ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)
موبائل:6289007721
واٹس اپ نمبر:9903651585
Email:[email protected]
ایک چھوٹا بچہ ایک بزاز کے یہاں نوکر تھا۔ ایک دن اس کا مالک اسے چائے لانے کے لئے کہا۔ بچہ دکان سے چائے لیکر آیا۔ کیتلی سے اپنے مالک کے لئے چائے کپ میں انڈیل رہا تھا۔ اچانک گرم گرم چائے کہ چند قطرے کپ سے چھلک کر اس کی ہتھیلیوں کی پشت پر جا گرے، بچہ تلملا اُٹھا ۔ چائے کی پیالی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر کپڑے کے تھان پر جا گری۔بچہ تھا غلطی ہوگئی۔ مالک کا بیٹا جو لگ بھگ بارہ سال کا تھا۔ مارے غصے میں غلے پرسے اٹھا۔ بچہ کے گال پر ایک زور دار طمانچہ جڑ دیا۔ بچہ کا نرم ملائم و کومل گال مالک کے بیٹے کے بے رحم طمانچہ سے ایک پل میں سوج گیا۔ گال پر اس کی انگلیوں کے نشان اُبھر آئے۔ ایک نقاب پوش خاتون جو کپڑے خرید رہی تھی۔ بچے کو بلکتا دیکھ کر اس کی ممتا عود آئی۔ وہ بچے کو پیا رسے سہلانے لگی۔ مارے غصے میں اس پردہ نشین خاتون نے بزاز سے کہا’’ کیا تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے؟، تمہارا بیٹا ایک معمولی سی غلطی پراس معصوم کو اتنی بے رحمی سے مارا کہ اس کے گال پر انگلیوں کی بام اکھڑ گئی ہے ، کیا تم نے اپنے بیٹے کو یہی تربیت دی ہے!؟، اللہ سے خوف کھائو، وہ ایک پل میں سب کچھ بدل سکتا ہے !۔‘‘ کیا ہوا محترمہ ؟اتنی ناراض کیوں ہو رہی ہیں؟، آخر نوکر ہے ، غلطی کرے گا تو مارتو پڑے گی نا، اس کپڑے کے نقصان کا پیسہ کون بھرے گا؟ بزاز نے رعونت سے اس خاتون کوجواب دیا۔ تجار کے اس سخت لہجے کا اس خاتون نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دکان سے واپس جاتے ہوئے ،اس خاتون نے ایک بار پھر بچے کے بہتے ہوئے آنسوئوں کو پونچھا اور اس کی پیشانی کو پیار سے بوسہ دیا ۔پھر وہ نیک خاتون وہاں سے چلی گئی۔
وہ بچہ نہایت ہی غریب گھرانے کا تھا۔ جب ماں کی گود میں تھا۔ اسی وقت اس کا باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بڑی دکھ و تکلیف سے اس کی ماں اسے پالی تھی ۔گائوں میں کبھی اس گھر تو کبھی اُس گھروہ کام کیا کرتی تھی۔ اس سے جو مزدوری ملتی اس پر ہی کسی طرح گزارا کرتی تھی۔ اس طرح اس نے اپنی بیوگی کی دس سال کی زندگی بڑے دکھ سے کاٹ لی ۔ اس کا اکلوتا بیٹا آٹھ سال کو ہو گیا۔بیٹے کو اس نے پانچ سال کی عمر میں گائوں کے مدرسہ میں داخل کرادیا۔ بچہ تین سالوں میں مدرسہ سے کچھ دینی تعلیم حاصل کر لی۔ اب اس بے سہارا عورت کو گائوں کے گھروں میں کام بہت کم ملا کرتا تھا۔کھیتوں میں کام کرنے کی مزدوری اسے ملا کرتی تھی مگر بے پردگی ہونے کے احساس وہ اس کام کو نا پسند کرتی تھی۔ جب بہت تنگی ہونے لگی
لا محالہ اس نے بیٹے کو ہاٹ کے بازار میں ایک بزاز کی دکان پر کام پر لگا دیا تاکہ گھر میں کسی صورت حال سے دال روٹی کا دو وقت نہیں تو ایک وقت ہی کا سہارا ہو جائے۔
بچہ جب گھر پہنچا تو ماں بیٹے کا پھولا ہوا گال دیکھ کر پریشان ہو گئی۔اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے بیٹے کی اس درگت کاحال دریافت کیاــ’’ بیٹا! یہ تمہارے گال پر کس نے طمانچہ مارا ہے ؟‘‘ــ بیٹا ماں کے سوال پر بلک اٹھا۔ وہ زور زور سے رونے لگا۔ بیٹے کی رونے کی وجہ سے ماں کی بھی ہچکی بندھ گئی۔ پھر اس نے اپنے آنچل سے بیٹے کے آنسوئوں کو پونچھتے ہوئے کہا’’ مت رؤ بیٹا! کیا بات ہے ؟ سچ سچ بتائو آخر تمہارے ساتھ کس نے یہ برا سلوک کیا ہے ؟‘‘۔’’ امی جان! میںصبح کے وقت مالک کے لئے کپ میں چائے ڈال رہا تھا، اچانک گرم چائے کیتلی سے ڈالتے وقت کپ سے اچھل کر میرے دوسرے ہاتھ پر گر پڑی، گرم گرم چائے سے میری انگلیوں کے پشت کے حصے جل گئے، میں چھنچھنا اٹھا، میری اس حرکت سے چائے کی بھری پیالی ہاتھ سے چھوٹ کر کپڑے کے تھان پر جا پڑی ، دیکھونا امی جان! میرے ہاتھ کا چمڑا کتنا جل گیا ہے!‘‘۔ــ بیٹے کے ہاتھ پر پھپھولے کو دیکھ کر ماں کا دل پھٹ گیا۔ وہ بیوہ دوڑ کر پڑوس کی عورت سے جلنے کٹنے پر لگانے والا مرہم مانگ کر لائی بیٹے کے زخم پر دھیرے دھیرے لگا دیا۔
وہ بیوہ غریب ضرور تھی مگر ایمان والی تھی۔ اپنی مصیبت زدہ زندگی میں اس نے ہمیشہ مشقتوں کی کمائی پر اکتفا کیا۔ بزاز کے بیٹے کے سخت اور غیر اخلاقی سلوک سے وہ بہت دکھی تھی، اس نے فوری طورپر وضو کیا۔ مصلیٰ پر بیٹھ کر اپنے رب العزت سے دعا گو ہو گئی۔’’اللہ! تو میرا رب ہے ۔ تو نے مجھے جس حال میں رکھا، میں ہر لمحہ تیرا شکریہ ادا کرتی رہی، تونے میرے شوہر کو اپنے پاس بلا لیا ، پھر بھی میں ان سخت مصیبتوں میں بھی تیری رسی کو مضبوطی سے تھامے رہی، تو سارے جہاں کا مالک ہے، تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، تجھ پر ہی بھروسہ ہے، جب بھی تیرے دربار میں سجدہ ریز ہوئی ، مولا! تو ہی میرے رو برو رہا، مولا! آج بیٹے کے گال پر طمانچے کی چوٹ نے میرے دل کو بے چین کر دیا، مولا! میں تو وہاں موجود نہیں تھی مگر تو، توشہ رگ سے قریب رہنے والا ہے، تو قادر مطلق ہے، اگر میرا بیٹا گناہ گار ہے تو مجھے صبر عطا فرما ،ساتھ ہی مجھ میں ہدایت دینے کا شعور پیدا کر، مولا! اگر میرا بیٹا مظلوم ہے تو اس پر رحم فرما اور مجھے صبر کرنے کی تلقین دے آمین!۔‘‘
وہ نیک خاتون جب اپنے بارگاہ رب سے دُعا کر کے فارغ ہوئی تو ایک بار پھر اپنے چاند کے ٹکڑے کو وفور جذبات میں آکر گلے سے لگا لیا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر کہاـ’’بیٹا! آج کے بعد سے تم اس مالک کی دکان پر نوکری کرنے مت جانا، جس مالک کو اللہ کا خوف نہیں کہ نوکروں کے ساتھ کس طرح سے برتائوکیا جاتا ہے !؟، ایسے بے رحم مالک کے پاس کام کرنا مناسب نہیں ہے، قیامت کے دن ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں باز پرس ہوگی۔‘‘ ’’امی جان ! آپ کا جیسا حکم ہوگا، میں اسی پر عمل کروں گا، مگر امی جان! ایک بات کہوں اگرمیںکمائوں گا نہیں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے!؟کون ہماری یوں ہی مدد کرے گا!؟‘‘ لڑکانے مایوس ہو کر اپنی ماں سے سوال کیا۔اس کی امی جان نے مسکراتے ہوئے کہاـ’’ جو لوگ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، انہیں اپنے رزق کی فکر نہیں ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ رزاق ہے، وہ پہلے بھی ہمیں رزق دیتا رہا اور اب بھی وہی دے گا، بیٹا! تم جانتے نہیں، چڑیا جب شام کو اپنے گھونسلہ میں جاتی ہے تو وہ انسانوں کی طرح کھانے کی ڈلیا اپنے ساتھ نہیں لے جاتی ہے، اس کا گھونسلہ دانا پانی سے بالکل خالی ہوتا ہے، رات کو گھونسلہ میں بسیرا کرنے کے بعد فجر کو جب جاگتی ہے تو یہ پیاری چڑیا سب سے پہلے پیڑ پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتی ہے، پھر اس امید کے ساتھ اپنے پنکھ پھیلائے ہوا میں اڑ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رزق عطافرمائے گا، یہی نیک نیتی اسکا پیٹ بھر دیتی ہے، ہمیں بھی اپنے اللہ تعالیٰ پرویسے ہی بھروسہ کرنا چاہئے ‘‘۔ لڑکا اپنی امی جان کی نصیحت آمیز باتوں سے خوش ہو گیا۔
کچھ دنوں کے بعد اس بزاز کے بیٹے کے ہاتھوں میں ایک ایسی بیماری ہو گئی کہ اس کے دونوں ہاتھ مفلوج ہو گئے۔
حاصل: مظلوم کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے۔
ایک مختصر اصلاحی کہانی بعنوان’’ امّاں جی کی نصیحت‘‘ حاضر خدمت ہے، امید ہے کہانی پسند آئے گی۔ کسی حالیہ اشاعت میں جگہ دے کر شکریہ کا موقع دیں۔ فقط و السلام نیاز مند
ایم ۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)