ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
(محمد خورشید اکرم سوز اور نزہت جہاں قیصر کے غم زدہ دلوں کی آواز)
آج شام ساڑھے چار بجے کے قریب ڈاکٹر منصور خوشتر نے رسالہ سہ ماہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ اور ایک کتاب ’’ذکر تیرا بعد تیرے‘‘ میرے حوالے کیا۔ سہ ماہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ کے مواد میری نظروں سے کمپوزنگ اور تصحیح کے دوران گزر چکے تھے۔ لیکن ’’ذکر تیرا بعد تیرے‘‘ میری لئے ایک نئی کتاب تھی۔ اس لئے میں نے اس کتاب کو سرسری طور پر رات میں دو ڈھائی گھنٹہ پڑھا ۔ اس کتاب کا تعلق جس حادثے سے ہے اس کی جانکاری مجھے پہلے سے ہے۔ اس سلسلہ میں مجھے سید محمود احمد کریمی صاحب اور ڈاکٹر منصور خوشتر نے بتایا تھا۔ پھر جب چند ماہ قبل خورشید اکرم سوز صاحب سے ملاقات ہوئی تب اس کی جانکاری تفصیل سے ہوئی۔ انہیں دیکھ کر ایک ٹوٹے ہوئے دل کی آواز سننے کو ملی۔ حادثہ ایسا کہ سننے کے بعد دل بے چین ہو اٹھتا ہے اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد جب چند لوگوں کے تاثرات پڑھے تو آنکھیں نم ہوگئیں لیکن دعا کے سوا انسان کیا کر سکتا ہے۔ انسان تو بے بس اورلاچار ہے اس مالک کائنات کے سامنے جس نے ساری انسانیت اور دوسری تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔
کتاب ’’ذکر تیرا بعد تیرے ‘‘ مختلف لوگوں کے تاثرات ہیں لیکن خورشید اکرم سوز اور نزہت جہاں قیصر کے دل کی غمزدہ آواز ہے۔ انہوں نے کتاب کا نام اس شعر سے لیا ہے:
ذکر تیرا بعد تیرے اے شکیب چلتا رہے
سب کے دل میں مغفرت کی ہو دعا تیرے لئے
کتاب کا انتساب بھی دل کی دھڑکن بڑھا دینے والا ہے۔ ان غنچوں کے نام جو بغیر کھلے مرجھا گئے ۔ ان ناموں میں انیقہ بنت جناب حقانی القاسمی ، مظفر ابن ڈاکٹر عطا عابدی، فرحان ابن پروفیسر کوثر مظہری، القاب ابن پروفیسر کوثر مظہری، حمزہ احمد قیصر ابن امتیاز احمد قیصر، اجلال احمد قیصر ابن پروفیسر وقار احمد قیصر ، مبین الدین ابن معین گریڈیہوی، شاہد محمود و حامد محمود ابن سید محمود احمد کریمی شامل ہیں۔
کتاب ’’ذکر تیرا بعد تیرے‘‘ کا پیش لفظ پروفیسر ثریا شاہد نے تحریر کیا ہے۔ یہ پیش لفظ کوئی رسمی پیش لفظ نہیں بلکہ شکیب اکرم سوز کے غموں میں نڈھال زخمی دلوں کے حال کو بیان کرنے کا ایک کامیاب تجربہ پروفیسر ثریا شاہد صاحبہ نے کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’سوزؔ بھائی نے اس کتاب کی تیاری میں اک صدمۂ جانکاہ دل میں لئے ، سینے میں جواں سالہ بیٹے کی جدائی کا غم چھپائے ، جس محنت اور لگن سے کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں حوصلہ اور عزم صمیم بخشا اور انہوں نے وقت برحق کو رضائے الہٰی مانتے ہوئے سر تسلیم کرلیا۔ وہ اپنی تحریروںمیں یہ ثابت کرتے ہوئے دیکھائی دیئے کہ مشیت ایزدی کے سامنے سر جھکانا ہی ایمان کی شرط اور زندگی کی اصل ہے۔ ‘‘(ص:18)
شکیب اکرم سوز کی والدہ سیدہ نزہت جہاں قیصر اپنے مغموم دل کے ساتھ اپنے پیارے بابو کا سوانحی خاکہ پیش کرتی ہیں ۔ شکیب اکرم کی تعلیم ، خاندانی حالات اور زندگی کے آخری سفر کو پُر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔
’’نقو ش دلِ حزیں ‘‘ کے عنوان سے اپنے لخت جگر کا غم بیان کرتے ہوئے محمد خورشید اکرم سوز لکھتے ہیں کہ 27مارچ 2021کو ہمارا لخت جگر محمد شکیب اکرم ہم لوگوں کو رضائے الہٰی سے ابدی جدائی کے غم میں مبتلا کرکے سفر آخرت پر روانہ ہوگیا اور ہم لوگوں کی زندگی ویران ہوگئی۔
’’شکیب اکرم کا سانحۂ ارتحال : ایک صدمۂ جانکاہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر شمع افروز زیدی (ایڈیٹر بیسویں صدی ، نئی دہلی ) لکھتی ہیں کہ میرے بھائی خورشید اکرم سوز کو شاید برسوں قبل آگاہی ہوگئی تھی جبھی شاید انہوں نے شعری مجموعے کو ’’سوز دل‘‘ کا عنوان دیا۔ کیا انہیں معلوم تھا کہ انہیں اولاد جیسی نعمت ملنے کی خوشی کے بعد ایسا سوز ملے گا جس میں وہ تاحیات مبتلا رہیں گے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ، برداشت کی قوت اللہ کی جانب سے ودیعت ہوتی ہے مگر شرط ہے اللہ کی رضا میں راضی رہنا ، شکوہ نہ کرکے ہر حال میں اللہ کا شکر بجالانا ۔
معتبر نقاد حقانی القاسمی (نئی دہلی) ’’باغِ جہاں کا ننھا پھول : آہ! شکیب اکرم‘‘کے عنوان سے اپنی بیٹی انیقہ اور شکیب اکرم کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’27؍ مارچ 2021کو شکیب اکرم کی موت نے میرے غم کو 2؍ ستمبر 2019سے جوڑ دیا ہے۔ جب ویسی ہی کیفیت سے میں گزرا تھا جس کیفیت سے خورشید اکرم سوز گزرے ہیں۔ جان سے پیاری میری بیٹی انیقہ مجھے روتا بلکتا چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئی تھی اور میرے لیے ایک ایسی دنیا چھوڑ گئی تھی جس میں تاریکی، مایوسی، محرومی کے سوا کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ دراصل ننھے منے بچوں کی موت زندگی سے ساری رعنائی، زیبائی، رونق چھین لیتی ہے اور دل کو ایک شہر خموشاں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ہم دونوں ہی اب اسی شہر ملال کے باشندے ہیں جہاں ہماری تمنائیں اور آرزوئیں منوں مٹی تلے دفن ہیں۔‘‘ (ص:31)
حافظ کرناٹکی ایک نامور شاعر و ادیب ہیں۔ ’’یہ تیری جدائی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ کے عنوان سے موصوف لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ جو لخت جگر اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے ، جس کے ہونے سے پائوں کا کانٹا بھی گدگداتا ہے ۔ ا س کے روشن مستقبل کے لیے، اس کی بہترین تعلیم کے لیے، اسے عالم انسانیت کی خدمت سے قابل بنانے کے لیے اسے خود سے الگ کرکے کسی مادر علمی کی آغوش میں ڈالتے وقت بھی ایک جریب طرح کی امید افزا شادمانی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہی لخت جگر وداع ہوتے وقت پلٹ کر اپنے والدین پر الوداعی نظر ڈالتا ہے تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ بہت اندر سے چیخ نکلتی ہے:
یہ تیری جدائی ہے کہ تقسیم ہماری
محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں
’’اقبال کا مردِ مومن :شکیب اکرم ‘‘ راشد احمد کی فکر قلم کا نتیجہ ہے۔ سوگوار فضا میں راشد احمد لکھتے ہیں کہ شکیب اکرم عزیز بھائی خورشید اکرم کا اکلوتا بیٹا، جو شاید جنت کی کسی کھڑکی سے اپنے اس نادیدہ چچا کو یہ سب لکھتا ہوا دیکھ رہا ہوگا۔ نادیدہ چچا، کیونکر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا۔ مگر میں اس کے بارے میں بہت کچھ جانتاہوں ۔ جاننے کی طرح نہیں بلکہ محسوسات کی سطح سے اسے جانتا ہوں۔ یہ عمر نہیں ہوتی رخت سفر باندھنے کی لیکن اللہ کی مصلحت وہی بہتر جانتا ہے۔
فخر الدین عارفی ’’وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ خورشید اکرم سوز کے ساتھ ایک زبردست حادثہ ہو ا اور ان کا لخت جگر محمد شکیب اکرم ان سے ایک حادثے کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا ۔ ا س حادثے کے گہرے اثرات آج بھی خورشید اکرم سوز کے ذہن و دماغ پر ثبت ہیں ۔ وہ زندہ ہیں لیکن لخت جگر کی دائمی جدائی کے غم کے سائے میں ان کی زندگی بسر ہورہی ہے۔
رسالہ ’’مژگاں‘‘ کولکاتا کے مدیرڈاکٹر نوشاد مومن ’’شکیب اکرم ذکر تیرا بعد تیرے ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں یوں تو کئی حادثے رونما ہوتے ہیں جو سوز اور ساز دونوں کے باعث بنتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے طوفان بھی آتے ہیں جو اپنی تباہ کاریوں کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ تباہ کاریاں اتنی سنگین ہوا کرتی ہیں کہ زندگی ویران سی ہوجاتی ہے ۔ معروف شاعر خورشید اکرم سوز کی زندگی میں بھی ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جو سونامی کی مانند گزشتہ 19گروری 2021کو آیا اور ان کا جواں سال لخت جگر محمد شکیب اکرم ایک حادثے کا شکار ہوگیا۔
’’خبر کسے تھی چلے جائوگے اچانک تم‘‘ کے عنوان سے مراق مرزا لکھتے ہیں کہ خورشید اکرم سوز کے درد و غم کی شدت کو لفظوں میں نہیں پرویا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا غم ہے جو انسان سے زندگی کی تمام کشش ، تما م رغبت، رعنائی چھین لیتا ہے۔ یوں تو اس امتحان گاہ میں انسان نہ جانے کتنے چھوٹے بڑے حادثات و سانحات سے گزرتا ہے تاہم جواں سال بیٹے کے کھونے کا درد جان لیو ا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مظفر نازنین کولکاتا سے لکھتی ہیں کہ شکیب ایک نہایت ہونہار باصلاحیت اور سعادت مند نوجوان تھا۔ وہ صوم و صلوٰہ کا پابند تھا ۔ ضرورت مندوں کی بغیر تفریق مذہب و ملت مدد کرنا اس کا شیوہ تھا۔ اعلیٰ ترین اخلاقی اور مذہبی اقدار کا حامل تھا ۔ اس ہونہار اور سعادت مند بچے کے اس کم عمری میں گزر جانے سے یہ گلشن ویران نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر اقبال بشر (ایڈیٹر ’’ارباب قلم‘‘) اپنا مضمون ’’صوفی صفت انسانیت کا پیکر : محمد شکیب اکرم‘‘ کے عنوان سے قلمبند کرتے ہیں۔ شکیب اکرم کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ہمارے عزیز شکیب اکرم کا درد ایسا ہے جس کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ میں محمد شکیب اکرم کا شمار اس دنیا کے ان گنے چنے لوگوں میں کر سکتا ہوں جو اپنے پختہ ایمان ، بلند کردار، معیاری اخلاق اور ثابت قدمی سے حق کا دامن تھام کر صراط مستقیم پر چلتے ہوئے لوگوں کے دلو دماغ میں اپنی یادوں کے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔‘‘(ص:101)
احمد صفی ولد ابن صفی (لاہور، پاکستان) ’’مجھے آتا نہیں ہے تعزیت کرنا‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ میں نے شکیب میاں کے سانحہ ارتحال کے بارے میں بھائی خورشید کے ارسال کردہ پیغامات پڑھے مگر جو ذہنی کیفیت ہوئی اس کے بار ے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ انہوں نے کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ شکیب میاں کی مغفرت فرمائے ۔
ڈاکٹر کامران غنی صباؔ ایک نوجوان ناقد اور شاعر ہیں۔ ان کی تحریریں کافی متاثر کرنے والی ہوتی ہیں۔ ’’سوزؔ کی پرسوز کہانی ‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’والدین کے سامنے اس کا اکلوتا جواں سال بیٹا رخصت ہوجائے اس کرب کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ غم دیکھا ہو۔ خورشید اکرم سوز اور ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ نزہت جہاں قیصر نے اس آزمائش کی گھڑی میں بھی صبر و ضبط کے دامن کو اپنے ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں دیا ہے ۔ ایسے حادثات سے گزرنے کے بعد بھی صبر و شکر کا مظاہرہ ایمان والوں کا ہی اختصاص ہے۔ اللہ یہ صفت ہر مومن بندے کو عطا فرمائے۔‘‘ (ص:114)
اپنی نثری تخلیقات کے علاوہ بہت سی شخصیتوں نے تعزیتی نظمیں کہی ہیں۔ ’’خواب‘‘ کے عنوان سے پروفیسر غضنفر علی غضنفر کہتے ہیں:
ایک بیٹا
اور اس پر نوجواں
آنکھ کی ٹھنڈک تھا ، سر کا سائباں
ماں کی آنکھوں کا ستارہ
باپ کا نور نظر
جس کے دم سے راکھ کے اندر بھی رقصاں تھا شرر
اڑ رہے تھے جس کے پر سے طائر بے بال و پر
ڈاکٹر عطا عابدی ’’حسرت ان غنچوں پہ ہے (مظفر، انیقہ اور شکیب کے نام) ‘‘ نظم میں غم کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
شہادت کی بدولت وہ کئی معنوں میں زندہ ہے
زمیں پر سرخرو ہوکر فلک والوں میں زندہ ہے
مری آنکھوں میں وہ رنگوں کی صورت جھلملاتا ہے
مرے ماضی کا یہ قصہ مرے خوابوں میں زندہ ہے
یوں غم ہائے انیقہؔ و شکیبؔ اترے مظفرؔ پر
لگا ماضی کا زخم اب حال کے لمحوں میں زندہ ہے
ڈاکٹر رئوف خیر ’’بڑا تلاطم ہے بحر غم میں‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
شکیبؔ اکرم کے ساتھ رخصت ہوا شکیبؔ و قرار میرا
نہ ہے قضا کو لحاظ میرا نہ ہے قدر پر اختیار میرا
شکیبؔ اب ہوگیا ہے تیرا، شکیبؔ میرا کہاں رہا ہے
تو اپنے بندوں میں کرلے مالک شمار اس کا شمار میرا
بھلے ہی خورشیدؔ سوز ہوں میں کم کا محتاج روز ہوں میں
مجھے بڑا حوصلہ عطا کر ہے تجھ پہ غم آشکار میرا
کولکاتا سے اشرف یعقوبی صاحب ’’ہم بھلا سکتے نہیں مرگ شکیبؔ ‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں:
چہرہ چہرہ درد کی تصویر ہے
ہر نظر میں ماتمی زنجیر ہے
ہم بھلا سکتے نہیں مرگ شکیبؔ
سنگ پر لکھی ہوئی تحریر ہے
عالمی شہرت یافتہ اور سرزمین دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی اپنے قطعۂ تاریخ میں لکھتے ہیں:
غموں کی دے کر گئے جو دولت شکیبؔ اکرم
خدا سے ماں باپ پائیں رحمت شکیب اکرم
تمہارے جانے سے گھر کی رونق چلی گئی ہے
تمہارے دم سے تھی ساری زینت شکیبؔ اکرم
جو حکم ربی اب اپنے پاکر گئے جہاں سے
738
اس سے پائیں گے آپ جنت شکیب اکرم
738+1283=2021
کولکاتا کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے استاذ الشعراء جناب حلیم صابر صاحب شکیب اکرم کی غم میں نڈھال ہوکر قطعات اور رباعیات کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ ایک قطعہ ملاحظہ کریں:
خویش و اقارب ان کے نہ کیونکر ہوں غم زدہ
سوئے عدم جو سب کو گئے چھوڑ کر شکیبؔ
اللہ ان کو سایۂ رحمت میں دے جگہ
خورشید سوزؔ کے جو تھے نور نظر شکیبؔ
کتاب کے آخری حصے میں مشاہیر ادب، خورشید اکرم سوزؔسے محبت رکھنے والوں، شکیب اکرم کے غم میں صدمہ زدہ دل حضرات کے تعزیتی پیغامات ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی اپنے تعزیتی پیغا م میں لکھتے ہیں :’’آپ کے صاحبزادے محمد شکیب اکرم کی وفات حسرت آیات کا سن کر بے حد افسوس ہوا۔ اس طرح کے حادثات کا تحمل آسان نہیں ہوتا۔ تاہم بندئہ مومن کے لئے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ وہ اس کو اللہ کی رضا سمجھے اور وہی کہے جس کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمائی ہے کہ ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
پروفیسر کوثر مظہری لکھتے ہیں کہ خورشید اکرم سوز کی زندگی میں جو خلاپیدا ہوا ہے ، رب کائنات اور خالق دوجہاں سے پر خلوص دعا کرتاہوں کہ اس کی تلافی کردے اور ان کے رنج و غم پر مسرت اور صبر و تحمل کی ردا ڈال دے۔ آمین یارب العالمین!
سید محمود احمد کریمی ایک ماہر مترجم اور تخلیق کار ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ انہوں نے اپنے درد و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دل کو چاک کرنے والا واقعہ ہے اور دماغ کو چونکانے والا المیہ ہے۔ جس نے غم زدہ والدین، رشتہ دار اور بحیثیت انسان عوام کے دلوں کو دہلا دیا ہے۔
ڈاکٹر رینو بہل (چنڈی گڑھ) اپنے تعزیت نامہ میں لکھتی ہیں کہ آپ کے جوان ، ہونہار، لائق ، سعادت مند اکلوتے بیٹے شکیب اکرم کا اچانک اس دنیا سے رخصت ہوجانا ایک ایسا سانحہ ہے جن کے لئے الفاظ ساتھ نہیں دے سکتے۔ یقین مانئے میری کوئی اولاد نہیں مگر خبر سن کر میرے دل کو اس طرح دھکا لگا جو ایک ماں کو لگتا ہے ۔ کاش میں کسی قابل ہوتی تو آپ کا دکھ مٹانے کی بھرپور کوشش کرتی۔
ان تعزیتی مضامین، نظموں، قطعات ، رباعیات، تعزیت نامے اور تاثرات کے علاوہ بہت سے ادیبوں اورشاعروں نے اپنی تخلیقات اور اپنے اشعار کے ذریعہ شکیب اکرم کی رحلت پر غم و رنج کا اظہار کیا ہے۔ مختصر سے تاثر میں سارے حضرات کا تذکرہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے میں معذرت خواہ ہوں۔
آخر میں شکیبؔ اکرم کے لئے بہت دعا گوں ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے او ر ان کے والدین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ثم آمین
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, Darbhanga – 846004
Mob: 9431414808