محمد معتصم باللہ، ریسرچ اسکالر، ایم۔یو، بودھ گیا
رابطہ : 9955361269
تجسّس اور تر سیل نہ صرف فطرت انسانی کا لازمی خاصہ ہیں بلکہ یہی خصوصیات انسان کو دیگر نوا میس فطرت کے بالمقابل ایک منفرد تشخص عطا کرتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں تعقل اور علم پر انحصار کے بجائے اطلاع اور معلومات کی فوری اور بے محابا خواہش نے ایک نئے اجتماعی آشوب کو جنم دیا ہے جہاں اطلاع اقتدار کے کھیل کا بنیادی آلۂ کار بن گئی ہے۔ اب اطلاعاتی ٹکنا لوجی سے کسبِ فیض کر کے عالمی سطح پر ایک متجانس کے خواب کو اب بڑی حد تک شرمندۂ تعبیر کر لیا گیا ہے۔ اطلاعاتی ٹکنا لوجی اور کمپیوٹر کے حوالے سے صورت پذیر ہونے والا معاشرہ اصلاًمابعد صنعتی معاشرہ ہے جسے ماہرینِ بشریات، عمرانیات اور اقتصادیات نے میڈیا معاشرہ کا نام دیا ہے۔ اس عہد کا شناس نامہ خارجی اور داخلی ہر دو سطحوں پر ذرائع تر سیل کا نفوذ ہے۔ ہمارے تمام اعمال وافعال ذرائع ابلاغ کی فراہم کردہ اطلاعات پر منحصر ہوتے ہیں۔ حُسن و قبح اور ردو قبول کے فیصلے ذرائع ابلاغ علی الخصوص ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ کے رہینِ منت ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کی بنیادی اقدار اور رسومیات کا تعین بھی ذرائع ابلاغ کرنے لگے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ تیو ہاروں اور تقریبات کا انعقاد یا تو مذہب یا پھر معاشرتی رسومیات اور تہذیبی روایات کا تابع ہوتا ہے۔ تا ہم اب ایسے تیوہار بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں جن کی اشاعت و ترویج ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اساس حقیقت ہی اصل حقیقت بن گئی ہے۔ Media Generated Events نے روایتی تقریبات پر سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے۔ سینٹ ویلینٹائن ڈے، مدرس ڈے، فادرس ڈے وغیرہ اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہیں۔
میڈیا کا لفظ اب ایسا عام ہو گیا ہے کہ اس کی تشریح و تعبیر کی چند اں ضرورت نہیں ،لیکن یہ عام سا لفظ اپنے اندر معنی و مفاہیم کے اتنے جہات رکھتا ہے کہ اس کو سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں رہا۔ میڈیا یا صحافت کے حوالے سے روایتی قسم کے تعریفیں اور تعبیریں نہ صرف یہ کہ معنوی اعتبار سے بدل رہی ہیں بلکہ میڈیا خود تکنیک اور پیشکش کے اعتبار سے بھی کافی حد تک بدل چکا ہے۔ میڈیا کی یہ تبدیلی ایک طرف ترقی کی علامت ہے تو دوسری جانب میڈیا کے بڑھتے اثر ور سوخ کے سبب اس کے مثبت اور منفی جہات پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کی صحافت کے مقام اور اس کی نوعیت کے سلسلے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ جمہوری ممالک میں یہ ایک اہم ستون کی مانند ہے۔ ہر جمہوری ملک میں صحافت کو ایک خاص مقام حاصل ہے بلکہ اب تو صحافت نے اتنا اثر ورُسوخ قائم کر لیا ہے کہ حکومتوں نے بھی اپنی دفاع کے لیے اس کی سر پرستی شروع کر دی ہے۔ صحافت کی اس ہمہ گیریت اور دُنیا پر مرتب ہونے والے اس کی اثرات کے حوالے سے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ اسے کیا نام دیا جائے؟ عام طور پر صحافت کا نام آتے ہی ذہن میں ایک ایسے ادارے کا خاکہ ابھرتا ہے جو عوام سے حاصل کردہ خبروں کو عوام تک پہنچائے۔ اس تر سیلی عمل میں صحافت جدید دور سے قبل ایک سماجی ادارے کے طور پر مقبول ہوئی مگر جس سُرعت کے ساتھ دنیا نے ترقی کی ،صحافت بھی دوش بدوش بلکہ کہیں کہیں اس سے بھی آگے بڑھ کر ترقی کرتی رہی۔ ترقی کے اسی عمل نے صحافت کو سماجی ادارے سے منفعت بخش شعبے میں تبدیل کرنا شروع کردیا، جس سے صحافت کو ترقی تو ملی مگر کچھ نقصانات بھی ہوئے۔ سماج کے مختلف حصوں سے صحافت پر انگلیاں اٹھنے لگیں اور بعض میڈیا ہاؤسز نے اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے بھی صحافت کا استعمال کیا ،لیکن ان چند منفی پہلوؤں کے باوجود میڈیا نے گزرتے وقت کے ساتھ سیاست اور سماج کے ساتھ اپنا رشتہ نہ صرف مستحکم کیا بلکہ اپنے قد کو بھی بلند کیا اور سچائی یہ ہے کہ صحافت موجودہ معاشرے میں سب سے زیادہ طاقت ور میڈیم اور ادارے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ موجودہ دور کے میڈ یانے ملک اور سماج کی تشکیلِ نو میں کار ہائے نمایاں انجام دیا ہے اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔ میڈیا دُور دراز کے لوگوں کو باخبر رکھنے کا جو کام انجام دیا ہے وہ بھی قابلِ تحسین ہے ،کیونکہ اسی باخبر ی نے ترقی کی راہیں ہموار کی ہیں اور بدعنوانیوں کو دُور کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مُلک کی کئی اہم بیداری مہم کی کامیابی کا سہرا میڈیا کے سر ہی جاتا ہے۔ میڈیا کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو محض ایک پیشہ یا کام نہ ہو کر سماجی اصلاح کی ایک قابلِ قدر کوشش ہے۔ ایک صحافی کا یہ نصب العین ہے کہ وہ سماج کو باخبر رکھنے اور حقائق سے پردہ اٹھانے کا اعلیٰ مقصدرکھتا ہو ،یہ اسی وقت ممکن ہے جب جدید میڈیا کی تمام نزاکتوں، باریکیوں اور جہتوں سے صحافی واقف ہوں اور ان پر گہری نظر بھی ہو کیونکہ میڈیا میں آئے دن تبدیلیاںآرہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ بالخصوص جدید ٹکنا لوجی میڈیا کو ہر اعتبار سے متاثر کر رہی ہے۔ جدید ٹکنا لوجی نے دوسری زبانوں کی صحافت کی طرح اردو کو بھی متاثر کیا ہے اور اردو میڈیا بھی بدلتے وقت اور حالات کے مطابق ٹکنالوجی کو اپناتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جہاں آج میڈیا نے اخبار و رسائل کی صحافت سے ہوتے ہوئے ٹی وی، انٹر نیٹ اور برقی صحافت تک کا سفر پورا کیا ہے وہیں میڈیا نے نئی نئی شکلیں بھی اختیار کر لی ہیں اور اب یہ سوشل میڈیا، بلاگ میڈیا، یو ٹیوب میڈیا اور موبائل میڈیا کے روپ میں بھی ہمیں نئے جہانوں کی سیر کرا رہا ہے۔ دیگر زبانوں کی صحافت نے جس طرح ترقی کی ہے اردو میڈیا نے بھی خاطر خواہ کامیابی کی منزل طئے کی ہیں اور مُلک کے تمام سیاسی و سماجی انقلاب میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔
تقسیمِ ہند نے اردو صحافت کو گہری چوٹ پہنچائی، اردو اخبار و رسائل اس ہولناک منظر کے گواہ بنے۔ انہوں نے انسانی رشتوں کے درد کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔ انسانوں کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھا۔ بھولے بسروں کو ملانے کا کام کیا۔ نفرت کی آندھی نے ایک طرف قبرستان و شمشان کو لاشوں سے بھر ا تو دوسری طرف زبانوں کے ہرے بھرے درختوں کو پت جھڑ میں تبدیل کر دیا۔ مگر صحافت نے اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا۔ ان حالات میں ادبی صحافت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ وسائل کی کمی کے باعث اردو صحافت پیشہ ور صحافیوں سے محروم ہوگئی۔ غیر تربیت یافتہ مدارس کے فارغین یاکم پڑھے لکھے لوگ اس کا مقدر بن گئے۔ نتیجہ کے طور پر اردو کے اکثر و بیشتر روزنامے اور ہفت روزہ جذباتی یا زرد صحافت کا نمونہ بن گئے۔
آج دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ترقی پذیر طاقتیں بھی صحافت کو اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات نے جو اضطراب پیدا کر دیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے میں وہ طبقہ پیش پیش ہے، جو کسی نہ کسی طور پر اقتدار سے جُڑا ہوا ہے اور کمزوروں پر مظالم ڈھانا جس کے لیے آسان اور لقمۂ تر ثابت ہوتا ہے۔ جھوٹ تو اتنی شدت کے ساتھ نشر کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ اس کو سچ سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ ٹی وی والے (دو ایک چینل کو چھوڑ کر ) وہی خبریں نثر کر رہے ہیں، جو بر سرِ اقتدار حکومت عوام کو دکھانا چاہتی ہے، اخبارات (چند کو چھوڑ کر) وہی خبریں، مضامین اور تبصرے وتجزیے شائع کر رہے ہیں، جس سے ہم اور آپ نا واقف نہیں ہیں۔ میڈیا جو ایک صنعت ہے، بڑے بڑے صنعت کاروں کی اس پر اجارہ داری ہے، یہ وہی سودا فروخت کرے گا، جو اس وقت بکاؤ ہے۔ یہ صورت حال گزشتہ صدی کی آخری دو دہائی سے پوری دنیا میں دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہے۔ گویا ’آزادئی اظہار رائے‘ اب ایک خواب کی طرح ہے۔ اب جس تیزی سے صحافت کے اصولوں کی پامالی ہونے لگی ہے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے، یہ آزاد صحافت کے لیے سنگین نقصان کے مترادف ہے۔
2021ء میں رپوٹر س ود آؤٹ ہارڈ رس نے 180 ممالک پر مشتمل پریس فریڈم انڈیکس تیار کیا ہے۔ اس میں وطنِ عزیز بھارت کو 150ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ 2013 میں ہندوستان کی رینکنگ 111 تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے ایسی رینکنگ نہایت افسوس ناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں صحافیوں کو آزادی کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرنے نہیں دی جارہی ہے۔ انہیں مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس میں سیاسی دباؤ، دھمکی اور ان کے خلاف تشدد شامل ہے۔ اس تشدد میں پولیس، انتظامیہ کے شامل ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو اپنی جان کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ 2020ء میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران چار صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ صحافیوں کو ہر اساں کیے جانے کے واقعات تو آئے دن دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ اس سے مُلک کا کوئی حصہ اچھوتا نہیں ہے۔ اردو صحافت کا یہ معکوسی سفر بہت تشویشناک ہے۔ اس تشویش کے ازالے کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو حالات اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔ یہ صحافت کا داخلی چہرہ ہے، جو لایعنی سمتوں میں سفر کر کے اپنی منزل کھو چکی ہے اور اپنے امتیازی نشانا ت سے محروم بھی ہو چکی ہے۔ یہی موجودہ صحافت کا بدلتا منظر نامہ ہے۔
بہر حال ناساز گار حالات میں بھی اردو صحافت نے جس قدر سخت جاں ہونے کا ثبوت دیا ہے اور قدم آگے بڑھائے ہیں، صحافت پر چھائے سیاہ حاشیے سے اسی نور کی کرنیں پھوٹیں گی۔ اردو صحافت کا خمیر جس مٹی سے تیار ہوا ہے، اس میں ایثار، جانفشانی، راستی، حق گوئی، بے باکی اور اپنی فکر و نظر کے تحت کچھ کر گزرنے کے روائتی اور وراثتی جذبے کا دخل ہے، اس کی کامیابی کا راز اُن اخباروں کی صحافت شناسی، زمانہ آشنائی اور تجارتی اصولوں کی پہچان ہے۔ لہٰذا ہندوستان کی اردو صحافت کو آج اِن ہی اوصاف کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
حوالہ:۔ (۱) خبر نگاری مرتب شافع قدوائی، امیر علی لائربری ، دہلی (۲) اردو نثر یات مرتب پروانہ ردولوی، نیشنل لائبریری، دہلی
(۳) اردو صحافت کا مزاج (مجموعہ مضامین) مصنف ڈاکٹر منور حسن کمال ، اپلائڈ بُکس ، دہلی 2020ء
٭٭٭