاکہ عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور فقراء و مساکین کی خبرگیری کروں گا نیز زائد مال اللہ تعالیٰ کے دین کو زندہ کرنے میں لگائوں گا، مستحب اور مندوب ہے البتہ صرف مال و دولت جمع کرکے فخر تکبر کے اظہار کے لئے زیادہ کمانا حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، صفحہ ۴۲۶)۔
سوئم یہ کہ اپنی تجارت سے حصول منفعت کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً، خدمت اور حاجت روایٔ کی نیت رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی ایک صورت بن جائے گی کیونکہ کسی بھی جگہ ضروریات زندگی کی تکمیل سے جڑی اشیاء کی فراہمی کے واسطے تجارت ایک ناگزیر عمل ہے اور اگر یہ نہ ہو تو نظام زندگی کے معطل ہوجانے بلکہ درہم برہم ہوجانے اور بنی نوع انساں کے مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوجانے کا شدید خدشہ ہے ۔ مثلاًاگر کسی جگہ دوا کی دکان نہ ہوتو لوگ کسی کے بیمار ہوجانے پر دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا ہوں گے، اگر کسی جگہ کپڑے کی تجارت نہ ہو تو لوگ کسی میت کے کفن یا دیگر انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے پریشان ہوں گے، اسی طرح شہروں میں اگرغلہ اور دیگر اشیائے خوردنی کی تجارت نہ ہو تولوگوں کے لئے روپیہ پیسہ رہتے ہوئے بھوکوں مرنے کی نوبت آسکتی ہے۔ انہیں مثالوں پر دیگر کاروبار اور پیشوں کو قیاس کیا جاسکتاہے۔ اسی لئے علماء نے ہر جائز پیشہ کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور ان میں لگنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ امام غزالیؒ کے مطابق بعض محدثین نے حدیث رسولؐ ’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِي رَحْمَۃٌ‘‘ یعنی ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے کہ مختلف صنعتوں اور پیشوں کے معاملے میں ان کی پسندوں کا مختلف ہونا رحمت ہے کیوں کہ اگر سب لوگ ایک ہی پیشہ کی طرف متوجہ ہوجائیںیا ایک ہی طرح کی تجارت اختیار کرلیں تو باقی پیشے اور باقی تجارتیں سب معطل ہوکر رہ جائیں گی اور انسانیت پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، صفحہ ۵۲۸ – ۵۲۹)۔
اس لئے اپنی صنعت و تجارت میں ان فرائض کفایہ میں سے ایک کو قائم کرنے ، انسانیت کو مصیبت و پریشانی سے بچانے اور راحت و آرام پہنچانے کی نیت کرنی چاہیے۔
چہارم نیت یہ کرے کہ تجارت اس لئے کررہا ہوںتاکہ اس شعبے میںاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام اوررسول اکرم ﷺ کی سنتوں کو عملاً زندہ کروں۔ پنجم نیت یہ بھی کرے کہ بازار میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوں گا اور ایسے کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے بھی نہ دے۔ ان نیتوں کے ساتھ بازار میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوگی اور اس کی تجارت بھی عبادت کی ایک صورت بن جائے گی بس شرط یہ ہے کہ نیتوں میں اخلاص ہو اور تمام کاروباری سرگرمیوں پر اس کے اثرات بھی ہوں۔
۳۔ صبح سویرے تجارت کے لئے جانا: تجارت کے لئے صبح سویرے نکلنا اور اپنی دکان علی الصباح کھولنا بہتر ہے کیونکہ اس وقت کے لئے نبی کریم ﷺ نے برکت کی دعا فرمایٔ ہے، اس لئے ایسا کرنے سے اموال تجارت میں بھی برکت کی قوی امید ہے۔ صخرغامدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللّٰھُمَّ! بَارِکْ لِأُمَّتِي فِي بُکُورِھَا‘‘ یعنی ’’اے اللہ! میری امت کے لئے دن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے ‘‘ اور آپؐ کو جب بھی کوئی سریہ ( فوجی دستہ) یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصے میںروانہ فرمایا کرتے تھے۔ (عمارہ بن حدیدؒ نے کہا کہ) صخرؓ ایک تاجر آدمی تھے، وہ اپنی تجارتی کارندوں کو دن کے اول حصے میں روانہ کیا کرتے تھے چنانچہ وہ مال دار ہوگئے تھے اور ان کی دولت بہت بڑھ گئی تھی۔ (سنن ترمذی، کتاب البیوع، بابُ مَاجَآئَ فِي التَّبْکِیْرِ بِالتِّجَارَۃِ، رقم ۱۲۱۲)۔
عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے با رے میں بھی اسی قسم کی روایت ہے کہ جب انہوں نے بنی قینقاع کے بازار میں تجارت شروع کی تھی تو ان کا معمول یہی تھا کہ وہ بازار صبح سویرے چلے جایا کرتے تھے اور تجارت کے کاموں میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کِتَابُ الْمَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ، بَابُ إِخَائِ النَّبِيِّ ﷺ بَیْنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ، رقم ۳۷۸۰)۔ آگے چل کر وہ بہت ہی مال دار ہوگئے تھے اور عرب کے بڑے تجار میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ افسوس کی بات یہ کہ آج ہم غیروں کی طرح دیر رات تک لہو و لعب میں مشغول رہتے ہیں اور صبح کو نماز اور ذکر وتلاوت سے غافل ہوکر سوتے رہتے ہیں۔ ہمیںچاہیے کہ صبح کی نماز اور اوراد و وظائف سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کی طرف نکلیں، گو اس وقت کاروبار نہ ہو جب بھی اس برکت کو حاصل کرنے کی نیت سے اپنے کام پر ضرور جانا چاہیے۔
۴۔ حرام اشیاء کی خرید و فروخت سے اجتناب کرنا: ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ خود کو حلال اشیاء کی تجارت تک ہی محدود رکھے، حرام کی طرف قدم نہ بڑھائے گو مالی منفعت اس میں زیادہ نظر آئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐنے ایسی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کے سال جب کہ آپؐ مکہ ہی میں تھے ، یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’إِنَّ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ حَرَّمَ بَیْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَیْتَۃِ، وَالْخِنْزِیْرِ، وَالْأَصْنَامِ‘‘ یعنی ’’بے شک اللہ اور اس کے رسولؐ نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ جب آپؐ سے یہ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! مردار جانور کی چربی کے بارے میں آپؐ کی کیا رائے ہے کیوں کہ اس سے کشتیوں (کے تختوں) کو روغن کیا جاتا ہے، چمڑوں کو نرم (چکنا) کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے روشنی کرتے ( یعنی چراغ جلاتے) ہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’لَا، ھُوَ حَرَامٌ‘‘ یعنی ’’نہیں، وہ حرام ہے‘‘۔ پھر اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قَاتَلَ اللّٰہُ الْیَھُودَ، إِنَّ اللّٰہَ (عَزَّ وَجَلَّ) لَمَّا حَرَّمَ عَلَیْھِمْ شُحُومَھَا، أَجْمَلُوہُ ثُمَّ بَاعُوہُ، فَأَکَلُوا ثَمَنَہُ‘‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے! جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان پر جانوروں کی چربی حرام کردی تو انہوں نے اسے پگھلایا، پھر اسے فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بَابُ تَحْرِیْمِ بَیْعِ الْخَمْرِ وَالْمَیْتَۃِ وَالْخِنْزِیْرِ وَالْأَصْنَامِ)۔
اس حدیث پر معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جن اشیاء کی تجارت کو یہاں حرام قرار دیا گیا ہے وہ سب اسلام میں حرام ہیں، لہٰذا اس کا اطلاق ان اشیاء کی تجارت پر بھی ہوگا جن کا نام یہاں تو نہیں لیا گیا لیکن جن کی حرمت نصوص سے ثابت ہے اور جن کے حرام ہونے پر علماء امت کا اتفاق ہے، مثلاً تمام نشہ آور اشیاء، آلات غنا و مزامیر ، حرام و معصیت کے کھیلوں میں استعمال ہونے والے سامان، جھوٹے قصے کہانیاں، عشقیہ شاعری، رومانی ناول و افسانے، فحش لٹریچر اور باطل نظریات پر مبنی کتابیں، عریانیت و فحاشی کو فروغ دینے والی فلمیں اور ویڈیوز، فحش گانوں اور موسیقی کے البم وغیرہ۔ ان تمام بے ہودہ اشیاء کو قرآن کریم نے لَھْوَ الْحَدِیْث سے تعبیر کیا ہے اور ان کے خرید و فروخت اور استعمال کی سخت مذمت کی ہے کیوں کہ یہ چیزیں انسان کو دین اور فکر آخرت سے غافل کردیتی ہیں ، نیز اس کے اخلاق و کردار کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا ط اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ}۔ (ترجمہ): ’’اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیںجو خریدتے ہیں کھیل کی ( فضول و بیہودہ) باتیںتاکہ وہ گمراہ کریں (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے (نتائج کو) بے سمجھے بوجھے اور وہ اسے ہنسی مذاق ٹھہراتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ذلت والا عذاب ہے‘‘۔ (سورۃ لقمٰن:۶)۔
اسی طرح ایسا لٹریچر اور ایسی فلمیں جو معاشرہ میںحسن پرستی، عشق بازی اور فحاشی کو فروغ دینے میں معاون بنیں، ان کی تجارت اور ترویج و اشاعت بھی اخروی عذاب کا موجب ہوسکتی ہیں کیوں کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ}۔ (ترجمہ): ’’بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔ (النور:۱۹)۔ افسوس یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایسی اشیاء اور ایسے اسباب و محرکات کا ایک سیلاب سا امڈ آیاہے جو مذکورہ برائیوں کو فروغ دے رہی ہیں اور لوگ ان میں ان کے ممکنہ نتائج اور مضمرات سے بے پروا ہوکر ملوث ہورہے ہیں بلکہ انہیں ہنسی مذاق اور تفریح کے طور پر لیتے ہیں لیکن وہی باتیں ان کے دنیوی و اخروی خسارے کا سبب بن رہی ہیں ۔
خون کی حرمت بھی نص قطعی سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ ۔۔الآیۃ‘‘ یعنی ’’حرام ہے تم پر مردار جانور اور خون‘‘ (المائدہ:۳)، اس لئے اس کی تجارت بھی درست نہیں گرچہ اضطرار کی حالت میں یعنی کسی کی جان بچانے کے لئے خون کا عطیہ دینا اور قبول کرنا دونوں جائز ہے بلکہ قیمت دے کر لینا بھی جائز ہے لیکن قیمت وصول کرنے والے کے لئے اس کا استعمال قطعاً جائز نہیں ہوگا کیوں کہ نبی کریم ﷺ سے خون کی قیمت لینے کی ممانعت صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ حضرت ابی جحیفہؓ سے روایت ہے: ’’نَھَی النَّبِیُّ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَ ثَمَنِ الدَّمِ‘‘ یعنی ’’نبی کریم ﷺ نے کتے کی قیمت اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ مُوکِلِ الرِّبَا)۔
اس لئے خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ قیمت لئے بغیر صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر کسی کی جان بچانے کے لئے خون ہبہ کرے۔ ان شاء اللہ وہ سورۃ المائدۃ کی آیت ۳۲ میں دی گئی اس بشارت کا مستحق گردانا جائے گا کہ جس شخص نے کسی کی جان بچالی تو یہ ایسا ہے گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ ہاں خون کا عطیہ قبول کرنے والے یا ان کے ولی (سرپرست) کو چاہیے کہ عطیہ کرنے والے کو آمد و رفت کے اخراجات عطاکرے ، نیز ان کے کھانے پینے کا نظم کرے اور اگر ممکن ہو تو کچھ تحائف دے کر رخصت کرے تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو ۔ ظاہر ہے کہ یہ خون کی قیمت نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اگر یہ نہیں کیا جائے گا تو لوگ اپنے اخراجات پر کسی کو خون دینے نہیں جائیں گے اور اگر جائیں گے بھی تو انہیں گراں گزرے گا۔
ملی و فلاحی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے حاجت مندوںبالخصوص مسلمان مریضوں اور ان کے سرپرستوں کو خون کی خرید و فروخت سے بچانے اور اس کی مفت فراہمی کے لئے بلڈ بینک کے قیام پر توجہ دیں کیوں کہ آج کے حالات میں یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ جب کوئی انسان حالت اضطرار میں پہنچ جاتا ہے اور ڈاکٹروں کی طرف سے خون کا مطالبہ ہونے لگتا ہے، اس وقت اس مریض یا مریضہ کے متعلقین کوجن پریشانیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے اس کاادراک صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں ایسے حالات سے سابقہ پڑچکا ہو۔ ایسے نازک مرحلہ میں اگر متعلقہ گروپ کا خون دستیاب نہیں ہوسکا تو جب تک اس گروپ کے آدمی کو تلاشا جائے گا اور خون کے گروپ کی تصدیق کی جائے گا، اس مریض یا مریضہ کی جان چلی جائے گی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بلڈ بینک کا قیام کیا جائے اور خون عطیہ کرنے کے لئے حالت اضطرار کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ ایک صحت مند آدمی طبی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے وقتًا فوقتًا خون کا عطیہ دیا کرے تاکہ لوگوں کو ناگہانی اور ہنگامی صورتحال میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے یا خریدنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
علماء کرام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کوخون کا عطیہ دینے کی ترغیبیں دیں بلکہ دینی، ملی و فلاحی اداروں کو خاص خاص مواقع جیسے ۱۲؍ ربیع الاول، یوم عاشورہ (محرم کی دسویں تاریخ)، یوم جمہوریہ اور یوم آزادی وغیرہ پر خون کا عطیہ دینے کے لئے کیمپ لگانے کی راہ سجھائیں۔ ایسا کرنے سے دوسری ملتوں کے درمیان ایک مثبت پیغام جائے گا، حاجت مندوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں گی اور مسلم نوجوانان مذکورہ مواقع پر ہونے والے کئی اقسام کے خرافات سے بھی بچ جائیں گے۔ خون عطیہ کرنے کا کوئی طبی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ کئی فوائد ہیں جن میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جسم میں لوہے (Iron) کی مقدار کو متوازن رکھنے میںیہ عمل مددگار ہوتا ہے۔ خون کے سرخ خلیوں(RBC) کو بنانے میں جسم کو لوہے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہی لوہا جب جسم میں ضرورت سے زیادہ ہوجاتا ہے تو دل اور جگر میں جاکر جمع ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ خون کا عطیہ دیتے رہنے سے اس کی مقدارکے بڑھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس عطیہ کے دیگر فوائد بھی ہیں لیکن ان سب کے ذکر کا یہ موزوںمحل نہیں ہے بلکہ خون کی تجارت کے تعلق سے ضمنی طور پر مذکورہ باتیں یہاں آگئی ہیں۔
اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے احقر قارئین کی توجہ اس اصول کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے جوزیر بحث ذیلی عنوان کے تحت مذکور حضرت جابر بن عبداللہؓاور حضرت ابی جحیفہؓ کی روایات سے اخذ کیا جاسکتاہے کہ کسی چیز کی قیمت حکم کے اعتبار سے اسی چیز کے تابع ہوتی ہے یعنی اگر کوئی چیز حرام ہوگی تو اس کی قیمت بھی حرام ہوگی اور اگر کوئی چیز حلال ہوگی تو اس کی قیمت بھی حلال ہوگی۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان بھی موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰہَ إِذَا حَرَّمَ عَلٰی قَوْمٍ أَکْلَ شَیْئٍ حَرَّمَ عَلَیْھِمْ ثَمَنَہُ‘‘ یعنی ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کیا ہے، تو ان پر اس کی قیمت لینے کو بھی حرام کردیا ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کِتَابُ الْاِجَارَۃِ، بَابُ فِي ثَمَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْتَۃِ، بروایت عبداللہ بن عباسؓ)۔
اس اصول کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو تمام طرح کی حرام اشیاء کی تجارت سے بچا جاسکتا ہے۔
۵۔ تجارت کے ذریعہ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں معاون بننے سے پرہیز کرنا: اسلامی تعلیمات اور تمام طریقے کی تبلیغی و اصلاحی جدوجہد کا مقصدیہ ہے کہ ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آجائے جہاں برائیاں مفقود ہوںاور نیکیوںکا غلبہ ہوجائے ، کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ہر شخص سکون و عافیت کی زندگی گزار سکے۔ ایسا معاشرہ تب تک وجود میں نہیں آسکتا جب تک اس کا ہر فرد اس مشن میںممد و معاون نہ بنے۔ اس لئے قرآن حکیم نے اس سلسلے میں ایک واضح اصول دیا ہے: {وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَالتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ}۔ (ترجمہ): ’’اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلاشبہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ (المائدۃ:۲)۔ اس اصول کا اطلاق تجارت کے میدان میں بھی ہوتا ہے۔ ایک تاجر کو یہ غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس کی تجارت بلاواسطہ یا بالواسطہ گناہ کے فروغ میں مددگار تو نہیں ہورہی ہے اور اگر اسے یہ یقین ہو خریدار مجھ سے خریدی ہوئی چیز کا استعمال حرام مقاصد کے لئے کرے گا تو اس کا اس خریدارکے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا گرچہ حلال اشیاء کا ہی ہو۔ مثلاً انگور بیچنے والے کو اگر یہ یقین ہوجائے کہ خریدار اس کا استعمال شراب بنانے کے لئے کرے گا تو اس کے ساتھ اس کا تجارتی معاملہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ حَبَسَ الْعِنَبَ أَیَّامَ الْقِطَافِ حَتّٰی یَبِیْعَہُ مِمَّنْ یَتَّخِذُہُ خَمْرًا، فَقَدْ تَقَحَّمَ النَّارَ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ‘‘ یعنی ’’جس نے انگور کو اس کے توڑنے کے زمانے میںروک لیا تاکہ اسے شراب کش کو فروخت کرے تو وہ جانتے بوجھتے آتش دوزخ میں جاگھسا‘‘۔ (بُلُوغُ الْمَرَام مِنْ أَدِلَّۃِ الْأَحْکَامِ للحافظ ابن حجر العسقلانیؒ، کتاب البیوع، بَابُ شُرُوْطِہِ وَمَا نُھِيَ عَنْہُ مِنْہُ، رقم ۷۴۹)۔
اسی طرح فتنے کے زمانے میں جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، ہتھیار وںکا فروخت کرنا درست نہیںکیوں کہ ان کا استعمال کسی مسلمان کے خلاف ہونے کا قوی امکان ہے اور یہ گناہ پر تعاون کی ایک شکل ہے۔ امام بخاریؒ نے عمران بن حصینؓ کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ وہ فتنے کے دور میںہتھیاروں کے فروخت کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’وَکَرِہَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ بَیْعَہُ فِي الْفِتْنَۃِ‘‘ یعنی عمران بن حصینؓ نے فتنے کے زمانے میںاسلحہ کی فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ بَیْعِ السِّلَاحِ فِي الْفِتْنَۃِ وَ غَیْرِھَا)۔
حرام کاروبار کے لئے جگہ فراہم کرنے یا فروخت کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر یہ علم ہوجائے کہ خریدار اس جگہ کا استعمال غلط اور حرام مقاصد کے لئے کرے گا تو اس کے ساتھ معائدہ بیع کرنا درست نہیں ہوگا اور اگر معائدہ کے وقت اس کی نیت معلوم نہ ہوسکی اور آگے چل کر اس نے اس جگہ کا غلط استعمال شروع کردیا تو فروخت کرنے والے پر اس کا گناہ نہیں ہوگا۔ دوسرے معاملات کو بھی ان مثالوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
۶۔ جو چیز اپنی ملکیت اور قبضہ میں نہ ہو اس کی بیع سے پرہیز کرنا: جو اشیاء حلال ہیں ان کی تجارت میں بھی یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو چیز اپنے قبضہ میں نہ ہو اس کی بیع سے پرہیز کرے کیوں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے: ’’نَھَانِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ أَنْ أَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِيْ‘‘ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے مجھ کو اس سے کہ بیچوں میں وہ چیز جو میرے پاس نہ ہو‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، بَابُ مَاجَآئَ فِي کَرَاھِیَۃِ بَیْعِ مَا لَیسَ عِنْدَکَ، رقم ۱۲۳۵)۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت حکیم بن حزامؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس موجود نہیںہوتی تو میں اس سے اس کا معاملہ کرلیتا ہوں پھر اس چیز کو اس کے لئے بازار سے خرید لاتا ہوں (اور اس شخص کے حوالے کردیتا ہوں)، آپؐ نے (یہ سن کر) فرمایا: ’’لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ‘‘ یعنی ’’تم کسی ایسی چیز کی بیع نہ کرو جو تمہارے پاس نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، باب بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ، رقم ۴۶۱۳)۔
سنن نسائی کے اسی باب میں ایک روایت عبداللہ بن عمروؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ بَیْعٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ‘‘ یعنی ’’آدمی اس چیز کی بیع نہیں کرسکتا جس کا وہ مالک نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، باب بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ، رقم ۴۶۱۲)۔ عبداللہ بن عمروؓ سے ہی اس سلسلے میں ایک روایت ابن ماجہؒ نے نقل کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’لَا یَحِلُّ بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدِکَ‘‘ یعنی ’’جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا تیرے لئے حلال (جائز) نہیں ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ النَّھْيِ عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، وَ عَنْ رِبْحِ مَالَمْ یُضْمَنْ، رقم ۲۱۸۸)۔
ان احادیث کا تقاضہ یہی ہے کہ اس امید پر کہ وہ چیز بازار سے خرید کر گاہک کو فراہم کردے گا، کسی سے کسی متعین چیز کو متعین قیمت کے حصول کے ساتھ فروخت کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس حکم کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ سامان بازار میں نہ ملے جس کی قیمت پہلے ہی لے لی گئی ہے یا اگر مل جائے تو اس کا بھی امکان ہے کہ گاہک سے لی گئی قیمت سے کم یا بہت زیادہ قیمت میں ملے اور یہ بھی کہ بازار سے خرید لانے کے بعد وہ گاہک کو پسند آئے یا نہ آئے، ان سب صورتوں میں تاجر اور گاہک کے مابین اختلاف اور جھگڑے کا قوی امکان ہے اس لئے شارع علیہ السلام نے اس طرح کی بیع سے منع فرما دیا بلکہ تاجر اگر کوئی سامان خرید بھی چکا ہو مگر وہ اس کے قبضے میں ابھی تک نہ آیا ہو تو بھی اس کا اس کوبیچنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہُ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہُ أَو یَقْبِضَہُ‘‘ یعنی ’’جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح قبضہ میں نہ لے لے ‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب البیوع، بَابُ بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، رقم ۲۱۳۶)۔
اس روایت میں قبضے سے قبل فروخت کرنے کی ممانعت کا حکم گو غلے کے ساتھ مخصوص معلوم ہوتا ہے لیکن مسند احمد کی ایک روایت میں یہ حکم عمومیت کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فَاِذَا اشْتَرَیْتَ بَیْعًا فَلَا تَبِعْہُ حَتّٰی تَقْبِضَہُ‘‘ یعنی ’’جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے اس وقت تک آگے فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضہ میں نہ لے لو ‘‘۔ (مسند احمد، رقم ۱۵۷۱۰ )۔
امام طبرانیؒ نے حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لئے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ہے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’لَا تَبِیْعَنَّ شَیْئًا حَتّٰی تَقْبِضَہُ‘‘ یعنی ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضہ میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر للطبرانیؒ، مکتبہ ابن تیمیہ، القاہرہ، طبع دوم، ۱۹۸۳ء، جلد۳، رقم۳۱۰۸)۔
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے (یعنی وہ چیز جو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) پر صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا: ’’لَا تَبِعْہُ حَیْثُ ابْتَعْتَہُ حَتّٰی تَحُوزَہُ إِلٰی رَحْلِکَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ حَتّٰی یَحُوزَہَا التُّجَّارُ إِلٰی رِحَالِھِمْ‘‘ یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے حتی کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا جاتا ہو حتی کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فِي بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُسْتَوْفٰی، رقم ۳۴۹۹)۔
یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ تواس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں) کیوں کہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتایٔ جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’ذَاکَ دَرَاھِمُ بِدَرَاھِمَ، وَالطَّعَامُ مُرْجَأٌ‘‘ یعنی ’’یہ تو روپے کا روپیوں کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بَابُ مَا یُذْکَرُ فِي بَیْعِ الطَّعَامِ وَالْحُکْرَۃِ، رقم ۲۱۳۲ )۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کہ بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اور اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضہ میںلئے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعہ بازار میں آنے والی اشیاء کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (Consumer) تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی کیوں کہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔ اس لئے عام لوگوں کو سستی قیمت پر اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی کے زاویہ سے بھی یہ ایک اہم ہدایت ہے کہ قبضہ میں لئے بغیر کسی سامان کو آگے فروخت کرنے کا سلسلہ قائم نہ کیا جائے۔
تاہم اس مسئلہ پر فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے؛ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیاء کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاء منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں لیکن عقار یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاء منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین ہو خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، صفحہ ۴۹۶)۔
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ ﷺ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ ‘‘ یعنی ’’نبی کریم ﷺ نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلہ کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بَابُ بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، رقم ۲۱۳۵)۔
گویا انہوں نے بھی اس مسئلہ میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھہرایا اور اسی رائے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات سے بھی ہوگئی۔ رہی یہ بات کہ واضح نصوص یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔ اسی خدشہ کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلہ کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’استعمل ابن عباس قیاس، و لعلّہ لم یبلغہ النّصّ المقتضي لکون سائر الأشیاء کالطّعام کما سلف‘‘ یعنی ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیاء غلے کی مانند ہیں۔ (نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار، بیت الافکار الدولیۃ، لبنان، ۲۰۰۴ء، صفحہ ۹۸۶، کتاب البیوع، بَابُ نَھْيِ الْمُشْتَرِي عَنْ بَیْعِ مَا اشْتََرَاہُ قَبْلَ قَبْضِہِ)۔
اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز گو اس نے اسے خرید لی ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی سے فروخت نہ کرے ۔
۷۔ تجارتی معاملات باہمی رضامندی سے طے کرنا: بیع و شراء کے انعقاد کے بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کے باہمی رضامندی سے طے کیا جائے؛ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے ، اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی کیوں کہ فرمان الٰہی ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔۔الآیۃ}۔ (ترجمہ): ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو (تو وہ جائز ہے)‘‘۔ ( النّسآء: ۲۹)۔ نبی کریم ﷺ کا بھی ارشاد ہے: ’’إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ‘‘ یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، رقم ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔
آپؐ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ أَنْ یَأْخُذَ عَصَا أَخِیْہِ بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ مِنْہُ‘‘ یعنی ’’کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،بابُ ذِکْرُ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلٰی أَنَّ قَوْلَہُ ﷺ: إِنَّ أَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ أَرَادَ بِہٖ بَعْضَ الْأَمْوَالِ لَا الْکُلَّ، رقم ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)۔
یہ حدیث اس معاملے میں یعنی بغیررضامندی کے کسی بھایٔ کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ وہ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہوں گی۔ اس لئے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ لینے والوں یا کھانے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور مصنوعی نہیں۔ نہ اس میں جبر کا پہلو شامل ہو جیساکہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا ، نہ غلط تاثرات اس کی بنیاد بنے اور نہ ہی دھوکہ اور فریب کہ چیز کی حقیقت یا بازار میں اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو تو اسے بازار کی در (Rate) یا مروجہ در سے بہت کم پر خریدنا اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں کیوں کہ یہ بات یقینی ہے مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم در پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا جب کہ شارع کی منشاء قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ ہاں اس سلسلے میں معمولی کمی بیشی کا اعتبار نہیں، البتہ ہمارے دیار میں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے وہ یقینا ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیوں کہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے کے خلاف ہے جو کہ دین کی اصل اسپرٹ ہے۔
۸۔ خریدار کو صحیح مشورہ دینا : تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکاندار یا تاجر سے ہی مشورہ طلب کرتا ہے، ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو مناسب مشورہ دے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ ‘‘یعنی ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، باب اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ، رقم ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)۔ یعنی اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے اور جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں کیوں کہ یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے کہ ایک شخص نے آپ پر بھروسہ کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لئے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے، اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر بھروسہ رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا اور اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا جو انجام کار اس کے لئے ہی مفید ثابت ہوگا۔
۹۔ قیمت متعین کرنا اور اسے مجہول نہ رکھنا: بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن یعنی قیمت دونوں معلوم اور معیّن ہوں نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی کیوں کہ فقہاء نے بیع کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (۱۳۷۲ – ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: ’’والبیعُ نقلُ مِلکٍ إِلی الغیر بثمنٍ‘‘۔ یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری للحافظ ابن حجر العسقلانیؒ ، دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، ۲۰۱۳ء، جلد ۷، صفحہ ۵)۔
گزشتہ صدی کے مشہور و معروف فقیہ السید سابق مصریؒ (۱۹۱۵ – ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف فقہ السنۃ، جس کی تألیف پر انہیں سنہ ۱۹۹۴ء میں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا، میں بیع کی تعریف میں یوں رقمطراز ہیں: ’’و یراد بالبیع شرعًا؛ مبادلۃ مال بمال علٰی سبیل التراضي، أو نقل ملک بعوض علی الوجہ المأذون فیہ‘‘ یعنی ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ ، تألیف السید سابق، دارالحدیث، القاہرہ، ۲۰۰۴ء، صفحہ ۸۹۸)۔
اس لئے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کئے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے ۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپسی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں گے جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate) رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دینا کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہوجو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اس لئے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔ ہاں یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے ۔
۱۰۔ ادھار معاملات کو ضبط تحریر میں لانا: یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے ضبط تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائیگی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے، مثلاً یہ کہ ادائیگی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میںہوگی وغیرہ۔ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے سے کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ نہ ہموار ہو۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد باری ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ}۔ (ترجمہ): ’’ اے ایمان والو! جب تم معین میعاد کے لئے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو‘‘۔ (البقرۃ: ۲۸۲)۔ آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَلَا تَسْئَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰٓی اَجَلِہِ ذَالِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّھَادَۃِ وَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَرْتَابُوْٓا}۔ (ترجمہ): ’’ اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑوگے ‘‘۔ (البقرۃ: ۲۸۲)۔
اس لئے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لئے حق کی ادائیگی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگا۔ ہمارے دیار میں عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں جو بسا اوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے جس کے نتیجے میں اعتماد بھی مجروح ہوجاتا ہے اور تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کیس اور مقدمے بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لئے ہمیںاللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ میعار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدہ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعاد معین سے پہلے ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ہی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرے بلکہ حسن ادائیگی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائیگی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے، اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ سود کے زمرے میں داخل ہے۔
۱۱۔ کم منافع پر اکتفا کرنا: مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ وہ کم منافع پر اکتفا کریں اور اپنی تجارت میںجذبۂ احسان کو پیش نظر رکھیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ ۔۔الآیہ، النحل: ۹۰} یعنی ’’بے شک اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘ اور فرمایا: {اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ؛ الاعراف: ۵۶}یعنی ’’بے شک اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘۔ اس لئے ضرورت مند خریدار اگر اپنی ضرورت کے تحت زیادہ نفع دینے پر بھی تیار ہو تو بھی جذبہ احسان کا تقاضہ یہ ہے کہ زیادہ نفع نہ لے۔ کم نفع لے کرزیادہ مال فروخت کرنا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے تجارت کافی اوپر اٹھ جاتی ہے۔ سلف صالحین کی عادت مبارکہ بھی یہی تھی کہ کم نفع پر زیادہ مال فروخت کرنے کوزیادہ نفع حاصل کرنے کے انتظار سے زیادہ مبارک سمجھتے تھے۔ حضرت علی ؓ کوفہ کے بازار میںچکر لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے لوگو! تھوڑے نفع کو نہ ٹھکراؤکہ زیادہ نفع سے بھی محروم ہوجاؤگے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے جن کا ذکر اوپر گزرا، ایک بار لوگوں نے پوچھاکہ آپ کس طرح اتنے دولت مند ہوگئے؟ تو انھوں نے فرمایاکہ میں نے تھوڑے نفع کو بھی کبھی رد نہیں کیا۔ جس نے بھی مجھ سے کویٔ جانور خریدنا چاہا میں نے اسے روک کر نہ رکھا بلکہ فروخت کردیا۔ ایک دن ایک ہزار اونٹ اصل قیمت خرید پرفروخت کردئے اور بجز ہزار رسیوں کے کچھ نفع حاصل نہ کیا۔ پھر ہر ایک رسّی ایک ایک درم سے فروخت کی اور اونٹوں کے اس دن کے چارہ کی قیمت ایک ہزار درہم میرے ذمے سے ساقط ہوگئی، اس طرح دو ہزار درم کا مجھے منافع حاصل ہوا۔ (کیمیای سعادت ، صفحہ ۲۸۰)۔
یہ ہے تجارت میں ترقی کا راز! لیکن اس سلسلے میں ہمارے یہاںبڑی بے صبری پایٔ جاتی ہے۔ ہم چند دنوں میں ہی لاکھ پتی اور کروڑ پتی بن جانا چاہتے ہیںجس کا نقصان سامنے آکر رہتا ہے جبکہ بعض دوسری قوموں نے اس پالیسی کو اپنا لیاہے اور وہ اس کا خوب پھل کھارہے ہیں۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ گو تاجر کو اپنی چیزوں کا نرخ (Rate) مقرر کرنے کا حق ہے اور فطری اصول و ضوابط کے تحت قیمتوں میں اضافہ کرنا بھی درست ہے لیکن اتنا اضافہ جو غیرمعمولی، غیر فطری، غیر مناسب اور غیرمنصفانہ ہو اور جس سے صارفین کے استحصال کی صورت پیدا ہوتی ہو درست نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت وقت کو اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے اور عوام کو تاجروںکے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقمطراز ہیں: ’’فَاِن رُؤِی منھم جورٌ ظاھر، لَا یَشُکُّ فیہ النّاس، جاز تغییرُہ، فاِنہ من الاِفساد في الأرض‘‘۔ (ترجمہ): ’’اگر ان (تاجروں) کی طرف سے (قیمتوں کے تعین میں) کھلا ظلم دکھائی دے جس میں لوگ شک نہ کریںتو ان (قیمتوں) میں تبدیلی (یعنی کنٹرول) جائز ہے کیوں کہ یہ (غیر مناسب بھاؤ بڑھا دینا) فساد فی الارض ہے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ ، دار احیاء العلوم، بیروت، ۱۹۹۰ء، جلد ۲، صفحہ ۳۰۱)۔
مذکورہ عبارت کی تشریح میں مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری لکھتے ہیں: ’’اگر تاجروں کی طرف سے عام صارفین پر زیادتی ہورہی ہو، اور زیادتی ایسی واضح ہو کہ اس میں کوئی شک نہ ہو، تو قیمتوں پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ایسے وقت بھی تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا اللہ کی مخلوق کو تباہ کرنا ہے‘‘۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ ، مکتبہ حجاز، دیوبند، ۲۰۰۳ء ، جلد ۴، صفحہ ۵۹۸)۔
اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ وہ قیمتوں کے تعلق سے بازار میں ایسی نامناسب صورتحال پیدا نہ کریں جو عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہو اور حکومت وقت کے لئے مداخلت کا جواز فراہم کرے۔
۱۲۔ دھوکا دہی سے پرہیز کرنا: تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو کسی قسم کا دھوکا نہ دے کیوں کہ یہ خدمت اور حاجت روایٔ کے جذبہ کے خلاف تو ہے ہی، دیانت داری کے بھی خلاف ہے۔ اس لئے اگر اس کے سامان میں کسی قسم کا عیب ہو تو اس کو نہ چھپائے بلکہ سچایٔ کے ساتھ بیان کردے، اگر چھپائے گا توخیانت اور ظلم کا مرتکب ہوگا اور ایسی صورت میں خریدار کو شریعت کی رو سے یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ تاجر کو عیب دارمال واپس کردے اور اپنی رقم لے لے۔ عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’الْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ‘‘۔ (ترجمہ): ’’مسلمان مسلمان کابھایٔ ہے اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیںکہ اپنے بھایٔ کے ہاتھ کویٔ ایسی چیز فروخت کرے جس میں کوئی عیب ہو، الا یہ کہ اس کے سامنے اس (عیب) کو ظاہر کردے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،مَنْ بَاعَ عَیْبًا فَلْیُبَیِّنْہُ، رقم ۲۲۴۶)۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیںکہ غیر مسلموں کو دھوکا دینا جائز ہے؟ یہاںمسلمان کا ذکر خصوصاً اس لئے فرمایا کہ مسلمان گاہک کاایک مسلمان تاجر پردو حق عائد ہوتا ہے، ایک گاہک ہونے کی حیثیت سے اور دوسرا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ، اس لئے اس کو دھوکا دینا بہ نسبت ایک غیر مسلم گاہک کو دھوکا دینے کے زیادہ برا ہے کیونکہ یہاںدو حقوق کی تلفی ہے ورنہ خیانت اور ظلم کسی کے ساتھ بھی روا نہیں۔ چنانچہ روایتوں میں بلا کسی تخصیص کے بھی اس عمل پر نکیر موجود ہے۔ مثال کے طور پر اس روایت کو ملاحظہ کیجئے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (بازار میں) غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے، آپؐ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر داخل کردیا تو آپؐ کی انگلیوں نے گیلاپن محسوس کیا۔ پس آپؐ نے فرمایا: اے غلے کے مالک ! یہ کیا ہے (یعنی یہ تری اور نمی کیسی ہے)؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اس پر بارش کی بوندیں پڑگئی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا : تو تم نے اس (بھیگے ہوئے غلے) کو ڈھیری کے اوپر کیوں نہیں کردیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے ؟ (یاد رکھو!) جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قَولِ النَّبِیِّ ﷺ: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا)۔
امام سلیمان بن احمد طبرانیؒ نے اس روایت کے آخری اور کلیدی فقرے کو عبداللہ ابن مسعودؓ سے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ اس طرح روایت کیا ہے: ’’مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِي النَّارِ‘‘۔ یعنی جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں اور دغابازی اور فریب کا انجام جہنم ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانیؒ، رقم ۱۰۲۳۴)۔
لہٰذا ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ چند سکّوں کی خاطراپنی آخرت کو داؤ پر نہ لگائے اور یہ یقین رکھے کہ چالبازی سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا مال سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ایسے شخص کی خیانت دھیرے دھیرے لوگوں میں مشہور ہوجاتی ہے اور گاہک اس سے گریز کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجہ میںاس کا کاروبار بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے بجائے دھوکا دینے کے دیانت داری کے ذریعے گاہکوں کو اپنے اعتماد میں لینے کی سعی کرنا چاہیے اور سامان میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے واضح کردینا چاہیے تاکہ ان کو یہ یقین اور اطمینان ہو جائے کہ آپ انہیں کبھی دھوکا نہیںدے سکتے۔ بعض تاجر اپنے سامان کا نقص ظاہر نہیں کرتے بلکہ خریدار سے ہی یہ کہتے ہیں کہ آپ خود اچھی طرح دیکھ لیں، اگر بعد میں کوئی نقص نکلا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے حالانکہ یہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ سامان میں کس قسم کا نقص ہے۔ یہ طریقہ بھی خلاف شریعت ہے کیوں کہ شارع نے عیب کو ظاہر کرنے کی ذمے داری تاجر پر ڈالی ہے جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کردہ عقبہ بن عامرؓ کی روایت سے واضح ہے۔ ساتھ ہی تجارت کا نفع صرف اس شخص کے لئے جائز بتایا گیا ہے جو سامان کے بے عیب اور کارآمد ہونے کی ضمانت (Guarantee) دے، جو شخص یہ ذمے داری نہیں لے سکتا اس کے لئے اس چیز کا منافع درست نہیں۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یُضْمَنُ‘‘ یعنی ’’حلال نہیں نفع اس کا جس کا وہ (تاجر) ضامن نہیں‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، بَابُ مَاجَآئَ فِي کَرَاھِیَۃِ بَیْعِ مَا لَیسَ عِنْدَکَ، رقم ۱۲۳۴، بروایت عبداللہ بن عمروؓ)۔
نبی کریم ﷺ سے ایک غلام یا لونڈی کی بیع میں ایک خریدار کو تحریری ضمانت کا دیا جانا حدیث کی کتابوں میں منقول ہے۔ یہ خریدار عداء بن خالدؓ تھے جن کو یہ تحریر لکھ کر دی گئی تھی: ’’ھٰذَا مَا شْتَرَی الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدِ بْنِ ھَوْذَۃَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، اشْتَرَی مِنْہُ عَبْدًا أَوْ أَمَۃً، لَا دَائَ وَلا غَائِلَۃَ وَلَا خَبِثَۃَ، بَیْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ‘‘ یعنی ’’یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے اللہ کے رسول محمد ﷺ سے خریدی ہے، انہوں نے آپؐ سے ایک ایسا غلام یا لونڈی خریدی ہے جس میں نہ تو کوئی بیماری ہے، نہ بھگوڑاپن اور نہ ہی کوئی (اور) خباثت (یعنی اخلاقی برائی)، یہ ایک مسلمان کی مسلمان کے ساتھ بیع ہے ‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، بَابُ مَاجَآئَ فِي کِتَابَۃِ الشُّرُوطِ، رقم ۱۲۱۶، بروایت عداء بن خالدؓ)۔
رسول اللہ ﷺ کا اس قسم کی تحریر لکھ کر دینا امت کی تعلیم کے لئے ہی تھا ورنہ صحابہ کرامؓ میں سے کون ایسا فرد ہوگا جسے آپؐ کی باتوں پر اعتماد نہ ہو۔ آج کے دور میں رسید اور وارنٹی کے کاغذات (Warranty Paper) کا دیا جانا تعلیم نبویؐ کی رو سے ایک مستحسن عمل ہے جس میں اس بات کی گنجائش موجود رہتی ہے کہ بعد میں سامان میں کوئی نقص سامنے آجائے تو خریدار ثبوت کے ساتھ فروخت کنندہ یا اس کی کمپنی سے رجوع کرسکے ۔
یہاں یہ ذکر کردینا بھی مناسب ہے کہ تجارت کی بعض شکلیں ایسی ہیں جن میں فی نفسہ دھوکا موجود ہوتا ہے جیسے پانی میں موجود مچھلی کی بیع کہ اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں میں سے کسی فریق کو حتمی طور پر یہ پتا نہیں ہوتا کہ اس میں مچھلی کی مقدار کتنی ہے لہٰذا ہر ایک فریق کے دھوکا کھا جانے کا امکان ہے ۔ اس طرح کی بیع جس میں بیچی جانے والی چیز اپنی جنس، ذات، مقدار اور اوصاف کے لحاظ سے مبہم اور مجہول ہو، متعین اور واضح نہ ہو یا بیچنے والے کے قبضہ و قدرت سے باہر ہو اور اس کی سپردگی ممکن نہ ہو، اس کو شریعت کی اصطلاح میں بیع غرر (Deceptive Transaction) کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری مثالیں ہیں؛ غائب جانور یا فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، دودھ کی بیع جو جانور کے تھن میں ہی ہو وغیرہ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ’’نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ بَیْعِ الْحَصَاۃِ وَ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ‘‘ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے بیع حصات اور بیع غرر سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بُطْلَانِ بَیْعِ الْحَصَاۃِ، وَالْبَیْعِ الَّذِي فِیْہِ غَرَرٌ)۔ یہاں بیع حصات سے مراد وہ بیع ہے جو کنکری پھینک کر طے کی جائے۔ یہ بھی دھوکے کی ایک شکل ہے اس لئے ممنوع ہے۔
دودھ دینے والے جانوروں کی بیع میں بھی دھوکے کی ایک صورت اس طرح پیدا کی جاتی ہے کہ گاہک کے سامنے پیش کرنے سے ایک یا دو روز قبل سے ہی اس کا دودھ دوہنا بند کردیتے ہیں تاکہ اس کے تھن بھرے نظر آئیں اور گاہک یہ تاثرلے کہ جانور بہت زیادہ مقدار میںدودھ دینے والا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ گاہک مغالطہ میں آکر معاملہ کرلیتا ہے لیکن ایک سے دو دنوں میں ہی حقیقی صورتحال اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی بیع کو شرعی اصطلاح میں ’’بیع مصراۃ‘‘ کہا گیا ہے جو کہ ممنوع ہے اور اس کے نتیجے میں دھوکا کھائے ہوئے خریدار کو شریعت نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ بیع کو فسخ کردے اور جانور واپس کرکے اپنی رقم لے لے۔ اس اختیار کو شرعی اصطلاح میں ’’خیا ر تدلیس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ لَا تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَھَا بَعْدُ فَإِنَّہُ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ بَعْدَ أَنْ یَحْتَلِبَھَا: إِنْ شَائَ أَمْسَکَ، وَ إِنْ شَائَ رَدَّھَا وَصَاعَ تَمْرٍ‘‘ یعنی ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو، اگر کسی نے (دھوکہ میں آکر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں؛ چاہے تو جانور کو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دیدے‘‘ ۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ النَّھْيِ لِلْبَائِعِ أَنْ لَا یُحَفِّلَ الْاِبِلَ وَالْبَقَرَ وَالْغَنَمَ وَکُلَّ مُحَفَّلَۃٍ، رقم ۲۱۴۸، بروایت ابوہریرہؓ)۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق لوٹانے کا یہ اختیار خریدار کو تین دنوں تک ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’مَنِ ابْتَاعَ شَاۃً مُصَرَّاۃً فَھُوَ فِیْھَا بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، إِنْ شَائَ أَمْسَکَھَا وَ إِنْ شَائَ رَدَّھَا، وَرَدَّ مَعَھَاصَاعًا مِّنْ تَمْرٍ‘‘ یعنی ’’جس نے ایسی بھیڑ (یا بکری ) خرید لی جس کا دودھ روکا گیا ہو، تو اسے تین دن تک اس کے بارے میں اختیار ہے، اگر چاہے تو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور اگر لوٹائے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے‘‘ ۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، بابُ حُکْمِ بَیْعِ الْمُصَرَّاۃِ، رقم ۳۸۳۱؍۲۴، بروایت ابوہریرہؓ)۔
ایک صاع کھجور (جو احناف کے نزدیک ۳؍کلو، ۱۴۹؍گرام، ۲۸۰؍ملی گرام اور علمائے اہل حدیث کے نزدیک تقریباً سوا دو کلوبنتا ہے) کے ساتھ جانور اس کے مالک کو لوٹانے کا حکم غالباً اس لئے دیا گیا ہے کیوں کہ خریدار نے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھایا ہے اور بعضوں نے یہ کہا کہ یہ از راہ احسان یا تالیف قلب کے لئے ہے کیوں کہ دودھ کے لئے تو خریدار نے جانور کو چارہ بھی ڈالا ہوگا اور الخراج بالضمان کے اصول کے مطابق حساب تو برابر ہوچکا۔ اور کھجور کی تخصیص اس لئے کی گئی کیوں کہ یہ اس وقت وہاں کی عام غذا تھی، اس لئے یہ کویٔ ضروری نہیں کہ ایک صاع کھجور ہی دیا جائے بلکہ ہر زمانے میں اپنے اپنے ملکی دستور کے مطابق خوردنی غلہ اسی وزن سے یا اس کی قیمت کے برابر رقم بھی دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح درختوں اور باغات کو پھلوں کے نمودار ہونے سے پہلے ان کی امید پر ایک سال یا زیادہ مدت کے لئے بیچنا بھی ممنوع ہے کیوں کہ اس بات کا امکان ہے کہ درختوں میں پھل نہ آئے یا آنے کے بعد پختگی سے پہلے ہی کسی آفت مثلاً آندھی، بارش یا اولے کا شکار ہوجائے۔ اس طرح کی بیع کو حدیث میں ’’معاومت‘‘ کہا گیا ہے اور اس سے روکا گیا ہے، نیز پھل لگنے کے بعد بھی اس وقت تک خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے جب تک ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے: ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْثِّمَارِ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُھَا، نَھَی الْبَائِعَ وَالْمُبْتَاعَ‘‘۔یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے پھلوںکی بیع سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان کی پختگی ظاہر ہوجائے ، یہ ممانعت بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے لئے ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب بَیْعِ الْثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ یَبْدُوَ صَلَاحُھَا، رقم ۲۱۹۴)۔ دوسری روایت انسؓ سے یوں ہے: ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْثِّمَارِ حَتّٰی تُزْھِيَ، فَقِیْلَ لَہُ: وَمَا تُزْھِيَ؟ قَالَ: حَتّٰی تَحْمَرَّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أَرَأَیْتَ إِذَا مَنَعَ اللّٰہُ الثَّمَرَۃَ، بِمَ یَأْخُذُ أَحَدُکُمْ مَالَ أَخِیْہِ‘‘۔ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے ’’زھو‘‘ سے پہلے پھلوںکی بیع سے منع فرمایا ہے، ان سے دریافت کیا گیا کہ ’’زھو‘‘ کسے کہتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہاں تک کہ سرخ ہوجائے (یعنی پکنے پر آجائے)، پھر آپؐ نے فرمایا: ’’ تم ہی بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (یعنی پکنے سے روک دے یا کسی آفت کے ذریعے ضائع کردے) تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس بناپر لے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابٌ إِذَا بَاعَالْثِّمَارَ قَبْلَ أَنْ یَبْدُوَ صَلَاحُھَا ثُمَّ أَصَابَتْہُ عَاھَۃٌ فَھُوَ مِنَ الْبَائِعِ، رقم ۲۱۹۸)۔
اس لئے باغات کے مالکوں اور پھلوں کے تاجروں کو چاہیے کہ وہ پھلوں کے پختہ و تیار ہونے تک صبر و انتظار کریں اور اس کے بعد ہی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کریں۔
۱۳۔ جھوٹ سے پرہیز کرنا: تجارت میں جھوٹ سے بھی پرہیز لازمی ہے۔ دور حاضر کی تجارت میں لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ غیروں کی تو بات ہی کیا بعض سادہ لوح مسلمان بھی ایسا خیال رکھتے ہیں۔ خود راقم سے ایک بار ایک صاحب نے ان خیالات کا اظہار کیاجس کی بندہ نے اصلاح کی۔ یاد رکھیں کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا اعلان قرآن کریم میں موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْن}(اٰل عمران:۶۱)۔ رسول پاکؐ سے بھی دروغ گویٔ کی مذمت میں بہت سے اقوال منقول ہیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اس کو منافقین کی صفت بتایا ہے۔ دنیا میں اس کے بھی وہی نقصانات سامنے آتے ہیںجو راقم نے عنوان بالا کے تحت بیان کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اس روایت کو دیکھیں: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ بیع و شرا کرنے والے فریقین (بائع اور مشتری ) کو اختیار ہے (فسخ بیع کا) جب تک جدا نہ ہوںپھر اگر وہ دونوںسچ بولیں اور واضح کر دیں حقیقت کو (یعنی جو کچھ عیب ہے سامان میںیا قیمت میں) توان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولیںاور چھپائیں (عیوب کو) تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، بابُ الصِّدْقِ فِي الْبَیْعِ وَالْبَیَانِ)۔
اس طرح جھوٹ کانتیجہ تجارت میں بے برکتی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو پھر یہ کھلی ہوئی بات ہے ان کی تجارت کو کبھی فروغ نہ ہوگا جو جھوٹ کی لعنت سے اپنی تجارت کو پاک نہیں کرتے۔ یہ تو دنیا کا نقصان ہے، اب ذرا آخرت سے متعلق وعید بھی ملاحظہ کیجئے۔ حضرت رفاعہ بن رافع انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے (اپنی تجارت میں)تقوی اور نیکی اورسچایٔ کی روش اختیار کی‘‘۔ (سنن ترمذی،کتاب البیوع، باب مَاجَآئَ فِي التُّجَّارِ وَ تَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ ﷺ إِیَّاھُم، رقم ۱۲۱۴)۔ اب اگر کویٔ قیامت میں فاسق و فاجراٹھایا جائے تو اس کا جو حشر ہوگا اسے بہ آسانی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اللہم احفظنا منھم۔ اس سلسلے میں ایک بات اور ذہن نشیں رہنا ضروری ہے کہ کسی سامان کی اصل نوعیت سے زیادہ تعریف بھی جھوٹ میںشامل ہے لہٰذا اس سے بھی پرہیز لازم ہے۔
۱۴۔ قسم کھانے سے اجتناب کرنا : کچھ تاجروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لئے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں، رسول اکرمؐ نے اس سے بھی منع فرمایاہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’إِیَّاکُمْ وَ کَثْرَۃَ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، فَإِنَّہُ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحَقُ‘‘ یعنی ’’ تم بیع میںبہت قسمیں کھانے سے اجتناب کرواس لئے کہ وہ (اولاً) مال کو تو نکلوادیتی ہے (فروخت کروادیتی ہے) پھر مٹادیتی ہے ( اس کی برکت کو)۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوقتادہؓ)۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ فرماتے تھے: ’’الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلرِّبْحِ‘‘ یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں) نفع کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ النَّھْيِ عَنِ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’الْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْبَرَکَۃِ‘‘ یعنی ’’قسم مال کو نکالنے والی ہے اور (بعد ازاں) برکت کو مٹانے والی ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع،بابٌ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَوٰاْ وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ، رقم ۲۰۸۷ )۔
ان حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ قسم کھانے سے گرچہ ابتدا میں خریدار بھروسہ کرلیتاہے اور مال نکل جاتا ہے لیکن آئندہ نفع مٹ کرنقصان لاحق ہوتا ہے اور دکان برباد ہوجاتی ہے کیوں کہ دھیرے دھیرے لوگ اس کی اس عادت سے واقف ہوجاتے ہیں اور اس کی قسموں پر یقین کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری برایٔ اس میں یہ ہے کہ دنیوی مفاد اور معمولی نفع کی خاطر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بابرکت نام کو بیچا جاتا ہے جو کہ ایک طرح سے اس کے پاکیزہ نام کی بے حرمتی ہے اور غالباً اسی وجہ سے اس کی برکت بھی ختم ہوجاتی ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے آگاہ کردیاہے ۔
یہ سب نقصانات تو تب ہیں جب کہ قسم سچی ہو، اگر جھوٹی قسم کھایٔ تو اور بھی برا ہے۔ علماء نے اسے گناہ کبیرہ بتایا ہے۔ رسول پاکؐ سے بھی اس سلسلے میں سخت وعید مروی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف (نظر کرم سے) دیکھے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان (تینوں) کے لئے دردناک عذاب ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ کون شخص ہیں؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارے میں پڑگئے ۔ آپؐ نے فرمایا؛ اپنے ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، اپنی عطا کردہ چیزوں پر احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال تجارت فروخت کرنے والا۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب التجارات،بابُ مَاجَآئَ فِي کَرَاھِیَۃِ الْأَیْمَانِ فِي الشِّرَائِ وَالْبَیْع، رقم ۲۲۰۸)۔
۱۵۔ جعلی کرنسی چلانے سے پرہیز کرنا : جعلی نوٹ چلانے کا رواج بھی آج کی تجارت میںزوروں پر ہے۔ بعض لوگ منظم ڈھنگ سے اس دھندے کو چلارہے ہیں اور بعض نادانی میں اس کا شکار ہورہے ہیں۔ جو لوگ اس سازش کا شکار ہوجاتے ہیںوہ بھی اپنے نقصان کی تلافی کے لئے کسی دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح فریب دہی کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ فریب دہی کی مذمت تو سطور بالا میں کی جاچکی ہے لیکن یہ چونکہ اس کی بدترین صورت ہے اس لئے اس کے چند خاص پہلوؤں کا ذکر یہاں ایک مستقل عنوان کے تحت کیا جارہا ہے۔ ایک تو اس عمل کے ذریعہ دوسرے کا مال بالکل ناحق اور باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری عز اسمہ ہے: {وَ لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ باِلْبَاطِلِ۔۔۔۔الآیۃ۔ البقرۃ:۱۸۸} یعنیآپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ اس لئے ایسے پیسوں سے حاصل کیا گیا مال بالکل حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس اصول کے تحت کہ جس نے کسی گناہ کا کام جاری کیااس کو ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ حصہ میں آئے گا جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے ، بازار میں جعلی کرنسی چلانے والے کو بھی ان تمام لوگوں کے گناہ کے برابرگناہ ملے گا جو سلسلے کے اخیر تک اس میں شریک ہوں گے اور جو درمیان میں شامل ہوا اس کے ذمہ بھی اس کے بعد والوں کے گناہ کے برابر گناہ ہوگا۔ اسی لئے امام غزالیؒ نے کسی بزرگ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ ایک کھوٹا درم بازار میں چلانا سو درم چُرانے سے بدتر ہے کیوں کہ چوری کا گناہ تو اسی وقت تک ہے جبکہ کھوٹے پیسے یا جعلی کرنسی چلانے کا گناہ ممکن ہے موت کے بعد تک جاری رہے اور وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جو خود تو مرجائے مگر اس کا گناہ نہ مرے اور اس گناہ کا سینکڑوںبرس تک دنیا میں موجود رہنا ممکن ہے اور ایسے شخص کو جس نے اس کی ابتدا کی قبر میں عذاب ہوتا رہے گا۔ اس لئے ان کی رائے میں تاجر کے لئے کھوٹے سکے اور جعلی نوٹ کو پہچاننے کاہنر جانناواجب ہے ، یہ اس لئے نہیں کہ وہ خود دھوکا نہ کھائے بلکہ اس لئے کہ لاعلمی میں وہ کسی اور کو دھوکا نہ دیدے۔ اگر کویٔ خود دھوکا کھاجائے تو اسے چاہیے کہ خود اپنے نقصان پر صبر کرلے اور اس نوٹ کو ضائع کردے تاکہ اس کے بعد فریب دہی کا یہ سلسلہ جاری نہ رہے ۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۷۴)۔
۱۶۔ ماپ تول کر لین دین کرنا : تاجروں کونبی کریمؐ کی تعلیم یہ بھی ہے کہ وہ خرید و فروخت میںچیزوں کا تبادلہ ماپ تول کر ہی کریں۔ حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایاکہ جب تو کوئی چیز بیچا کرے تو ماپ کے دیا کر اور جب تو کوئی چیز خریدے تو اسے بھی مپوا لیا کر۔ (صحیح بخاری،کتاب البیوع، بَابُ الْکَیْلِ عَلَی الْبَائِعِ وَالْمُعْطِي)۔رسول اکرمؐ کے اس ارشاد میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں؛ ایک تواس سے دھوکا دھڑی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اوردوسرے اس میں مستقبل میں رونما ہونے والے آپس کے اختلافات اور فتنوں سے حفاظت ہے۔ ساتھ ہی ایسے لین دین میں برکت کی بشارت بھی ہے۔ حضرت مقدام بن معدیکربؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے اناج کو ماپ لیا کرو، اس میں تم کو برکت ہوگی ‘‘۔ (صحیح بخاری،کتاب البیوع، بابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْکَیْلِ، رقم ۲۱۲۸)۔ اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ اپنی تجارت میں اس اصول کا پورا لحاظ رکھیں۔ ہاں جو چیزیںہمارے دیار میں تول کر نہیں بلکہ گنتی سے فروخت ہوتی ہیں ان میں اس حکم کا اطلاق گنتی پر ہی ہوگا۔ اسی سے یہ اصول بھی اخذ ہوتاہے کہ آپس میں پیسے کا لین دین بھی گن کر ہی کرنا چاہیے۔
۱۷۔ ماپ تول میںکمی نہ کرنا : ماپ تول میں کمی کرنا بھی ایک بدترین اخلاقی بیماری ہے جو آج کے بازاری نظام میںایک وبا کی شکل اختیا ر کرچکی ہے۔ یہ بدترین قسم کی خیانت ہے کہ پیسے تو پورے لئے جائیںاور چیز کم دی جائے۔ قرآن کریم میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: {وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ھ الَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ھ وَ اِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ ھ اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکََ اَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ ھ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ ھ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ھ} (ترجمہ): ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے ماپ کرلیتے ہیں تو پورا پورالیتے ہیںاور جب انہیں ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں،کیا ایسے لوگ یہ خیال (بھی) نہیں کرتے کہ وہ (اپنے مرنے کے بعد زندہ کرکے قبروں سے) اٹھائے جانے والے ہیں ؟ ایک عظیم دن (کی پیشی) کے لئے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ‘‘۔ (المطفّفین: ۱-۶)۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میںاللہ کا خوف اور یوم آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی کا یقین نہیں۔ دوسری جگہ صحیح وزن کرنے کی تاکید ان الفاظ میں کی گئی ہے: {وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ھ}۔ (ترجمہ): ’’اور جب (کوئی چیز کسی کو)ماپ کر دینے لگو توبھرپور پیمانے سے ماپو اور (جب تول کر دو تو) سیدھی ترازو سے تولا کرو، یہ (فی نفسہ بھی) بہترہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے‘‘۔ (بنیٓ اسرآء یل: ۳۵)۔ اس میں ایک بہتری تو اجر و ثواب کے لحاظ سے ہے جس کا انجام جنت ہے اور دوسری بہتری تجارت کے فروغ کے اعتبار سے ہے کہ ناپ تول میں دیانت داری سے گاہکوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور تجارتی تعلقات زیادہ دنوں تک استوار رہتے ہیں۔
ٍٍ ان دو کے علاوہ قرآن کریم میں چند دیگر مقامات پر بھی ماپ تول میںدیانت داری اختیار کرنے کی تاکید ملتی ہے مثلاً الانعام: ۱۵۲، الرحمٰن: ۷ – ۹، الاعراف: ۸۵، ھود: ۸۴ – ۸۶ وغیرہ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سورۃ الاعراف اور سورۃ ھود کی مذکورہ آیات میں یہ ہدایت شعیب علیہ السلام کے تذکرہ میں ملتی ہے کیوں کہ ان کی قوم میں بھی یہ برایٔ عام تھی جس کے اصلاح کی فکر شعیبؑ نے کی لیکن جب وہ نہیں مانے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی نازل ہوا۔ اسی لئے رسول اکرمؐ نے اپنی امت کو اس سے متنبہ فرمایاکہ اس لعنت میں گرفتار ہوکر کہیں وہ بھی غضب الٰہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ آپؐ نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا: ’’تم لوگ دو ایسے کام کے ذمے دار بنائے گئے ہو (یعنی ماپنا اور تولنا) جن میں (کوتاہی کے سبب) تم سے پہلے کی (بعض) امتیںہلاک ہوگئی ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب البیوع،بَابُ مَاجَآئَ فِي الْمِکْیَالِ وَالْمِیْزَانِ، بروایت عبداللہ بن عباسؓ، رقم ۱۲۱۷؍ ۱۲۲۱)۔
ایک بار آپؐ نے مہاجرین صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے پانچ ایسے گناہوں پر متنبہ فرمایا جن کے ارتکاب پر کویٔ قوم دنیا میں اللہ تعالی کے عذاب کی مختلف شکلوں میں ضرور مبتلا کردی جاتی ہے اور آپؐ نے اس بات پر اللہ تعالیٰ کی پناہ بھی طلب کی کہ صحابہ کرامؓ (یا عام مسلمان) ان میں مبتلا ہوں جس میں آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب کویٔ قوم ماپ اور تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ (حکمران وقت) کے ظلم و ستم میں مبتلا کردی جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ ، کِتَابُ الْفِتَنِ،بابُ الْعُقُوبَاتِ، بروایت عبداللہ بن عمرؓ، رقم ۴۰۱۹)۔ اس لئے ایک مومن تاجر کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں احتیاط برتے، دیانت داری کا رویہ اپنائے اور چند سکوں کی خاطر اللہ واحد القہار کے عذاب کا خود کو مستحق نہ بنائے۔
۱۸۔ جُھکتی ڈنڈی تولنا: کم تولنے کو اسلام میں جہاں ناپسند کیا گیا ہے وہیں جھکتا تولنے کو پسند کیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ایثار اور احتیاط دونوں ہی پہلو شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ سے اس سلسلے میں ہدایات بھی منقول ہے۔ سوید بن قیسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور مخرفہ عبدی نے (بحرین کے ایک شہر) ہَجَرسے کچھ کپڑے خرید ے اور اسے (بیچنے کی خاطر) مکہ لے کر آئے تورسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پیدل تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ کا سودا کیا جو ہم نے آپؐ کے ہاتھ فروخت کردیا اور وہاں ایک شخص تھا جو اجرت لے کر مال وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’زِنْ، وَ أَرْجِحْ‘‘ یعنی ’’وزن کرو اور جھکتی ڈنڈی تولو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، بَابُ فِي الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ وَالْوَزْنِ بِالْأَجْرِ، رقم ۳۳۳۶)۔ دوسری روایت حضرت جابرؓ سے ملتی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا‘‘ یعنی ’’ جب تم تولو تو جھکتا ہوا تولو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ، رقم ۲۲۲۲)۔ ان احادیث کی بنیاد پرعلماء نے جھکتی ڈنڈی تولنے کو مستحب کہا ہے۔ اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ کسی کو سامان دیتے وقت اس اصول کو بھی مد نظر رکھیں۔
۱۹۔ ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرنا: تجارت میں زیادہ نفع خوری کے لئے ایک حربہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کردیجاتی ہے جس سے مہنگایٔ بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر گراں بازاری کے اس موقعہ سے ذخیرہ اندوز تجار خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اس عمل کو احتکار کہا جاتا ہے جو شرعی نقطہ نظر سے حرام اور انتہایٔ ناپسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اس میںانسانوں کی خدمت اور حاجت روایٔ کے جذبہ کے بجائے ضرر رسانی اور استحصال کا جذبہ داخل ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنِ احْتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیئٌ‘‘ یعنی ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ تَحْرِیْمِ الاِحْتِکَارِ فِي الْأَقْوَات، بروایت معمر ؓ بن عبداللہ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیئٌ‘‘ یعنی ’’گناہ گار کے سوا کوئی اور شخص ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا‘‘۔ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمُسَاقَاۃِ وَالْمُزَارَعَۃِ، بابُ تَحْرِیْمِ الاِحْتِکَارِ فِي الْأَقْوَاتِ، بروایت معمرؓ بن عبداللہ)۔
آپؐ کایہ بھی ارشاد ہے: ’’الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُونٌ‘‘ ’’جالب (یعنی دوسرے شہروںسے غلہ وغیرہ لاکر بازار میں بیچنے والا تاجر) مرزوق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے رزق دیا جاتا ہے) اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق اور اس کی رحمت سے دور ہے)‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الْحُکْرَۃِ وَالْجَلَبِ، رقم ۲۱۵۳، بروایت عمرؓ بن الخطاب)۔ آپؐ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص مسلمانوں سے غلہ کا احتکار کرتا ہے( یعنی ان سے غذائی اشیاء روک کر بعدہ گراں نرخ پران کے ہاتھ فروخت کرتاہے) اللہ تعالیٰ اسے جذام اور افلاس میں مبتلا کردیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الْحُکْرَۃِ وَالْجَلَبِ، رقم ۲۱۵۵، بروایت عمرؓ بن الخطاب)۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ کو روک رکھاوہ اللہ سے بیزار ہوا اور اللہ اس سے بیزار ہوا ۔ ( مسند احمد، رقم ۴۹۹۰، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو چالیس دن تک روکے رکھا اور پھر اسے (اللہ کی راہ میں) صدقہ کردیا تو (بھی) وہ اس کے (اس گناہ) کے لئے کفارہ نہیں ہوگا۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الاحتکار، رقم ۲۸۹۸، بروایت ابوامامہؓ)۔
مذکورہ بالا احادیث سے ذخیرہ اندوزی کی شنیعت بالکل واضح ہے۔ اس کے برعکس حاجت روایٔ کی نیت سے تجارت کرنے والے تاجر کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اناج خریدا اور کسی شہر میں لے گیااور مروجہ نرخ پرفروخت کردیا وہ ایسا ہے جیساکہ اس نے وہ سارا اناج خیرات کردیا۔(احیاء علوم الدین للغزالیؒ، صفحہ۵۱۶)۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زمانہ قدیم میں ذخیرہ اندوزی عام طور سے غلہ کی ہی ہوا کرتی تھی اس لئے مذکورہ بالا احادیث میں غلہ کا ہی ذکر ہے۔ اسی لئے احتکار کا اطلاق علماء عام طور سے غذایٔ اجناس کی ذخیرہ اندوزی پر ہی کرتے آئے ہیں۔ اس لئے ایسی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کو جو غذا یٔ ضرورت میںاستعمال نہیں ہوتی، علماء نے حرام نہیں کہا ہے۔ (مظاہر حق، جلد ۳، صفحہ۵۲۲)۔ لیکن اس سلسلے میں چند اہم نکتوں پر غور کرنا ضروری ہے؛ اول یہ کہ ذخیرہ اندوزی خواہ کسی بھی چیز کی ہو اس میں استحصال اور موقعہ پرستی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور یہ انسانی حاجت روایٔ اور نفع رسانی کے جذبہ کے خلاف ہے۔ دوئم یہ کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی لایٔ ہویٔ شریعت کے مزاج کے بھی خلاف ہے جس کا رخ یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خصوصاً غریبوں اور کم آمدنی والوں کا زندگی گزارنادشوار نہ ہو۔ اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی سے بچنا چاہیے۔ رہا علماء کا فتویٰ تو یہ جاننا چاہیے کہ فتویٰ تو ظاہر پر ہوا کرتا ہے اسی لئے امام غزالیؒ نے فرمایا: ’’و بسیار معاملت بود کہ فتوی دھیم کہ درست است، ولیکن آنکس در لعنت بود: و آن معاملتی بود کہ در آن رنج و زیان مسلمانان بود‘‘ یعنی ــــــــ ’’ بہت سے معاملات (و مسائل) ایسے ہیں جن میں فتویٰ ہم تو یہی دیں گے کہ یہ درست ہے لیکن اس معاملہ کا مرتکب (اللہ تعالیٰ کی) لعنت میں گرفتار ہوگا اور یہ وہ معاملہ ہے جس میں مسلمانوں کو تکلیف ونقصان پہنچتا ہو‘‘۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۷۲)۔
اس لئے موجودہ دور میں رائج رسویٔ گیس، کراسن تیل، ڈیزل، پٹرول، دوا وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی بھی قابل ملامت فعل ہے اور اس سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔ ہاں ایک کسان کو یہ اختیار ہے کہ اپنی زمین سے پیدا شدہ غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرے اور حسب ضروت فروخت کرے۔ اس پر جلدی فروخت کردینا لازمی نہیں لیکن اگر بازار میں اناج کی قلت ہواور عوام کو پریشانی کاسامنا ہو تو اس کے لئے بھی اولیٰ اور بہتریہی ہے کہ فروخت کرنے میںتاخیر نہ کرے۔
۲۰۔ خرید و فروخت میں نرمی کا رویّہ اختیار کرنا: یوںتو اسلام میں نرمی اور خوش خلقی کا رویہ اختیار کرنے کی عمومی تعلیم دی گئی ہے لیکن تجارت کے شعبے میں اسے خصوصاً پسند کیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایسے تاجر کے لئے جو خرید و فروخت میںنرمی کا رویہ اختیار کرتاہے، دعا فرمایٔ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتاہے‘‘۔ (صحیح بخاری ، کتاب البیوع، بابُ السُّھُوْلَۃِ وَالسَّمَاحَۃِ فِي الشِّرَائِ وَالْبَیْعِ، وَ مَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْیَطْلُبْہُ فِي عَفَافٍ، بروایت جابر بن عبداللہؓ، رقم ۲۰۷۶ )۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ؛ ’’بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے نرمی اور خوبی سے بیچنے کو، نرمی سے خریدنے کواور نرمی و آسانی سے قرض ادا کرنے کو‘‘۔ (سنن ترمذی ، کتاب البیوع، باب ماجاء في سمح البیع والشراء والقضاء ، رقم ۱۳۱۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے قبل (امت سے) تھا بخش دیا (اس لئے کہ) وہ آسانی اور نرمی کرتا تھا جب (کچھ) بیچتا تھا اور آسانی اور نرمی کرتا تھا جب (کچھ) خریدتا تھا اور آسانی اور نرمی کرتا تھا جب (قرض کی ادائیگی کا) تقاضہ کرتا تھا۔ (حوالہ سابق، رقم ۱۳۲۰، بروایت جابرؓ)۔ ایک اور روایت میں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کردیا اس شخص کوجو بیچنے اور خریدنے میں نرمی کا معاملہ کیا کرتا تھا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ السَّمَاحَۃِ فِي الْبَیْعِ، بروایت عثمانؓ، رقم ۲۲۰۲)۔
ان روایتوںکا تقاضہ یہ ہے کہ ایک مسلمان تاجر کو خرید و فروخت میںنرمی ہی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور حقیقتاً یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعہ ایک تاجر بہت کم وقفہ میںگاہکوںمیں اپنی ساکھ قائم کرسکتا ہے اور اس کی تجارت چمک سکتی ہے۔ اس طرح تجارت میں اس سنت کو اپنانے سے دنیوی اور اخروی دونوں فوائدہیں۔ لیکن افسوس کا پہلویہ ہے کہ مسلمان تاجر عام طور سے اس صفت سے خالی نظر آتے ہیں جبکہ دوسری قوموںکے تجار نے اس پالیسی کو سختی سے اپنا لیا ہے جس کے دنیوی ثمرات سے وہ مستفیض ہو رہے ہیں۔
۲۱۔ فروخت کی ہویٔ چیز واپس لینا : تجارت میںکبھی کبھی ایسی صورت بھی پیش آتی ہے کہ بیع کا معاملہ ہونے کے بعد خریدار سامان یاقیمت سے مطمئن نہیں ہونے کی وجہ سے یا کسی اور مصلحت کی وجہ سے پشیمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خریدی ہویٔ چیز کو واپس کرنا چاہتا ہے یا کبھی فروخت کرنے والا افسوس کرنے لگتا ہے کہ میں نے اتنے کم قیمت پریہ سامان کیوں فروخت کردیا اور اسے واپس لینا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں فریقین کو چاہیے کہ باہمی رضامندی سے اس معاملہ کو ختم کردیں یعنی تاجر بکاہوا سامان واپس لے لے یا خریدار خریدا ہوا سامان واپس کردے۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں اقالہ کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنافریقین پر واجب نہیں ہے لیکن اس کا ثواب بہت زیادہ ہے کیوں کہ ایسا کرنا احسان میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَن أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ یعنی جو شخص اپنے کسی مسلمان بھایٔ کے ساتھ اقالہ کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی ہوئی یا خریدی ہویٔ چیز کی واپسی پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ الْاِقَالَۃِ، رقم ۲۱۹۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ جو شخص کسی بیع کو فسخ کردے اور یہ تصور کرلے کہ میں نے بیع کی ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسا جانتا ہے گویا اس نے گناہ کئے ہی نہیں۔ (کیمیای سعادت، ۲۸۲)۔
اس لئے مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ ان فضیلتوں کے پیش نظر اس طرح کے معاملات میں احسان کی روش ہی اختیار کریں۔ بعض مسلم تجار غیروں کی نقل میں اپنی دکان میں ’’بکا ہوا سامان واپس نہیں ہوگا ‘‘ کا بورڈ لگادیتے ہیں گویا وہ علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سنت کی ان کے یہاں کویٔ جگہ نہیں! یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ انہیں مذکورہ روایات پر غور کرنا چاہیے اورایسے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کیوں کہ ہر شخص گناہوں کی بخشش کا محتاج ہے۔
۲۲۔ کسی دو شخص کے تجارتی معاملہ میں دخل اندازی سے احتراز کرنا: یہ بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے کہ کسی دو شخص کے جائز تجارتی معاملے میں تیسرے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداخلت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت بڑھا کر اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرے جس کا معاملہ زیر غور ہے، اس میںخریدار کے نقصان کا امکان ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خریدار سے یہ کہے کہ بالکل یہی چیز یا اس سے بہتر میں آپ کو اس سے کم قیمت پر فراہم کرسکتا ہوں اگر آپ اس معاملہ کو فسخ کردیں، اس صورت میں بیچنے والے کے نقصان کا امکان ہے۔ یہ دونوں ہی صورتیں درست نہیں اور اگر مقصد خود خریدنا یا بیچنا نہ ہوصرف معاملہ کو بگاڑنا ہوتو یہ اور بھی برا فعل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا یَبِیْعُ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ‘‘۔یعنی ’’تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ النَّھْيِ عَنْ تَلَقِّي الرُّکْبَانِ، رقم ۲۱۶۵)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلٰی سَوْمِ أَخِیْہِ‘‘۔یعنی ’’ کوئی مسلمان اپنے بھائی کے سودے پر سودابازی نہ کرے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، بابُ تَحْرِیْم بَیْعِ الرَّجُلِ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ)۔ اس سلسلے میںایک اور روایت ابوہریرہؓ کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لَا یَبْتَاعُ الْمَرْئُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ، وَلَا تَنَاجَشُوا‘‘۔یعنی ’’ کوئی شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے مول پرمول نہ کرے اور نہ ہی نجش کرے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابٌ لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِالسَّمْسَرَۃِ، رقم ۲۱۶۰)۔
’’نجش‘‘ اسی عمل کو کہتے ہیں کہ دو شخصوں کے بیچ کوئی تجارتی معاملہ طے پارہا ہو اور تیسرا شخص آکر اس چیز کی بے جا تعریف کرنے لگے جس کا معاملہ زیر بحث ہویا اس کی زیادہ قیمت لگادے اور اس کا مقصد خریدنا نہ ہو بلکہ اس خریدار کو گمراہ کرنا اور دھوکہ میں ڈالنا ہو تاکہ وہ اس چیز کی خریداری کی طرف راغب ہوجائے یا زیادہ قیمت دینے کو تیار ہوجائے۔ ایسا کرنے والے کو عرف عام میں دلال کہتے ہیں جو اصل میں تاجر کے لئے ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی دلالی کیسے درست ہوسکتی ہے جب کہ اس میں اصل خریدار کو فریب دینے کی سازش کی جاتی ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا احادیث کی بنیاد پر علماء نے کسی دو شخص کے مابین جائز تجارتی معاملے میں مداخلت کی ذکر کردہ ہر صورت کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ ہاں اگرکسی معاملے میں کوئی شرعی قباحت ہو مثلاً کوئی شخص کسی کو غبن یا چوری کا مال بیچ رہا ہو یا کسی اور قسم کا دھوکا دے رہا ہو تو اس صورت میں مداخلت کرکے معاملے کو فسخ کرادینا اور ایک مسلمان کو نقصان سے بچانا جائز ہے۔
۲۳۔ اللّٰہ کی یاد سے غافل نہ ہونا: ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ تجارت کی مشغولیوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یاد اور اس کے حقوق کی ادائی سے غافل نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ کی یہی صفت تھی۔ صحابہ تجارت کیا کرتے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ کا کو ئی فرض آن پڑتا تو کوئی تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے ان کو غافل نہ کرتی یہاں تک کہ وہ اللہ کا حق ادا کرتے۔ اس بات کی تعریف اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمائی۔ فرمایا: {رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ۔۔۔۔الآیۃ} یعنی ’’ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اورزکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ (النور:۳۷)۔ آج ہم لوگ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائی میں بھی اپنی تجارت کا حرج سمجھتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے شامل حال ہوسکتی ہے جب کہ اس نے اپنی یاد کے لئے خصوصی طور پر اسے قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے ( حالانکہ ساری ہی عبادات اس کی یاد کے لئے ہیں)۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِی} ۔ (ترجمہ): ’’اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔ (طٰہٰ:۲۰)۔ اس حکم سے تقرب الٰہی کے حصول میں نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ اس لئے اس سے غفلت برتنا انتہائی خسارے کا سودا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے نماز کی وجہ سے رزق میں کسی قسم کے نقصان نہ ہونے کی ضمانت لی ہے بلکہ اس کے اہتمام پر رزق کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَانَسْئَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی}۔ (ترجمہ): ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو، ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم تمہیں دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے‘‘۔ (طٰہٰ:۱۳۲)۔ اس لئے بھی نماز کا اہتمام ضروری ہے اور جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کو چھوڑ کر نماز کے لئے دوڑ جانے (یعنی بلاتاخیر جانے) کا خصوصی حکم سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر ۹ میں موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ دوسرے فرائض و ارکان دین بھی ہیں جن سے تجارت کے سبب غفلت برتنا دنیوی و اخروی زیاں کا موجب ہے۔
ان سب کے اہتمام کے ساتھ اگر خالی اوقات میں قرآن کی تلاوت کی جائے یا کوئی ذکر مسنونہ زبان پر ہمہ وقت جاری رہے تواور بھی برکت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر ۹ جس میں جمعہ کی اذان کے ہوتے ہی خرید و فروخت بند کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اس کے فوراً بعد ہی یہ ہدایت بھی موجود ہے کہ جب نماز سے فارغ ہوجاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو نیز اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح کو پہنچو۔ آیت اس طرح ہے: {فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}۔ (ترجمہ): ’’جب نماز پوری ہوچکے تو تم زمین میںمنتشر جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو ‘‘۔ (الجمعۃ: ۱۰)۔ اس آیت میں بھی گویا یہ تلقین کی گئی ہے کہ حصول رزق کی سعی تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کرے بلکہ ساری تگ و دو کے ساتھ کثرت سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ذکر ہی تمہیں فلاح و کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
یہاں یہ رقم کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند کلمات ایسے ہیں جن کا پڑھنا بازار کے اندر کافی فضیلت رکھتا ہے ؛ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بازار میں داخل ہوکر یہ کہے: ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور دس لاکھ برائیاں اس کی مٹادیتا ہے اور دس لاکھ درجے اس کے بلند کردیتا ہے۔ (سنن ترمذی، کتاب الدعوات، بابُ مَایَقُوْلُ إِذَا دَخَلَ السُّوْقَ، رقم ۳۴۲۸ )۔ امام ترمذیؒ نے اسی مضمون کی دوسری روایت بھی نقل کی ہے جس کے اخیر میں یہ ہے کہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیا جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، رقم ۳۴۲۹)۔ اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ ان کلمات کا ضرور اہتمام کریں کہ اس میں نہ ہی کوئی مشقت ہے اور نہ ہی وقت فارغ کرنے کی ضرورت۔ اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہر وقت اللہ رب العزت کا استحضار رہے اور کسی معاملے میں بھی اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو۔
یہ ہیں تجارت کے چند اہم اسلامی اصول۔ اگر ان کی رعایت کرتے ہوئے تجارت کی جائے گی تو بلاشبہ وہ تجارت دنیوی و اخروی اعتبار سے بڑی نفع بخش ثابت ہوگی لیکن ان کا اہتمام وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اللہ عز و جل کے وعدوں اور اس کے رسولؐ کی خبروں پر کامل یقین ہو۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کے رسول ؐکی خبروں کے تئیں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں یا جنہیں شرعی احکام کی تعمیل میں تجارت کا نقصان نظر آتا ہو تو ظاہر ہے ان سے ان اصولوں کی پاسداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ تمام مسلمانوں کو ان کے تمام معاملات میں اپنے احکام اور اپنے حبیبؐ کی سنتوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
(رابطہ: موبائل: 9471867108 ؛ ای میل: [email protected])