’’آئو بچو! تمہیں بتائیں‘‘ : ڈاکٹر احسان عالم کی عمدہ پیشکش

0
0

نذیر فتح پوری
پونے

ڈاکٹر احسان عالم ہر موضوع پر لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ بچو ں کے لئے ، بڑوں کے لئے، بزرگوں کے لئے، ادیبوں کے لئے، شاعروں کے لئے اور نقادوں کے لیے بھی۔ان کی قلم نمائی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے ادبی رسائل کے مدیران کے لیے نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ لکھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب جس پر اظہار خیال کی جسارت کی جارہی ہے یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ یہ کہانیاں اور شاعری نہیں ہے۔ اس کتاب کے توسط سے احسان عالم نے اس طرف سوچا جس طرف اتنی شدت سے نہیں سوچاجاتا ۔مصنف نے اس جانب شدت سے سوچا ہے۔ انہوں نے بچوں کو گیت نہیں سنائیں ، نہ کہانیاں سنائی ، نہ ڈرامے دکھائے ہیں ، انہوں نے بچوں کو مخاطب کرکے کہا ہے: ’’آئو بچو, تمہیں بتائیں‘‘۔
وہ کون سے نکتے ہیں جو وہ بچوں کو بتانا چاہتے ہیں ۔ بچوں کو سمجھانا چاہتے ہیں ۔ اس سے قبل وہ اپنی ایک کتاب ’’بچوں کے سنگ‘‘ شائع کر چکے ہیں۔ بچوں کے سنگ میںبچہ بن کر وہ بچوں کی خامیاں اور خوبیاں جان چکے تھے۔ بچوں کو یہ نہیں کرنا چاہئے جو بچے کر رہے ہیں۔ بچوں کو جو کرنا چاہئے وہ بچے بھو ل چکے ہیں۔ وہ چیزیں جن پر بچوں کی توجہ زیادہ ہے۔ وہ دور جدید کے برقی آلات ہیں۔ مثلاً کمپیوٹر ، موبائل، آن لائن گیمز، ٹیلی ویژن، یہ سب وقت کی ضرورت ہوتے ہوئے بھی کثرت سے ان کا استعمال بچوں کے لیے مضر ہے ۔ جو بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔
احسان عالم بچوں کو بتاتے ہیں کہ تمہار ا بچپن سنوارنے اور اسے خوشیوں سے ہمکنار کرنے والی دنیا کی سب سے پہلی ہستی تمہاری ماں ہے۔ ماں ایک مقدس رشتے کانام ہے۔ وہ بچوں کو بتاتے ہیں کہ:
’’بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے ۔ اگر ماں صلاحیت مند ہے تو بچہ صلاحیت مند بنے گا۔ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لائق بناتی ہے اور پھر دعا گو ہوتی ہے کہ اس کا بچہ کامیاب رہے۔ ‘‘(ص: 20)
ماں کی اہمیت بیان کرتے وقت اکثر لوگ باپ کے کردار کو بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان عالم بچوں کو بتاتے ہیں کہ:
’’والد کا شفقت بھرا نرم روپ بچوں کی نشو و نما کا اہم حصہ ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ بچوں کے ماہرین یہ بات مانتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں والد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ‘‘(ص:24)
جی ہاں جس طرح اولاد ماں کے دود ھ کا قرض نہیں چکا سکتی اسی طرح باپ کے خون اور پسینے کا قرض بھی نہیں چکا سکتی۔ عموماً بچے بڑے ہوکر باپ کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں اور شکایتوں کا پٹارہ کھول دیتے ہیں ۔ تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے۔ بس پیدا کرکے یونہی چھوڑ دیا۔ ایسے بچوں کو احسان عالم نے ترتیب سے باپ کی قربانیاں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں وہ بچوں کو باپ کی قربانیوں سے متعلق بتلاتے ہیں وہاں باپ کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ قد م قدم پر بچوں کا خیال رکھیں۔ ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں ۔ ان کو نصیحت آموز کہانیاں اور نظمیں سنائیں۔
بچے کی زندگی میں اگر استاد کا کردار نہ ہو تو والدین کی نگاہ داشت کے باوجود بچے کی زندگی اور اس کا مستقبل تابناک نہیں ہوسکتا۔ وہ بچوں کو گیان دیتے ہیں، بتلاتے ہیں کہ:
’’جب استاد نہیں تھے تو دنیا میں جہالت اور تاریکی تھی۔ استاد نے اس تاریکی کو علم کی روشنی سے دور کیا۔ علم کی بدولت دنیا میں تہذیب و تمدن کی روشنی پھیلی ۔ لوگوں میں رہنے سہنے ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے کا سلیقہ آیا ۔‘‘ (ص:28)
جی ہاں ! بچوں کی زندگی سنوارنے میں استاد کا تیسرا مقام ہے۔ احسان عالم استاد کے احترام کے سلسلے میں بچوں کو بتلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک ممکن ہوسکے استاد کا احترام کریں ۔ ان سے ملاقات ہو تو سلام میں پہل کریں۔ وغیرہ وغیرہ ۔‘‘(ص:29)
وہ صرف بچوں کی تفہیم نہیں کرتے بلکہ استاد کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اچھے اساتذہ معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی محنت اور قربانی سے بہترین قومیں وجود میں آتی ہیں۔ ‘‘ (ص:30)
کتاب میں ایک سبق ’’بچوں کے لیے چند اہم ہدایات‘‘ کے عنوان سے بھی ہے جس کے تحت بچوں کی ذرا ذرا سی غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف کے مشاہدے کی آنکھ بہت تیز ہے۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں :
’’بچوں کو ناک صاف کرنے والے رومال سے جوتے صاف نہیں کرنا چاہئے۔ بچوں کو زور سے چھینکنا نہیں چاہئے۔ جمائی لیتے وقت اور کھانستے وقت منہ پر ہاتھ رکھ لینا چاہئے۔ باتیں نرم لہجے میں کرنا چاہئے۔ جب کسی محفل میں گفتگو چل رہی ہو تو اخبار یا کتابوں کے مطالعہ سے گریز کرنا چاہئے لیکن یہ ساری نصیحتیں صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بڑوں کو بھی اس طرف توجہ دینا چاہئے۔ ‘‘
زیر تذکرہ کتاب میں نہایت سلیقے سے بچوں کی عمر کے حساب سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ ایک باب نرسری کے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بھی شامل ہے۔ تین چار سال کے بچے کو اسکول میں بھیجنے کے لیے کس طرح بہلایا جائے ، پھسلایا جائے، آمادہ کیا جائے۔ یہ مضمون والدین کے لیے مفید ہے اتنا ہی نہیں اساتذہ کے لیے بھی کار آمد ہے۔ نرسری میں داخلے کے بعد بچوں کو کس طرح ایڈجسٹ کیا جائے۔ بچوں کو شرارتوں سے باز رکھا جائے۔ پڑھائی کی جانب اس کی توجہ لگائی جائے۔ یہ ذمہ داری اساتذہ پر ہفتہ دس روز تک کے لیے نہیں ہوتی بلکہ پورے سال بھر ایسے بچوں کی تربیت میں صرف ہوجاتے ہیں ۔ اساتذہ کہ ذمہ داریوں کو سمجھانے کے لیے یہ سبق کار آمد ہے۔
ڈاکٹر احسان عالم یہاں بھی نہیں رکتے، وہ اپنا پورا مشاہدہ کتاب کے بطن میں اتار کر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے مشاہدے کے ساتھ ہی ان کی فراخ دلی کا پتہ چلتا ہے ۔ وہ کسی کام میں بھی کوتاہ قدم اور کوتاہ قلم نظر نہیں آتے۔ قدم اور قلم کی یہی فراخ دلی مصنف کو عروج عطا کرتی ہے۔ ایک باب میں بچوں کو صحت مند غذائیں کھانے سے متعلق بتلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’بچوں کو زیادہ بکسٹ ، چاکلیٹ، چائو منگ ، پیجا ، برگر ، کیک وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔ پھر وہ ماں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
’’ماں کو پتہ ہونا چاہئے کہ بچے چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے کھانے کو لے کر ان کی اپنی پسند ناپسند کیا ہوتی ہے ۔ اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ان کی پسند ناپسند کے بیچ کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔‘‘ (ص:45)
اس سلسلے میں ایک نہایت کڑوی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کئی گارجین یہ شکایت کرتے ہیں کہ میرا بچہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتا جب تک کے اس کے سامنے ٹیلی ویژن نہ چلے۔‘‘ (ص:46)
لیکن اب بچوں کی یہ عادت موبائل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما دیجئے اور پھر جو چاہے کھلا دیجئے۔ اس میں پسند ناپسند کا دخل کم ہی ہوتا ہے۔
ایک مضمون کا عنوان ہے ’’مچھلی کھائیں صحت بنائیں‘‘۔
وہ لکھتے ہیں کہ غذائی نقطۂ نظر سے مچھلی کا گوشت صحت کے لیے بہت اہم ہے ، نہایت تفصیل سے مچھلی کے گوشت کے گنوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں بھی مصنف کے مشاہدے کی آنکھ سمندر کی تہوں کو چیر کر مچھلی کے پیٹ میں اتر کر اس کے گن تلاش کرلیتی ہے۔
اکثر بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے ۔ مصنف نے بچوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہرگز جھوٹ نہ بولیں۔ جھوٹ بولنا بری عادت ہے۔ جھوٹ ایک لعنت ہے ۔ جس کا برا اچر ہوتا ہے۔ یہ نصیحت بچے کو گھر میں دی جاتیہے۔ والدین کو مصنف کا ایک نہایت مفید مشورہ ہے:
’’یہ بات والدین کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ اگر بچوں کا جھوٹ پکڑ میں آجائے تو اسے سر عام چرچا کرکے شرمندہ نہ کریں ۔‘‘(ص:54)
بعد کے مضمون کا عنوان ہے ’’ہر حال میں سچ بولیں‘‘ کیونکہ بقول مصنف ’’سچ سے معاشرہ خوشگوار بنتا ہے، سچ سے معاشرے میں روشنی پھیلتی ہے۔ بچوں پر لکھتے وقت مصنف نے بچوں کے کھلونوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ وہ آگے کے مضمون میں لکھتے ہیں ۔ کھلونے بچوں کی زندگی کے لیے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس ایک سطر میں کھلونوں کی اہمیت اور ضرورت کا سارا احساس دلا دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر احسان عالم صرف ایک مصنف ہی نہیں ایک استاد بھی ہیں اور استاد بھی دور جدید کے۔ اس لیے کمپیوٹر کے استعمال کی اہمیت جانتے ہیں ،موبائل کے مضمرات سے واقف ہیں۔ ٹیلی ویژن پر مکمل قدغن لگانے کے حامی نہیں ہیں۔ ان موضوعات پر انہوں نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
ایک مضمون میں وہ کتابوں کو سچا دوست بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
’’بچے، جوان اور بوڑھے سبھوں کے لیے کتابیں بہترین دوست ہوا کرتی ہیں۔ اگر ہم دل سے کتابوں کی عزت کریں گے تو ہمارا مستقبل خوش آئند ہوگا۔ ‘‘
میرا بھی مشورہ ہے کہ زیر نظر کتاب کی صرف دل سے عزت ہی نہ ہو ، اس کی ایک ایک سطر پر والدین، استاد اور بچوں کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک جملہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ (9؍ جولائی 2023)
٭٭٭

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا