یواین آئی
مرادآباد الیکشن کمیشن کی تما م کوششوں کے باوجود اترپردیش میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں رائے دہی شرح میں گراوٹ نے سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ انتخابی عمل سے منسلک افسروں اور سماجی کارکنوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔جمہوریت میں انتخابات ملک کے شہریوں کو اپنی مرضی کی حکومت کے انتخاب کا موقع دیتے ہیں۔ لوگوں کو اس ‘مہا پرو’ کے ذریعہ اپنے پسند کے نمائندے یا پارٹی کے انتخاب کا سنہرا موقع میسر ہوتا ہے ۔شرح آبادی کے اعتبار سے پورے ہندوستان میں اول مقام پر اترپردیش میں پہلے مرحلے میں تقریبا 40 فیصدی افراد نے پولنگ بوتھوں کا رخ نہیں کیا۔ ویسے تو ہر انتخاب میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں لیکن اترپردیش کے مرادآباد میں اترپردیش کے چیف الیکشن افسر نے بذات خود آکر ایک سیمینار میں زیادہ سے زیادہ ووٹنگ کے لئے پولنگ بوتھوں تک جاکر ووٹ کرنے کی اپیل کرچکے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں 18اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ رائے دہی بیدار ی کے لئے مرادآباد/امروہہ انتظامیہ کی جانب سے پھر سے بیداری مہم چلائی جارہی ہے ۔مرادآباد کمشنر آفس کے سامنے معذور اور نوجوانوں نے پیدل و اسکوٹی پر سوار ہوکر ووٹنگ بیداری سے متعلق نعرے لگاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ووٹ کرنے کی اپیل کی۔ انتخابات میں ہر شہری اپنے ووٹ کا استعمال کرے اس کے لئے انتظامیہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔گذشتہ دنوں کمشنر آفس سے معذورین نے رائے دہی بیداری ریلی نکالی ۔ریلی کے دوران معذورین کے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ تھے جن پر رائے دہی سے متعلق نعرے آویزاں تھے ۔اس کے علاوہ اسکول اور کالجوں میں نوجوانوں کے اندر رائے دہی بیداری پیدا کرنے کے لئے خصوصی مہم چلائی جارہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ کر ای وی ایم کے استعمال اور وی وی پیٹ کی تربیت دی جارہی ہے ۔نفسیات کے پروفیسر انل مورل گذشتہ کافی وقت سے سوشل میڈیا اور سیمیناروں، میٹنگوں میں رائے دہی بیداری مہم چلار ہی ہیں۔ ان کے مطابق پہلے مرحلے کے انتخابات میں ووٹنگ شرح میں گراوٹ کو ملحوظ رکھتے ہوئے صاف طور سے کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کا ابھی تک فروغ نہیں ہوا ہے ۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم جمہوریت میں اپنی اہمیت اور موجودگی کو سمجھیں۔ ‘ووٹ دینا ہر شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے ، ہندوستان کے لئے ووٹ دیں’َ۔ماہر سماجیات ڈاکٹر مستقیم بتاتے ہیں کہ ہمارا سماجی نظریہ، نظریہ قومیت سے میل نہیں کھاتا ہے ۔ قانون توڑنے والوں کو ہم اپنے سرکل میں اعزاز دیتے ہیں پیسہ لیکر ووٹ دینے میں ہم ذرہ برابر نہیں ہچکچاتے ، اپنی ذات کے لیڈر کو، چور ہی سہی، انتخاب میں جتانے کے لئے ہر ممکن ووٹ کرتے ہیں۔ ہمارا کام نکل رہا ہے تو ہم موقع ملنے پر پیسے کے لئے مول بھاو کرنے سے بھی ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ۔کیا برسراقتدار اور کیا اپوزیشن سبھی جمہوریت کی کسوٹی پر کھرے نہیں اتررہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ملک کے رائے دہندگان کی ذہنیت اس دن تبدیل ہوگی جب وہ بیدار ہوگا۔ جس دن وہ ذات، مذہب سے اوپر اٹھ کر سوچے گا۔ ذاتی مفاد سے بڑھ کر ملک ہوگا، وہ بے دار اس وقت ہوگا جب وہ مفت میں ملنے والی ہر اس چیر کو ٹھکرا دے گا جواسے کسی ایک کا محتاج بنائے اور وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے دہی کا استعمال نہ کرسکے ۔