نظم  . ۔۔۔۔۔(سماج دچھن)۔۔۔۔۔

0
0

۔۔۔جگدیش ٹھاکر (پرواز)۔۔۔
ساکنہ لوپارہ  .تحصیل دچھن  ضلع کشتواڑ
رابط: 9596644568

مفلس عوام نے کئی موسم دیکھے ہیں
کہیں شہنایاں تو کہیں غم دیکھے ہیں
مگر ابتک باوفا ہندو مسلم دیکھے ہیں
عوام دچھن میں ایسے کرم دیکھے ہیں
اک ستم اور سب چشمِ نم دیکھے ہیں
نہ ایسا بھائ چارہ کہیں ہم دیکھے ہیں۔

نو (۹) پنچایت پر مشتمل یہ گلستان ہے
فرض ہے دودھ  و بھای چارہ پہچان ہے
یہاں خود برہما جی بیٹھے نگہبان ہے
چار سو اک ساتھ ہوتی پوجا و ازان ہے
ہے عجب نرالی مگر غضب  شان ہے
جو بوئےکفر یہاں آدم نہیں حیوان ہے

آو تم بھی کرو دید اس گلستان کے
ہر جگہ دیکھو چمتکار بھگوان کے
پاو موقعہ ترِسندھیا کے اسنان کے
جہاں مٹجاتے ہیں پاپ ہر انسان کے
سیر تفریح کرو کھیت کھلیان کے
تھوڑا رستے میں ہیں کانٹے چٹان کے

چلو ہم بھی  چلیں ساتھ مل  کے یہاں
کریں ہال گاوں کی زندگی کے بیاں
پہلے ہی گاؤں نے باندھا ہے سماں
ڈھول نگارے اور بین باجے جہاں
چھوٹی بستی کو کرور کہتے یہاں
لوگ مفلس مگر ہیں دل کے جواں

جو ہمارے قدم تھوڑا آگے بھڑے
لوگ  دیکھے کتار میں بھاگے کھڑے
ہم کو لگنے لگا وہ ہیں انتظار میں
تھے کھڑے وہ سورج کے دیدار میں
تھی موسیقی ہواؤں میں کمال کی
قلم مشہور اکھالہ کے سوہن لال کی

اکھالا سے سوندر آئی کئی بستیاں
سفر کم کرے چاے کی چسکیاں
کہاں اب رہی سفر کی سسکیاں
اب تو آباد یہاں ہیں سبھی بستیاں
تھمنے کو اب ہیں چناب کی روانیاں
لکھنی باکی  ہیں اب یہاں کہانیاں

علاقہ دچھن کی سوندر شان ہے
دو  فرقے  یہاں مگر اک جان ہے
ادب و قلم کی الگ پہچان ہے
کبر کلنو و ٹنڈر اسکے پران ہے
ہر بشر یہاں پر مُطلق العنان ہے
زمانہ سازی میں عالم بتان ہے

لہورنا  گاؤں خود میں اک مثال ہے
اس کو نظم بند کرنا لگتا  محال ہے
یہاں بستا  خود شاعر  بے مثال ہے
پڑا نہیں مگر قلم سے پیرزال ہے
لکھتا غافل مگر استاد کمال ہے
نمازِ جمہ  سوید کی پرجلال ہے

ہے جنک پور راجہ جنک  کی نگر
کبھی اگتا تھا سونا مٹی سے ادھر
دامن میں اسکے عظیم تعلیم گھر
جہاں سے پڑھ کر نکلے ڈاکٹر و افسر
نام اسکا ہے ایچ ایس ایس پنجدھر
سامنے اس کے دلگوٹ کا مندر

منظر خوش تر سے مائل ہو ہر راہ گزر
یہاں سے آتا ہے  سوندر تا لوپارہ نظر
دل فریب یہاں کے   ساون  کا منظر
چار سو نظر آیے مندر ہی مندر
یہاں بھوکا نہ رہے کوی راہ گزر
بس دعا ہے کہ آباد رہے یہ نگر

سیر دچھن کا اآنے کو اآخر مقام ہے
پہنچ کر سرچھی ہونے لگی شام ہے
دل جواں پر جسم حسرتِ آرام ہے
نشاں مرج الجبرین کا یہ مقام ہے
رونق دن بھر مگر سونی شام ہے
سفر پورا نہ ہو تو آرام  حرام ہے

کیاڑ درہ کی ایک عجب شان ہے
مہماں نوازی لوگوں کا ایمان ہے
کمسن چہروں پہ ہونسلوں کی اڑان ہے
دیکھنے کو نہ ملتی یہاں تھکان ہے
یہاں گھر گھر میں رہتا کسان ہے
چھچھہ گنین و سڑنو اسکی شان ہے

تذکرہ باقی رہا  دچھن  کے سرتاج کا
گاؤں لوپاہ  کرے عکاسی ہر سماج کا
نشا طاری ہے جوانوں میں  پرکاج کا
تندر پرنگس ترونگی حصہ اس سوراج کا
برہمن بھٹپورا بنا رہبر ہرسماج کا
لال چاول  ہے پہچان گھر کے اناج کا

معاف کرنا مجھے اگر کچھ اچھوتا رہا
لکھتے لکھتے نشاں دل کے دھوتا رہا
تفریح جنت میں مصروف ہوتا رہا
میں لڑکپن کی یادیں  سنجوگتا رہا
کیوں پرواز  تنہا سفر میں روتا رہا
لکھتے لکھتے نشاں دل کے دھوتا رہا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا