ڈاکٹر غلام مصطفےٰ ضیا
ہر ایک مسئلہ اس قدر سنجیدہ نہیں ہوتا جیسا کہ بولنے کا حق اور آزادی کا ہے ۔ کسی مفکر نے خوب کہا تھا میں زندہ ہوں اس لئے کہ میں بولتا ہوں ذاتی طور پر میں آزادی کے تصور میں انسان کی زندگی اور اس کی رمق محسوس کرتا ہوں کیونکہ آزاد انسان خاموش رہنے کی بدعت سے محفوظ ہوتا ہے جو کسی حد تک آپ سب کے لئے بھی ایک سچ ہوگا ۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل ہوں یہ روٹی کپڑا مکان کی مانگ ہر ایک کا تعلق انسان کی پیشکش اور مظاہرے سے ہے ۔وہ لوگ جو بولتے ہیں وہی اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے میں کامیاب ہوتے خاموشی اپنے ہی حقوق پر شب خون کے مترادف ہے ۔
سنا ہے ہمارے ملک کے تین عہدے بڑی طاقت کے حامل ہیں پرائم منسٹر ، چیف منسٹر اور ڈپٹی کمشنر، ہمارے پرائم منسٹر صاحب اتنا بولتے ہیں کہ ان کے برابر بولنے کا سوچنا بھی سورج کو چراغ دکھانا ہے اور ریاست جموں وکشمیر چیف منسٹر سے تو خیر کافی عرصہ ہوا محروم ہے جس کی مستقبل قریب میں کوئی بڑی امید بھی نہیں کی جاسکتی اور یونہی مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیر رہا تو چیف منسٹر صاحب کا ہونا نہ ہونا دونوں صورتوں میں کسی طرح کی خوشی کی کوئی بات نہیں ۔ اس وقت مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر بیوروکریٹس کی من مانی کا اڈا اور اپنی واہ واہی کی منڈی ہے۔ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر خود ساختہ احکامات جاری کر عوام سے اس کی پیروی کا پابند ہے ۔ کسی بھی جمہوری نظام میں جمہوریت کا فقدان صرف لوگوں کی بات نہ سننے تک مرکوز سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم آئین ہند کے وفادار لوگوں کی بد قسمتی کا حال تو دیکھیے کہ اسی جمہوری قانون کی کسی نہ کسی قانونی شق کاشکار بنا کر ہمیں دھمکایا جاتا ہے خاموش کر دینے کا راستہ تلاش کیا جاتا ہے ۔اور یہ جواز رکھا جاتا ہے کہ ہم نے قانون ہاتھ میں لے رکھا ہے ۔
پندرہ اگست 1947 کو ہمارا ملک انگریزوں کے جبر اور اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ آزاد ہوا تھا ، اس قانون نامی ہتھیار نے ہم تمامی بھارتیوں کو آزاد کہا تھا اس یقین کے ساتھ کہ یہ ہمارا ملک ہے اس میں رہنے بسنے والے ہر شہری کی حفاظت اس کے تشخص کی پاسداری اور قوم و قبائل کی ذمہ داری کے تحت یہاں اپنے لوگوں کے سامنے اپنی حق بات رکھنے کی آزادی کے ساتھ ہمیں آزاد کیا جارہا ہے۔ آزادی کی صبح روشن کی خوشیاں مبارک پیش کرنے والوں میں یہ کس نے سوچا ہوگا کہ ہر سال جب بھی پندرہ اگست کی خوشیاں منانے والے اسی ملک کے شہری اپنی ہی کسی مانگ کو لے کر سڑکوں پر ہوں گے تو ان کی مانگوں کی آواز کو اس دن کی خوشی میں حصہ داروں کے سامنے خطرے کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہیں خاموش کر دینے کا فیصلہ لیا جائے گا ۔ آپ سوچیں کہ مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا کلام اور بھیم راؤ امبیڈکر کے سامنے ایسی بات آجاتی تو وہ اس پر ناراض ہوتے یا کہتے کہ یہ ہماری آزادی کے جشن کے لئے روا ہے آپ یہ حق نہیں رکھتے کہ اپنی جائز مانگ ہمارے سامنے نہ رکھیں ہوا ، بادل ، بارش ، روشنی ، خوشبو ، خوشی ، محبت آپ محسوس کر سکتے ہیں ، چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کر سکتے۔ آزادی کا بھی ایسا ہی قصہ ہے ۔ یہ کوئی برتن یا دس بائی آٹھ کا پانا یا فیتہ بند تحفہ نہیں بلکہ احساس کا نام ہے۔ ایک جانور ، ایک سال کا بچہ اور ایک نابینا بھی بتا سکتا ہے کہ آزادی فضا میں گھلی ہوئی ہے کہ نہیں۔ میں اپنی بات احمد نوید صاحب کے بی بی سی میں شائع ایک کالم کے وسیلے سے مکمل کروں گا وہ کہتے ہیں ۔
جہاں دلیل سے آزادی ثابت کرنا پڑ جائے سمجھ لو آزادی نہیں آزادی کا دھوکہ ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آزادی کو کسی کے گلے میں اتارا نہیں جا سکتا ، گلہ آزاد ہو تو آزادی خود بخود گنگنانے لگتی ہے ، یہ ایک ایسا تصور ہے جس سے چبایا نہیں جاتا ، اس سے تھوپنا منع ہے ، مسلط نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سزا نہیں۔ آزادی کوئی سجا نہیں سکتا کیونکہ آزادی خود ایک زیور ہے ۔ آزادی کو کوئی بےگھر نہیں کر سکتا۔ باہر تنگ ہو جائے تو وہ دل و دماغ میں گھر بسا لیتی ہے۔ اور بولنے کی آزادی سے محروم کیا جانا تو گونگے سماج کی تشکیل ہے آزادی کے انکار کی دلیل۔
آزادی کی بے حرمتی سے خوف کھانا لازم ہے کیونکہ یہ یہ بے ضمیروں سے اپنی بے توقیری اور توہین کا انتقام غلامی کا شکنجہ کس کے لیتی ہے۔ کون سا شکنجہ ؟ جسمانی کہ ذہنی ؟ یہ بھی آزادی طے کرتی ہے ۔آزادی کا گلہ گھونٹنا دراصل اپنا گلا گھونٹنا ہے۔ تو بتائیں نا پیر پنجال میں ہورہے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی پابندی کا تعلق ان میں سے انسان کے بالعموم اور ایک ہندوستانی کے بالخصوص کونسے بنیادی حقوق چھین لینے کا فیصلہ ہے ۔ احمد نوید لکھتے ہیں ۔
"آزادی زود رنج ہے، اس کے نخرے، خرچے ، پسند نا پسند نظرانداز کرنے والوں کو آزادی بنجر تنہائی کی وادی میں دھکیل دیتی ہے اور پھر گاہے ماہے اپنی جھلک اور چھب دکھلانے کا عذاب نازل کرتی رہتی ہے۔ہاں آزادی کو بس ایک بار منایا جا سکتا ہے بارِ دگر نہیں”۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ آزادی ہم سے روٹھ کر دور کنارے چیخ ق پکار کی حالت میں ہے وہ گریہ کرے ہے ، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ اور تو ہے کہ محرومی کا شکار اسی کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ میں نے سنا کہ پونچھ کہ کسی شر پسند نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے گجر بکروالوں کے احتجاجی مظاہرے کو اپنی بد نیتی کا شکار بنانے کی خاطر اس میں آزادی کے نعرے ایک فیک ویڈیو کے ذریعے سوشل میڈیا پر مشتہر کیے اور اس سے وبال بنا کر پیش کیا آپ جانتے نہیں کہ گجر آج تک وادی کے لوگوں کی نظروں میں نفرت کا استعارہ کیوں ہیں صرف اس لئے کہ یہ ہندوستان سے محبت کا عزم رکھتے ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ وطن پرستی کے معاملے میں گجروں کی تاریخ کسی ثبوت کی محتاج نہیں بقول لال چند فلک
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
ایک بار غور کریں کہ ہمارے ملک کی آزادی کے ہر سپوت نے کیا آزادی کے نعرے کی مخالفت کی تھی ؟ حسرت موہانی سے لے کر ولبھ بھائی پٹیل تک ہر ہندوستانی بول کہ لب آزاد ہیں تیرے کی تصویر تھا اور اس تصور کے ساتھ انگریزوں کے سامنے سر بکف تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارا ملک انگریزوں کی حکمرانی سے آزاد ہوا۔ بتائیں نا آپ کے فتویٰ نے فراق گورکھپوری جیسے کٹر برہمن کو ان کے اس شعر کے عوض جس میں آزادی کا ببانگ دہل اعلان کس زمرے میں لا کھڑا کیا وہ تو کہتے ہیں ۔
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
پھر وہی نعرہ بھوک مفلسی جبر و استبداد، قہر و قیامت سے نجات ، اپنے حقوق پر شب خون مارنے سے بچنے کی خاطر سچ میں بھی پیش کر دیا ہوتا تو عیب تو کونسا عیب تھا۔ ایک طرف تو ہمارے کالجوں کے نام کرشن چندر جیسے کٹر مارکسیوں کے نام سے ہیں اور دوسری جانب یہ غیر اخلاقی رویہ کونسی انسانی حرکت سے تعبیر کیا۔جاسکتا ہے ۔
ہر ایک ملک ریاست قوم اور سماج میں آزادی کی مقدار ماپنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس کے لئے احمد نوید نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے مثلاً "گھٹن کے خاتمے اور کھلی فضا میں سانس لینا آزادی ہے۔ بد عقلی، اندھی منطق اور مریضانہ خود اذیتی کا پا بجولاں ہونا آزادی ہے ۔ انسانی تخیل کے پر شعوری طور پر نہ کاٹنا آزادی ہے۔ سچ بولنے پر تحفظ اور جھوٹ کا کڑا محاسبہ اور سچ کے نام پر جھوٹ تھوپنے کی حوصلہ شکنی آزادی ہے۔ بلاخوف و خطر کہنا، سننا ، اختلاف کرنا ، اختلاف کا احترام کرنا اور اختلاف کر کے بھی زندہ رہنا اور رہنے دینا ہی آزادی ہے ۔ اگر کسی باغ پر آزادی کا بورڈ لگا ہو اور وہاں صرف گلاب کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہو تو یہ باغ نہیں گلابوں کا جنگل ہے”۔
اور ملاحظہ فرمائیں جناب عالی آزادی آپ میں سے کسی کے گھر کی جاگیر نہیں یہ کوئی آپ کے گھر کا نوکر یا اسکولی بچہ نہیں جو آپ کی مرضی پر ساودان و ویشرام کا نام ہو جب کبھی آزادی کے چھوٹے دائروں کو اجتماعی فلاح کے نام پر ایک بڑے دائرے میں مدغم کر دیا جاتا ہے توچھوٹے دائروں کی شناخت مٹ جاتی ہے ایسے میں آپ کے اوپر وہ بڑے دائرے صرف فسطائیت ہی کی فضا قائم کر کے آزاد گھوم سکتے ہیں پھر اس نے چاہے کوئی بھی چولا پہن رکھا ہو۔ پھر اس کے تھیلے میں بہلانے والے کتنے ہی شاندار کھلونے کیوں نہ ہوں ۔بھلے اس کی ڈگڈگی سے کیسے ہی خواب بندھے ہوں۔ فسطائیت کی آزادی باقیوں کے لیے زنجیرِ غلامی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ اپنے اپنے دائروں کو سکیڑنے کی از حد کوشش کریں لیکن یاد رکھیں فسطائیت آپ ہی کے گرد ہالہ بنائے آپ کو چکرویو میں پھنسانے کی بے انتہا کوشش کرتی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جیسے ایک ریاست میں دو بادشاہ ممکن نہیں اسی طرح ایک سماج میں یا تو آزادی راج کر سکتی ہے یا غلامی۔ دونوں میں پرامن بقائے باہمی تب ہی ممکن ہے اگر آگ اور پانی میں سمجھوتہ ہو سکے۔ اس اصول کے علاوہ جو بھی دلیل دی جائے گی وہ دلیلِ واہمے کے سواکچھ نہیں۔ وطن پرستی اگر انسان کی آزادی اور آزاد رہنے کے تصور کے ہمراہ ہو تو ہی یہ کہنے کو جی چاہتا ہے ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
احتجاج کسی بھی شکل میں ہو اگر وہ حقائق پر مبنی ہے حقوق کی مانگ ہے اپنے بچوں کے مستقبل کی حفاظت کا ضامن ہے اپنے لئے جینے کی اور اپنی نسل و قوم کی حفاظت کی لڑائی ہے اس میں قبیلے کا عزم شامل ہے تو ایسے احتجاج پر روک لگانے کے بجائے ہر جگہ انتظامیہ کا فرض منصبی ہے کہ اس سے قبول کیا جائے ۔ ایسے با ہمت لوگوں کی دوربینی کو سراہا جائے انہیں آزادی کے ساتھ اپنی بات رکھنے کا حق دیا جائے ان سے مذاکرات چھیڑے جائیں اور ایک مکالماتی نظام کو فروغ عطا کرنے میں فضا ہموار کی جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے حقوق کی حفاظت پر شب خون مارنے والے حوصلوں کو پست کرنے میں کبھی کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کریں ، یہ ایک احتجاج ایک قبیلہ کی آواز کو دبانے یا صرف ایک ایس ٹی کا معاملہ نہیں ہر دور کے ہر نسل و قوم کے آدمی کا مسئلہ ہے ۔اس کے حق رائے اظہارو پیشکش کا مسئلہ ہے اور سب سے بڑی بات کہ یہ جمہوری قدروں کی پاسداری کا معاملہ ہے۔