اہل اور نا اہل کوسمجھے بغیر کامیابی ممکن نہیں

0
0

 

ابراہیم آتش گلبرگہ کرناٹک 9916729890

 مسلمانوں میں آج سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اچھے اور برے قابل اور بے وقوف مخلص اور مفادپرست ریا کار اور حقیقت پسند کی تمیز کرنے سے قاصر ہیںیہی وجہہ ہے کہ مسلمان دنیا میں ذلت اور پسپائی سے دو چار ہیں میں اس مضمون کو تحریر کرنے سے پہلے پانچ سال پہلے کا مضمون کا ذکر کرنا چاہوں گا جو ملک کے بہت سے اخباروں میں شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا,, ہندوستان کو اسپین بنانے کی کوشش آخری مرحلے میں,,جب یہ مضمون شائع ہوا بہت سے لوگوںنے اس کو پڑھااور اخبارات مےؒ شائع ہونے والے تمام مضمون میں فیس بک میں پوسٹ کر دیتا ہوںامید ہے وہاں محفوظ رہیں گے بہرے حال جب میں فیس بک میں پوسٹ کیا تو ایک ممبئی سے صاحب نے کامنٹس میں لکھا ایسا ہونا نا ممکن ہے اور ان کا کہنا اس وقت بلکل جائز تھا کیونکہ حالات آج کے جیسے نہیں تھے اور میں سمجھتا ہوں ان کوآج میرا یہ مضمون صحیح لگ رہا ہوگا اسپین بنے نہ بنے آج ملک کے حالات اس سمت رخ کرتے ہوئے ہمیں نظر آ رہے ہیں اس بات سے کو ئی انکار نہیں کر سکتا عام مسلمان مستقبل کے حالات کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں اور ملک کی موجودہ حالات کے لئے یہی وہ لوگ ذمہ دار ہیںجو مسلمانوں کی قیادت اور مسلمانوں کے لیڈراور رہنمائوں کو منتخب کر رہے ہیںمسلمانوں کی اکثر یت اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی رائے نہیں ر کھتی ان کے پاس اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان کس طرح سے سر خرو ہو سکتے ہیں موجودہ حالات میں اردو اخبارات میں لکھنے والے قلم کے ذریعہ جہاد کر رہے ہیںحکومتوں سے سوال کر رہے ہیںسیاسی لیڈروں سے سوال کر رہے ہیںعلمائوں سے سوال کر رہے ہیںآج کے دور میں حکومت سے سوال کرناگویا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کتنے ہی لوگوں کو حکومت سے سوال کرنے کی سزا مل چکی ہے آج مسلمانوں کو ایک ہی سہارا ہے مسلمانوں میں جو دانشور ملک بھر کے اخبارات میںاپنی رائے اور تدبیر اور حکمت تحریر کرتے ہیںاس سے استفادہ حاصل کیا جائے ابھی غنیمت جانئے اردو اخبارات اور اس میں لکھنے والوں پر کسی کی بری نظر نہیں پڑی ورنہ مسلمان کو اندھیرے سے نکالنے کے لئے جس روشنی کی ضرورت ہے وہ روشنی بھی نہ مل سکے گی اردو اخبارات میں لکھنے والوں کی عزت ہو ان کی قدر ہو معاشرے میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے ان لکھنے والوں کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ بے شمار قربانیاں ہیں بدلے میں انھیں کیا مل رہا ہے کچھ بھی نہیںاس کے باوجود وہ لوگ اخلاص کے ساتھ اپنے دل میں ملت کا درد رکھتے ہیںاپنے درد کو بیان کرتے ہیں انھیں کسی بھی طرح کا تحفظ فراہم نہیں ہوتا ہمارے لیڈرس انھیں پہچانتے بھی نہیں اس لئے ہمارے لیڈرس اردو اخبارا ت پڑھتے ہی نہیں ہیںہمارے معاشرے میں جو ملی ادارے ہیںانھیں بھی ان دانشوروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہاںاگر کوئی ان کے ادارے سے جڑا ہو تو اس شخص کی بہت تعریف کی جاتی ہے اگر ان کے ادارے سے جڑا ہوا نہیں ہے وہ چاہے کتنا بھی اچھا لکھنے والا ہو ان کے پاس کوئی اہمیت نہیں ہوگی اردو اخبارات کے ساتھ اردو اخبارات کے ایڈیٹرس کی بھی تعریف کی جانی چاہئے آج کے دور میں صحافت کے ذریعہ وہ جہاد کر رہے ہیںمسلمانوں میں شعور پیدا کر رہے ہیںمسلمانوں کو آنے والے حالات سے آگاہ کر رہے ہیںمگر اس قوم کی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ان ایڈیٹرس کو ان کی قابلیت اور ذہانت کی بنا پر ان سے کوئی استفادہ کرنے کو تیار نہیں ہے مسلمانوں ان یکسر بھولا دیا نہ ایڈیٹرس کو مسلمانوں کی ادبی جلسوں میں بلایا جاتا ہے نہ سماجی اور سیاسی جلسوں میں بلایا جاتا ہے مسلمان کیوں یہ بھول جاتے ہیں ان ایڈیٹر س کا قوم کے لئے بے پناہ جذبہ جن کی زندگی کا بیشتر حصہ اس ملک کو سمجھنے میں یہاں کے لوگوں کو سمجھنے میں گذرا ان ایڈیٹرس حضرات نے حکومتوں کو جتنی قریب سے دیکھا ہے شاید ہی کوئی اور دیکھا ہوگاملک بھر کے تمام واقعات سے سیاسی پارٹیوں کی چھوٹی بڑی سرگرمیوں سے وہ اچھی طرح واقف ہوتے ہیں ملک بھر کے تمام سماجی ادارے ان کی نظر سے بچ نہیں سکتے جن اداروں کی وجہ سے آج حکومتیں اقتدار میں ہیںمگر اس سوئی ہوئی قوم پر سانپ سونگھ گیا ہے کبھی ان کے خیالات کو جاننے کا موقع حاصل نہیں کر سکے اس کے بجائے ان لوگوں کو عزت دی جاتی ہے جو گلی کوچوں کی نالیاں صاف کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیںیا پھر انھیں بلایا جاتا ہے جو سال دو سال بھی نہیں ہوئے ہوتے کسی مدرسے فارغ ہوئے جبکہ ان ایڈیٹرس کا تجربہ ان کی عمر سے زیادہ ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بہت عزت ہے جن کا ملت سے کوئی تعلق نہیںجذباتی تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں یا پھر مسخرے قسم کے لوگوں کو سر پر بٹھا لیتے ہیںایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو اپنے آپ کو شاعر کہتے ہیںاور مشاعروں میں ہنسی مذاق کا ذریعہ بنتے ہیںاور روپیہ بٹورتے ہیںآج مسلمانوں کے لئے کسی بھی طرح کے مشاعروں کی ضرورت نہیںآج کا دور ہمارے لئے ایمرجنسی جیسا ہے جہاں مسلمانوں کو چن چن کر داڑھی دیکھ کر مارا جا رہا ہے غریب مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اب وقت ہے سنجیدگی سے اپنے مستقبل کے بارے میںغور و فکر کریں اپنے مستقبل کو کس طرح تحفظ بنایا جا سکتا ہے حالیہ کچھ سالوں میں ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوگا جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشددد نہ ہوا ہو اگر ہم اب بھی مشاعروں میں واہ واہ اور مکرر کرتے رو جائیں گے تو ہم اپنی نسلوں کی حفاظت نہیں کر پائیں گے آنے الی نسلوں کی بہت دور کی بات ہے ہماری نسل ہی نسل ہی نہیں بچے گی تو آنے والی نسلوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مسلمانوں کے تمام وہ لیڈرس چاہے آپ ملک کے کسی بھی حصے سے کامیاب ہوئے ہوں یہ بات رکھیں آپ مسلمانوں کے ووٹوں کی وجہہ سے کامیاب ہوئے اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قابل اور ذہین ہیں بلکہ آپ کا چنا جانا وقت کی ضرورت اور حالا ت آپ کے موافق ہیںاس کو اتفاق بھی کہا جا سکتا ہے اگر آپ کے بجائے کوئی دوسرا مسلم امیدوار ہوتا تو وہ بھی یقیننا کامیاب ہوا ہوتا ۷۵سال سے مسلم سیاسی لیڈر شپ مسلمانوں کو کسی بھی میدان میں ترقی نہیں دلا پائی آپ کے اطرا ف مافیا قسم کے لوگوں کا تانتالگا رہتا ہے وہ مسلمانوں کے کسی طرح سے ہمدرد نہیں ہو تے ان کا مقصد آپ کے ذریعہ روپیہ بٹورنا ہوتا ہے اپنا مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے عہدے حاصل کرنا ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیںموجودہ حالات میں آپ کو ویسے لوگوں کی ضرورت ہوتاکہ الیکشن میں جیت سکیں مگر وہ آپ کے مستقبل اور مسلمانوں کے مستقبل سے لا علم ہوتے ہیںان کے پاس اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ حالات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے دوسری قوموں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات ہوںاس لئے ضروری ہے آپ اپنے حلقے میں ایک ایڈوائزری کمیٹی کا قیام کریں چنندہ لوگوں کو شامل کریںجو شعور رکھتے ہوں جن کے پاس دور اندیشی ہوجو حکمت جانتے ہوں اور مخلص ہوں ورنہ ایک دن ایسا آئے گا نہ آپ کی سیٹ بچے گی اور نہ مسلمان اور نہ وہ آپ کے اطراف رہنے والے بچیں گے شدت پسندی کا مقابلہ شدت پسندی سے نہیں کیا جا سکتا شدت پسندی کا مقابلہ حکمت سے کرنا ہوگا مسلمانوں کی طرف سے کسی جارحانہ عمل نہ ہو یہاں تک کسی بھی جلوس میں مسلمان ایسے نعرے نہ لگائیں جس سے دوسری قوموں کو طیش آ جائے اور نہ ہی مسلمان اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں ہمیں یہ جان لینا ضروری ہے ملک میں اور ریاستوں میں ہماری طاقت کتنی ہے ہو سکتا ہے کسی ایک تعلقہ یاضلع میں اچھی طاقت ہو مگر وہ تعلقہ یا ضلع ریاست اور ملک سے الگ نہیں ہے مسلمانوں کے جلسوں میں وہ نعرے ,, مسلمانوں متحد ہو جائو,, اگر تم متحد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی,, کیا اس طرح کے بیان عام جلسوں میں دینا ضروری ہے جہاں سے دوسری قوموں کو یہ پیغام مل جائے کئی دہوں سے اس طرح کے نعرے فضائوں میں گونج رہے ہیںمگر مسلمان متحد ہونے کو تیار نہیں ہیںاس کا مطلب یہ ہوا کہ اتحاد کے لئے ہمیں دوسرا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور وہ خالص مذہبی اور دینی راستے کے ذریعہ ہی ممکن ہے کسی کو کھانا کھانے کے لئے ہمیں بیان دینے کی ضرورت نہیں کسی کو سانس لینے کے لئے ہمیں بیان دینے کی ضرورت نہیں ہے جاندار دنیا میں تمام مخلوقات اپنا انتظام خود کر لیتے ہیںاسی طرح مسلمان جب کلمہ پڑھ لیتا ہے اس پر یہ چیزیں لازم ہو جاتی ہے مسلمان متحد ہوںایک دوسرے کے لئے قربانی دیںاپنے اندر صبر پیدا کریںیہ سب باتیں جمعہ کے بیانوں میں بارہا سن چکے ہیںپھر اس کے بعد سڑکوں پر چوراہوں پر میدانوں میں اتحاد کی بات کر کے دوسری قوموں میں اتحاد پیدا کر رہے ہیں اور اپنے سے دور پیدا کر رہے ہیںاور آج کے حالات اسی کا نتیجہ ہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا