مودی کے قول و فعل میں تضاد

0
0

ہماری چھٹی کرنا چاہتے ہیں تو مفتی سعید کے بعد محبوبہ مفتی کو وزیر اعلیٰ کیوں بنایا: عمر عبداللہ
شاہ ہلال

اننت ناگنیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی ریاست جموں وکشمیر کی سیاست سے عبداللہ اور مفتی خاندانوں کی چھٹی کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہوں نے کیونکر مفتی محمد سعید کے بعد محبوبہ مفتی کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ مودی جی کے قول و فعل میں تضاد ہے۔عمر عبداللہ نے اتوار کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے مٹن میں ایک انتخابی جلسے کے حاشیہ پر نامہ نگاروں کو بتایا ‘گذشتہ انتخابات میں بھی مودی صاحب نے عبداللہ اور مفتی خاندانوں کو الگ تھلگ کرنے کے لئے ووٹ مانگے تھے مگر پھر مفتی صاحب اور بعد میں محبوبہ مفتی کو ہی اس ریاست کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مودی صاحب کے کہنے اور کرنے میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے۔ اگر مودی صاحب ریاست کی سیاست سے ان دو خاندانوں کو الگ کرنا چاہتے تھے تو پھر مفتی صاحب اور محبوبہ مفتی کو کرسی پر کیوں بٹھایا؟’۔وہ وزیر اعظم مودی کے بیان کہ ‘عبداللہ اور مفتی خاندانوں نے ریاست کی تین نسلوں کو تباہ کیا ہے اور ان کی رخصتی کا وقت آچکا ہے’ سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔دریں اثنا عمر عبداللہ نے کوکرناگ اور مٹن میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی سے 5 سالہ حساب کتاب پوچھنے کا وقت آگیا ہے۔ان کا کہنا تھا ‘2014کے پارلیمانی انتخابات کے 5 سال گزرجانے کے بعد ہمیں پی ڈی پی والوں سے گذشتہ 5 سال کا حساب کتاب نکالنا چاہئے کہ ان کا کون سا وعدہ پورا ہوا؟پی ڈی پی کے وعدوں میں شامل ترقیاتی کام کاج کہیں نہیں، امن اور مفاہمت کہیں نہیں، بے روزگاروں کو روزگار کہیں نہیں، حریت سے بات چیت کہیں نہیں، ہند و پاک دوستی کہیں نہیں، بجلی پروجیکٹ کہیں نہیں، افسپا کی منسوخی کہیں نہیں نیز قلم دوات جماعت کا ہر ایک وعدہ جھوٹ اور فریب پر مبنی نکلا’۔اس موقعے پر پارٹی کے سینئر لیڈران جسٹس (آر) حسنین مسعودی (نامزد ا±میدوار)، غلام نبی بٹ اڈگامی، پیر محمد حسین، سعید توقیر اور سلام الدین بجاڑ کے علاوہ کئی عہدیداران موجود تھے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اپنے وعدوں کے عین برعکس پی ڈی پی نے بھاجپا کے ساتھ مل کر ریاست کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہ اتحاد تعمیر و ترقی کے لحاظ سے اوندھے منہ گر گیا، امن اور مفاہمت کی باتیں کرنے والوں نے یہاں کے لوگوں کو بے چینی اور غیر یقینیت کے بھنور میں دھکیل دیا، بے روزگاروں کو روزگار دینے کے بجائے اقربا پروری کو ترجیح دی گئی اور عام ا±میدوروں کے لئے ایس آر او 202 نافذ کیا گیا، حریت سے بات چیت کے بجائے ا±ن کو مختلف کیسوں اور معاملوں میں پھنسایا گیا، پاکستان کے ساتھ بات چیت تو دور کی بات یہاں تک جنگ کے بادل بھی چھانے لگے ، بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کے بجائے اپنے بجلی سیکٹر کو مزید پیچھے دھکیلا گیا، افسپا کی منسوخی اور فوجی انخلائ کے بجائے پوری وادی کو فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔این سی نائب صدر نے کہا کہ ‘پی ڈی پی بھاجپا کی عوام کش پالیسیوں کی بدولت ملی ٹنسی کی نئی شروعات ہوئی، ہمارے پڑھے لکھے نوجوان، جو بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پی ایچ ڈی اور دیگر ڈگریاں حاصل کررہے تھے، پچھلے 5 سال مین اتنے پریشان اور ناراض ہوئے کہ انہوں نے بندوق کا راستہ اختیار کیا۔ ہمیں ریاست کو ان حالات سے نکالنا ہے، ہمیں نوجوانوں کی ناراضگی دور کرنی ہے، ہمیں اس ریاست میں ترقی کا نیا دور شروع کرنا ہے، ہمیں اس ریاست میں انصاف لانا ہے اور ایسا انصاف جس کے لئے لوگوں کو رشوت نہ دینا پڑے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج پی ڈی پی کے ہر ایک جلسے میں کوئی نہ کوئی نوجوان کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ میں نے تو نوکری کے لئے رشوت دی تھی پھر مجھے ابھی تک آرڈر کیوں نہیں ملا؟ میری ملازمت کا آڈر کہاں گیا؟’۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جس ترقی کی کوکرناگ کے لوگوں نے 5 سال ا±مید رکھی وہ تعمیر و ترقی کہاں ہے؟ وہ ٹنل کہاں ہے جس کے ذریعے ہم کشتواڑ سے ملتے، جس کے ذریعے ہم جموں سے ملتے، وہ سڑکیں کہاں ہے جن سڑکوں کے ذریعے ہم یہاں سیاحوں کے آنے کا انتظار کررہے تھے، وہ خواب ہی رہ کیا۔ پی ڈی پی ہر محاذ پر ناکام اس لئے ہوئی کیونکہ ان کی نیت صاف نہیں تھی، ان کے ارادے صحیح نہیں تھے۔ محبوبہ مفتی نے خود تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنی جماعت کو بچانے کے لئے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس مطلب یہ ہے کہ موصوفہ نے دفعہ 370 کے لئے ہیں، دفعہ 35 اے کے لئے نہیں، ریاست کی خصوصی پوزیشن کے بچا? کے لئے نہیں، افسپا کی منسوخی کے لئے نہیں بلکہ اپنی جماعت کو بچانے کے لئے ریاست کا سودا کردیا۔ کیا ہم ایسے لوگوں پر دوبارہ بھروسہ کرسکتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے ریاست کو سولی پر چڑھانے کے لئے تیار ہوں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہمارے تشخص ہے، جب ہم دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کی سازشوں کے تئیں اپنی فکر مندی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تو غلط نہیں کرتے ہیں۔ یہ دفعات صرف کاغذ کا ٹکڑا نہیں، یہ دفعات صرف زبانی جمع خرچ نہیں ان دفعات کے ساتھ ہمارا مستقبل اور ہماری پہنچان جڑی ہوئی ہے۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے یہاں کے لوگوں کو جب راتوں رات زمینوں پر مالکانہ حقوق دلائے یہ سب اس لئے ممکن ہوپایا کیونکہ یہاں ہمارا اپنا آئین اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون تھا، جس کے ذریعے یہ زمینیں مقامی لوگوں کو ہی ملیں۔ یہی بات بھاجپا اور آر ایس ایس والوں کے گلے نہیں ا±تری، یہ لوگ کشمیریوں کو اپنی زمیوں کے مالک ہوتے نہیں دیکھنا چاہئے، ان لوگوں کو کشمیریوں کی خوشحالی اور خود کفالت برداشت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ ہم سے اس طرح یہ زمینیں چھیننا چاہتے ہیں جیسے ان لوگوں نے گجر اور بکروالوں سے دھیرے دھیرے جنگلوں پر حقوق چھینے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو نقصان ہوتا ہے تو اس کا نقصان براہ راست عام لوگوں پر پڑتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا