ازقلم خان شبنم فاروق
آج تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے اچانک ہی ایک صفحہ پر ہاتھ تھم سا گیا ، جہاں جَلی حرفوں میں یہ عنوان درج تھا ” دی گریٹ فائر آف روم "۔ عنوان ہندوستان کے حالات پر ہوبہو صادق آرہا تھا لہذا متن کو دیکھنے کا دل ہی نہیں چاہا کہ کہیں اندر کا مواد بھی تشدد پر مبنی ہی نہ ہو ۔ لیکن دماغ ہمیشہ نئے جہان سے منطق تلاش کر کر کے لاتا ہے ۔پھر کیا تھا منطق کے آگے پسپا ہوکر میں نے متن پر سرسری نظریں دوڑائی تو حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ یوں محسوس ہونے لگا گویا مجھے عنوان پڑھنے میں غلطی ہوئی ہو ، میں پھر سے عنوان کا صفحہ کھولی اور چشمہ ٹھیک کرکے پڑھی تو وہی الفاظ درج تھے جو میں پڑھ چکی تھی ” دی گریٹ فائر آف روم ” ۔
میری حیرانگی دور ہونے میں ایک طویل سانس کا ہی وقفہ تھا ۔ در حقیقت ظالموں میں واقعی کہیں نا کہیں یکسانیت ہوتی ہے ۔ پہلی چیز ان ظالموں میں جو یکساں ہوتی ہے وہ ہے بےحسی ، اس کے بعد ان کے جبرو تشدد والے کارنامے انہیں مشترکہ محاذ پر یکساں کرتے ہیں ۔ ” دی گریٹ فائر آف روم ” کی حقیقت ” دی گریٹ فائر آف انڈیا ” سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے یا یوں کہہ لیں بس جگہ الگ الگ ہے باقی واقعات دونوں کے ہو بہو ہیں ۔
روم کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ نیرو روم کا پانچواں قیصر تھا جو حادثاتی طور پر تخت نشین ہوا ۔ نیرو اپنے باپ کا لے پالک بیٹا تھا جو کلاڈیوس یعنی اس وقت کے چوتھے قیصر کا بھانجا تھا۔ کلاڈیوس نے وفات سے قبل تخت کا جانشین نیرو کو منتخب کیا ۔ ابتدا میں نیرو کے سیاہ کارنامے سے لوگ کم ہی واقف رہے ، بعد میں اس کے سیاہ کارنامے اتنے بڑھ گئے کہ اس نے نئے روم کی تخلیق کےلیے روم کو آگ کی نذر کردیا ۔ اس کی منشا تھی کہ روم کی آباد کاری نئے سرے سے کی جاۓ ۔ لہذا تاریخ کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ نیرو نے منصوبہ بند طریقے سے روم کو آگ کی نذر کردیا ۔ روم جس وقت آگ میں جھلس رہا تھا اور روم کے باشندے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ اس وقت یہ جنونی شخص ایک پہاڑ پر بیٹھ کر اس خونی منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا اور سکون و چین سے بانسری باجا رہا تھا ۔ تقریباً پانچ دنوں تک مسلسل آتشی شعلے لپک لپک کر اپنی جیت کی خوشیاں مناتے رہے۔ جبکہ روم کے درو دیوار اس آتشی جیت میں بھسم ہوکر ریزہ ریزہ ہورہے تھے ۔ معاملہ جب کچھ سرد ہوا تو نیرو نے ان لوگوں پر ہی مقدمہ دائر کردیا جو اس ظلم کی آگ سے بال بال بچ گئے تھے ۔ یعنی آگ میں بچ جانے والوں پر ہی آگ لگانے کا الزام عائد کردیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا ۔
اگر آج ہم ہندوستان سے اس واقعے کا موازنہ کریں تو ہمیں محسوس ہوگا صرف جگہ اور حاکم کے نام کی تبدیلی کی ضرورت ہے باقی حالات بالکل یکساں ہے ۔ بلکہ ہند کی آگ زیادہ سیاہ اور زائد عرصے سے لگائی گئی ہے جو بجھنے کے بجائے روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ہندوستان کے درودیوار چیخ چیخ کر ظالم کا نام لے رہے ہیں لیکن مقدمہ ان پر دائر کیا جارہا ہے جو بےبس اور مجبور ہیں جو کسی نا کسی طرح اپنی جان بچا پائے ہیں ۔ جو حقیقت میں اس تشدد کا مجرم ہے وہ تو چین کی بانسری بجاتے ہوئے ان واقعات سے لطف اندوز ہورہا ہے ۔لیکن ہاں ! فائر آف روم کا اختتام مکافات کی زبردست مثال ہے ۔اور اس بات کی دلیل ہے کہ ظلم کو ثبات نہیں اور ظالم کو پناہ نہیں وہ اپنے ہی حجرے میں خوف کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
جس طرح روم کے نیرو کی زندگی ہوگئی تھی ۔
یہ آیت بھی اختتام پر صادق آتی ہے کہ ” اور ہرگز ﷲ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے "(سورہ ابراھیم ٤٢) بیشک ﷲ ظالموں سے واقف بھی ہے اور ان سے بدلہ لینے والا بھی ہے ۔ یہ ظالم اپنے ہی ظلم کے شکنجہ میں پھنس کر تباہ ہوجایں گے جس طرح تاریخ کے وہ تمام ظالم و جابر حکمراں ہوئے ہیں ۔ کوئی ایک ظالم شخص بھی ایسا نہ ہوگا جس کی موت فطری ہوئی ہوگی ۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیں نمرود ، آزر، ہامان ، قارون ، فرعون ، ابوجھل ، ابولہب ، آئیون (جس کے تشدد سے اس کا بیٹا بھی نہ بچ سکا) مہیب ، بیلجیئم کا لیوپالڈوان ثانی ،مسولینی ( اسے ہٹلر کا لیڈر بھی کہا جاتا ہے جس نے اٹلی میں اس قدر ظلم ڈھاۓ کے 7 فیصد آبادی کا خاتمہ ہوچکا تھا ) ، ہٹلر ،جوزف سٹالندور وغیرہ یہ سارے وہ ظالم ہیں جنھوں نے ظلم کی انتہا کردی اور آخر میں بےبسی کی موت نے انہیں آلیا ۔ اسی طرح نیرو جس نے روم کو آگ کے حوالے کردیا تھا ۔ جب بادشاہت تبدیل ہوئی اور حقیقت کا پردہ فاش ہوا تو نیرو کو موت کی سزا سنائی گئی لیکن خود کو قید کی ذلت سے بچانے کےلیے اس نے حرام موت کو اختیار کیا اور خودکشی کرلی ۔
یہاں ایک بات میں دونوں واقعات سے ہٹ کر کرنا چاہوں گی وہ یہ کہ حکمران کو اتنا پاور کون دیتا ہے جس کے بل پر یہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر اپنی مرضی سے چلاتے ہیں ۔ یقیناً کہ اس کا جواب” عوام ” ہے ۔ عوام حکمران کا ہاتھ اس وقت نہیں پکڑتی جب وہ عوام کے محصولات سے اپنے محلات تیار کررہا ہوتا ہے ، اسی محل میں بیٹھ کر عوامی جگہوں کو فروخت کرنے کےمنصوبہ بنارہا ہوتا ہے ، مزید اس پر اس کا ذمہ دار بھی عوام کو ہی ٹھراتا ہے ۔ اگر اس وقت اس غاصب کا گلا دبوچ لیا جائے۔ تو یقیناً کسی حکمران میں اتنی مجال نہیں کے وہ عوام کی زندگی سے کھلواڑ کرسکے ۔ "دی گریٹ فائر آف روم” تو اپنے سیاہی کے ساتھ تاریخ میں درج ہے ۔لیکن "دی گریٹ فائر آف انڈیا” کا اختتام اب بھی خوشگوار ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ نہ ہمارے ملک میں بادشاہت کا راج قائم ہے اور نہ ہی ہمغلام ہیں ۔بلکہ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے۔ یہاں عوام کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے لیڈر کا انتخاب خود کرسکتی ہے ۔ لہذا ہند کی عوام ہوش کے ناخن لے اور سمجھ بوجھ سے پارٹیوں کے نمائندوں کا انتخاب کرۓ، راۓ دہندگان ووٹوں کی تقسیم کرنے والوں سے بچتے ہوئے حکمت عملی کا مظاہرہ کریں اور صحیح ووٹ کا استعمال کریں ، کیوں کہ اب مظاہرے اور احتجاج بھی مخصوص گروہ کو ہی فائدہ پہنچانے لگے ہیں۔اب الیکشن پر ہی توجہ مرکوز ہے کہ
” الیکشن سے ہی وابستہ ہے امیدیں میری”
کیوں کہ الیکشن کے ذریعے ہی اس جنونی حکمران پر قدغن لگایا جاسکتا ہے ۔