مرحوم قلم کاروں کو یاد کرنا اور خراج عقیدت پیش کرنا ایک مستحسن روایت

0
0

جلسہ یاد رفتگاں سے ادبا و شعرا کا خطاب
لازوال ڈیسک
گلبرگہ ؍؍وہ معاشرہ جو اپنے مرحومین، دانشوروں، ادیبوں اور فنکاروں کو فراموش کردیتا ہے، بے حس اور خود غرض ہوتا ہے۔بچھڑنے والوں کو یاد کرنا اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنا ایک مستحن روایت ہے۔ان خیالات کا اظہار صدارتی خطاب میں ڈاکٹر پیر زادہ فہیم الدین صدر انجمن نے ،انجمن ترقی اردو ہند (شاخ) گلبرگہ کے زیر اہتمام، علاقہ کلیان کرناٹک کے ممتاز شاعر سعید عارف اور نامور افسانہ نگار سمیرا حیدر کے سانحہ ارتحال پر منعقدہ جلسہ یاد رفتگاں میں کیا۔ڈاکٹر پیر زادہ فہیم الدین نے دونوں قلمکاروں کی حیات و صفات کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پیش رو مقررین نے ان شخصیات پر اظہار خیال کرتے ہوئے رمق بھر بھی مبالغے سے کام نہیں لیا ہے۔جناب حامد اکمل نے اظہار خیال کرتے ہوئے سمیرا حیدر سے اپنے طویل مدتی مراسم کے حوالے سے کہا کہ وہ تخلیقی زرخیزی کی حامل سنجیدہ فکر افسانہ نگار تھیں۔انھوں نے کہا کہ سمیرا حیدر کے شوہر ناظم خلیلی بھی نامور افسانہ نگار تھے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ناظم خلیلی کوئی افسانہ آدھا لکھتے اور سمیرا حیدر کو مکمل کرنے کے لیے کہتے۔وہ بآسانی افسانہ مکمل کرتیں اور افسانے میں کہیں شائبہ نہ ہوتا کہ اسے دو افسانہ نگاروں نے آدھا آدھا لکھا ہے۔ڈاکٹر جلیل تنویر نے سعید عارف کی شخصیت سے متعلق اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ سعید عارف ان کے ہم محلہ اور ان کے بڑے بھائی رشید جاوید کے قریبی دوست تھے۔شعری صلاحیتیں ان میں پیدائشی تھیں، لیکن 1990 کے آس پاس محب کوثر اور صبیح حیدرصبیح کی مستقل صحبتوں نے ان کے اندر کے شاعر کو اجاگر کیا۔اس کے بعد وہ مسلسل لکھتے رہے اور ایک کامیاب شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ڈاکٹر جلیل تنویر نے مزید کہا کہ سعید عارف کی شخصیت آئینے کی طرح شفاف تھی۔وہ بیحد شریف النفس، سادہ مزاج اور وضع دار انسان تھے۔جناب سید قائم رضا زیدی نے اپنی ہمشیرہ خورد سمیرا حیدر کی زندگی کے مہد تا لحد سفر کی روداد نہایت دل گداز انداز میں بیان کرتے ہوئے سمیرا حیدر کی افسانہ نگاری کے آغاز اور ارتقا کے تناظر میں ان کی افسانہ نگاری کا جامع جائزہ لیا۔جناب واجد اختر صدیقی نے اپنے اظہار خیال میں سعید عارف کی شخصیت اور شاعری کا بھرپور احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ سادگی اور منکسرالمزاجی سعید عارف کی ذات کا خاص وصف تھی۔شائستگی اور ملنساری سے متصف ان کی شخصیت جھوٹ، مکر و فریب، خود نمائی اور غرور و گھمنڈ جیسی علتوں سے پاک تھی۔واجد اختر صدیقی نے سعید عارف کی شاعری کو ان کی شخصیت کا پرتو بتاتے ہوئے کہا کہ نیکی، سچائی اور پاکبازی کے علاوہ اصلاح معاشرہ کا مقصد ان کے کلام میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔اس موقع پر جناب مقبول احمد نئیر نے ان قلمکاروں کے تئیں اپنے جذبات کو اشعار کی صورت میں پیش کیا۔ڈاکٹر انیس صدیقی معتمد انجمن نے دونوں قلمکاروں کی رحلت پر الگ الگ تعزیتی قراردادیں پیش کیں۔سعید عارف کو گلبرگہ کی رخشندہ شعری روایات کے پاسدار قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سعید عارف کے کلام میں جہاں کلاسیکی رچاؤ ملتا ہے وہیں جدید لب و لہجے کی آہٹ بھی ان کے کلام کو وقار عطا کرتی ہے۔سمیرا حیدر سے متعلق قرارداد تعزیت میں انھوں نے کہا کہ وہ منفرد پہچان کی حامل با اعتبار افسانہ نگار اور خاموش طبع سنجیدہ فطرت خاتون تھیں۔جلسہ یاد رفتگاں کے آغاز میں جناب طیب یعقوبی نے خوش کن لحن میں حمدیہ اشعار اور معروف خوش فکر نعت گو انجنیئر سخی سرمست نے نذرانہ نعت پیش کیا۔جناب میر شاہ نواز شاہین نائب صدر نے جلسے کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے حاضرین کا خیر مقدم کیا۔جناب محمد جاوید اقبال صدیقی نے جلسے کی کارروائی نہایت دل پذیر انداز میں چلائی۔جناب محمد مجیب احمد خازن انجمن کے اظہار تشکر پر یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔باذوق احباب کی کثیر تعداد میں شرکت نے جلسے کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا