’ووٹ بٹورنے کیلئے جھانسہ‘

0
0

آئین کی دفعہ 370 کو ہٹانے کا دعویٰ بے بنیاد اور گمراہ کن :سوز
لازوال ڈیسک

سرینگرسابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوزکہا ہے کہ’میری ذاتی لائبریری کے ایک شلف میں 1998,، 2004, ، 2009، 2014 اور 2019 کے عام انتخابات سے متعلق بی جے پی کے پانچ انتخابی منشور موجود ہیں۔ ان پانچوں منشوروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ائین کی دفعہ 370 کو ہٹایا جائےگا۔ یہ دعویٰ گمراہ کن ہے اور اس کی ساری دلیل بے بنیاد ہے ۔یہ جھانسہ بی جے پی ہمیشہ ووٹروں کو عام انتخابات کے موقعہ پر اپنی جیت کےلئے دیتی رہی ہے اور متذکرہ منشوروں میں ایک زبان میں یہ کھوکھلا دعویٰ لکھا گیا تھا۔اب آج 2019 کےلئے امیت شاہ کی مجبوری تو سمجھی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں امیت شاہ اور اُس جیسے آر ایس ایس بی جے پی کے انتہا ءپسند لوگ پریشان تو ہوں گے ہی ، تو اُن کی تجوری میں دفعہ370 کو ہٹانے کا یہ کھوکھلا دعویٰ اُن کی مجبوری بھی ہے اور وقتی ضرورت بھی۔ تو اُن کو شرم سار کرنے کےلئے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ یہ کھوکھلا دعویٰ تو وہ ہر انتخاب کے موقع کرتے رہے ہیں۔ورنہ کیا وہ اتنے نافہم تھوڑے ہو سکتے ہیں کہ اُن کو یہ خبر نہیں کہ دفعہ 370 کو جموں وکشمیر کے لوگوں کی مرضی کے خلاف کسی بھی صورت میں ہٹایا نہیں جا سکتا۔مجھے حیرانی ہوتی ہے جب میں یہ سوچتا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی جیسا معاملہ فہم آدمی کو بھی اس جھانسے میں پھنسایا گیا تھا کیوںکہ اُن کی قیادت میں ترتیب دیا ہوا منشور بھی دفعہ 370 کو ہٹانے کا دعویٰ کرتا ہے ۔آج کے دن یہ بات تو سمجھ میں آ سکتی ہے کہ امیت شاہ کے دماغ میں آر ایس ایس بی جے پی کی انتخابات میں کامیابی کےلئے بڑھی الجھن ہے اور اس الجھن میں انہوں نے اب سارے ملک میں فرقہ پرستی کا ایک خوفناک ماحول پیدا کیا ہے اور سارے ملک میں ایک بےہودہ پروپگنڈا جاری ہے جس سے سارے سکیولر اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ہندوستان کے کچھ دانشور سخت پریشانی کے عالم میں یہ سوچ رہے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ کے ختم ہونے پر ہی یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں سکیولر اداروں کو پچھلے پانچ برسوں میں کس قدر نقصان پہنچا ہوگا۔ادھر حزب اختلاف سے وابستہ اور کچھ دوسرے دانشور اب بھی پر امید ہیں کہ اترپردیش ،بہار اور کچھ دوسری ریاستوں میں کانشی رام کا سوشل انجینئرنگ کا وہ فارمولا کار آمد طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے جس کے مطابق دلت سماج، یادوسماج، جھاٹ سماج اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ طبقے بشمول اقلیت اس کوشش میں ہیں کہ وہ موجودہ الیکشن میں ایک ساتھ رہنے کی ترکیب نکالیںگے۔ حزب اختلاف میں کچھ لیڈر یقین کے ساتھ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ بالآخر کانشی رام کا فارمولا کار آمد ثابت ہوگا!“

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا