نظم : سرخ پوش

0
0

 

 

کلام : آفتاب اجمیری
دل کی بستی میں تیری یادوں کے، اس طرح دیپ جگمگاتے ہیں
شہر مشر گاں میں آنسووں کے نجوم جیسے ہر رات جھلملاتے ہیں
سوچتا ہوں، یہ آنسووں کے نجوم دفن ہوں، دل کے لال زاروں میں
دھار کر روپ جو بگولوں کا ، اْڑتے پھرتے ہیں ریگزاروں میں
یاد ہے مجھکو، جب تجھے لینے کوئی بارات لے کے آیا تھا
دوسروں کی طرح سے تیرے لیے میں بھی سوغات لے کے آیا تھا
سرخ جوڑے میں دیکھ کر تجھ کو ، آگ سی میرے دل میں بھڑکی تھی،
جل رہی تھی چتا اْمیدوں کی۔ میرے لب پر مگر خاموشی تھی
تجھکو میرا خیال ہو کہ نہ ہو مجھ کو لیکن خیال تھا تیرا
پھر رہا ہے میری نگاہوں میں وقت رخصت جو ہال تھا تیرا
تھا یہ عالم تیرا دمِ رخصت اشک آنکھوں میں سکیاں لب پر
تیرے جانے سے تیرے میکے میں ایک مایوسی سی چھائی تھی سب پر
رونے دھونے سے دفعتاً تجھ پر ایک بیخوشی سی ہو گئی طاری
تیری ہمشیر تیرے والد کے دل پہ اک ضرب سی لگی کاری
تو تھی بے ہوش اور ترے لب پر نام تھا صرف سرخ پوش میرا
تری بے ہوشی کے عقیدت سے کر رہا تھا طواف ہوش میرا
غم میرا عام کر دیا تو نے
مجھ کو بدنام کر دیا تو نے
سوچتا ہوں یہ کیا کہا تو نے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا