مصنفہ و مترجم ’رضیہ دلشادؔ سجاد ظہیر‘

0
0

ڈاکٹر جی۔ایم۔ پٹیل ،پونہ رابطہ : 9822031031
رضیہ سجاد ظہیر اُردو کی سب سے کامیاب لیکن سب سے کم مشہور اور تسلیم شدہ مصنفین میں سے ایک تھیں۔ایک ناول نگار ،افسانہ نگار، مترجم اور کمیونسٹ کارکن اور ترقی پسند مصنفہ تھیں۔۱۹۶۶ میں’’ نہرو ایواڑد جیتا ۔ بچپن ہی ‘’ پھول ‘ ، ’تہذیبِ نسواں ‘ اور ’عصمت ‘ جیسے معروف جرائد میں آپ کے افسانے باقا ئدگی سے شائع ہوتے تھے۔ ۱۹۵۳’ میں’ سر شام ‘ ، ۱۹۵۴ میں ’ کانٹے ‘ ،۱۹۶۳ میں ’ ِ سمن ‘ اور اللہ میگھ دے‘ ، ۱۹۸۱ میں ’ زرد گلاب ‘ افسانوں کا مشہور مجموعہ ۔علاوہ ازایں ۱۹۸۴ میں ’ اللہ دے بندہ لے‘ ۔ ۱۹۵۴ میں ’ نہرو کا بھتیجا ‘ ’ اور ۱۹۷۳ میں’ سلطان زین العابد ین بادشاہ‘ بچوں کے لئے لکھیں۔ ۱۹۵۴ میں نقوش زنداں‘( خطوط رضیہ) ، ۱۹۵۵ میں سجاد ظہیر کی پاکستان جیل سے رہائی ۔ زرد گلاب رضیہ سجاد ظہیر کی کامیاب ترین افسانوی مجموعوں میں سے ایک ہے۔کسی مصور نے قلم کے زور سے اپنے تخیل اور تصورات سے ‘ زرد گلاب ‘ کی تنہائی کو آشکار کیا اور اپنی محبت کی درد بھری کہانی کی بہترین تصویر کشی اور ایک فنکارہ کی حیثیت سے اس محبت کی کہانی کے سوزاور مجروح جذبات کی گہرائیوں سمجھتی ہوئیں استعارات اور اشاروں سے ان کہانیوں میں ایک مقنا طیشی کشش پیدا کی جس سے قاری بیحد محظوط ہو ئے۔ یہی خوبصور ت تحریر ،انداز بیان ، جسے اختصار ،تاثر اور اثر ناقابل تردید ہے۔ زرد گلاب کے بہترین اصل انگریزی ترجمہ نے رضیہ سجاد کو اسکی قلم کاری کی وسعتوں کو آسمان کی بلندی بخشی۔
رضیہ ،۱۵، اکتوبر ۱۹۱۸ کو اجمیر ،راجستھان ایک تعلیم یافتہ ترقی پسند خاندان میں اپنی آنکھیں کھولیں۔والد اجمیر اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے۔ رضیہ نے الہ آباد یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کیا ۔۲۰ سال کی عمر میں ایک شاعر اور کمیونسٹ کارکن سجاد ظہیر سے شادی ہوئی جو’ انجمنِ ترقی پسند مصنفین ‘ بانیوں میں ایک تھے۔ذہین اور قابل ماہر قانون بھی تھے لیکن خود کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے قانونی تربیت حاصل نہیں کی اور شادی کے فوراََ بعد انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور انگریزوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور دو سال تک قید میں رہے۔
۱۹۴۲ سے ۱۹۴۷ میں رضیہ اور آپ کے شوہر بمبئی میں سجاد کی بہن کے پاس اپنی ڈختر نجمہ اور نسیم کے ساتھ، ۹۶، والکیشور روڈ ،مالابر ہلز، بمبئی میں مقیم رہے جہاں دونوں سجاد اور رضیہ شاعروں ،ادیبوں ،نقادوں اور ثقافتی میدان میں شعبے میں مصروف رہتے۔ہفتہ وار” PWA soiress” زیر اہتمام اپنی سیاست کو بنیاد پرست بنانے میں انجمن ترقی پسند صنفین کے زیر اثر و رسوخ کو تسلیم کیا۔یہ ایک ایسے وقت کرنا تقریباََ فطری بات تھی جب اردو میں لکھنا اپنی بہترین انقلابی سطح پر تھا۔نو تشکیل شدہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین نے سب سے زیادہ تخلیقی ارود شاعروں اور ادباء کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ ۱۹۳۶ میں لکھنؤ میں منشی پریم چند کی صدارت میں منعقدہ ایک کونسل میں ملاقات ہوئی ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی تحریک آزادی کی جدوجہد کا ایک بڑا ستون تھا۔تاریخ گواہ ہے’ انجمنِ ترقی پسند مصنفین ‘ اور ’ تہذیبِ نسواں ‘ سے پہلے ہی ۱۸۹۸ میں لاہور میں اردو کا ایک اور ہفتہ وار محمدی بیگم کے زیرِ مدیر ی میں شروع ہوا تھا،اس میں خاتوں مدیرہ نے مسلم مردوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ِ ثانی کی ترغیب دی اور خواتین اور مردوں دونوں کو اسی طرح کے مسائل اپنا مقالہ لکھنے کی دعورت دی۔ قرۃ العین حیدر کی والدہ ’ نذر حیدر ‘ نے ۱۹۲۱ میں قارئین کو غیر ملکی کپڑوں کو ترک کرنے اور کھادی میں ملبوس ہونے کو ترجیح دیا۔ماہنامہ ’’ خاتون ‘‘رسالہ علی گڑھ ۱۹۱۴ تک شائع ہوتا رہا،اس کے بعد ’’ عصمت ‘‘ ۱۹۰۸ میں دہلی سے شائع ہوا۔۱۹۴۰ میں اپنے شوہر سجاد کی طرف سے جو تعاون حاصل ہوا اس کی مطابقت سے ترقی پسند مردوں کو کافی سنجیدگی سے خواتین کے مسائل، مصنیفین کو حقوق اور جنس کی سیاست تک کے موضوعات پر بات کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
مخصوص اور متعین حالات میں معاشی ،گزر بسر اور روزی رزق کی تنگی اور تلاش معاش میں ۱۹۴۷ میں لکھنؤ آئیں اور ۱۹۴۸ میں اپنے صبر آزما جدوجہد کے آغاز
’’ کرامت گرلز کالج میں طالبات کو تعلیم اور انہیں تحریر اور ترجمہ کرنے کی تربیت سے کیا ۔ تقریباََ ۴۰ کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ۔Bertold Barecht’s life of GAliloe’‘ کا اردو میں ترجمہ کو خوب سراہا گیا اور کافی مقبول بھی ہوا۔ساہتیہ اکادمی کی طرف سے شائع شدہ ’سیا رام شرن گپتا کی ناری‘ ،’ عورت ‘ نام سے شائع ہوئی اور’ ملک راج آنند کے سات سال۹۶۲‘۱ کا ترجمہ کیا ۔شاعر مجاز ؔ لکھنؤی پر ایک ناول کام پر جاری رکھا جو ادھورہ ہی رہ گیا۔اپنی ادبی کوششوں کے ساتھ ساتھ ،اپنے شوہر کی تحریروں کی تدوین اور نقل بھی کیں۔
رضیہ کی زندگی میں جھانکا جائے توانکی سوانح خود ایک بہترین افسانہ ہے۔قدامت پسند اجمیر میں اپنے ابتدائی سالوں میں جہاں خواتین سر اور سینے پر دوپٹہ

لپیٹنالازمی تھا،اس سخت ترین مذہبی روایتی تقاضوں کے ماحول میں کھُلی فضاؤں میں جھانکنا بھی منع تھا اس ماحول میں ’’ دلشاد ؔ ‘‘ تخلص کا استعمال کرتی ہو ئیں خفیہ طور پر اپنے خیالات کو کاغذ پر اتارنا یہ اپنے آپ میں جرأت مندی و ہمت کی مثال تھی۔والد محترم نے آپ کے لکھنے کے ادبی شوق کو جان گئے اور مراز غالب کا دیوان بطور تحفہ مطالعہ کے لئے دیا۔ پہلے آپ سہم گئیں کیوں جانتی تھیں مرزا غالب کے کلام کو سمجھنا بے حد مشکل تھا۔ لیکن بعد میں بے حد مطمئن و خوش ہوئیں، مرزا الب ’ کے دیوان میں پوشیدہ چنندہ اور بہترین الفاظ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا یہی تحفہ انمول ثابت ہواجسے بہ خوشی قبول کرلیا۔
۲۱ سال کی عمر میں اودھ کے چیف جسٹس کے فرزند ‘ سجاد ظہیر ‘ سے بیاہ کے بعد’ منھ دکھائی‘ کی رسم میں ایک چائے کی کیتلی کے ساتھ پوز دیا،جوغیر شرعی تھا جو روایتی رسومات ایک خوش کن دھوکا ۔خاوند کا رجعت پسند سماجی طریقوں کے رومانس کو نظر انداز کرنا تھا۔ایک نئی نویلی دلہن ٹرین کے ڈبے میں اپنے چہرے پر لمبا گھونگھٹ لئے سر کو جھکا کر ، شوہر کے خوبصورت پیروں کو ہی دیکھ سکتی تھیں جس کے ساتھ زندگی گزارنی تھی،رومانوی اقدام کے لئے پر جوش انداز میں انتظار کرتی ہوئیں اس وقت مایوس ہوئیں جب خاوند نے حقیقت میں لیٹنے اور سونے مدد کی۔لیکن اگلی صبح رضیہ لکھنؤ کے قریب پہنچیں تو رضیہ برقع کے لئے اپنے قدم بڑھائے تو خاوند سجاد نے آپکو برقع کو چھونے سے بھی منع کیا اور کمپارٹمنت سے باہر لے جانے میں اپنے ہاتھوں کا سہارا دیا۔اس لمحہ اپنے خاوند کے احترام ،عزت اور محبت ان قلب کی گہرائی میں سما گئے اور یہیں سے راستے میں آنے والی روایتی مشکلات میں دونوں نے مشترکہ محبت اور احترام کی زندگی کا آغاز کیا۔وزیر محل کے اپنے کمرے میں سجاد نے مجھے اپنی بانہوں میں تھامے اس خصوصی کمرے کی طرف لے گئے ،ا ن کی محبتی بانہوں کے بندھن سے آزاد ی اب جیسے ناممکن تھی ،صرف اور صرف ایک مضبوط خود مختار عورت کو اپنے شریک حیات کے وسیع دامن میں پناہ ملی ’ذہِ نصیب ‘۔جب سجاد ظہیرکو برطانوی حکام نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کیا ،اس احساس نے کہ رضیہ دوسروں کے ماتحت ،رحم و کرم کی زندگی گزارنے کے خوف سے سجاد نے رضیہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے الہ آباد بھیج دیا۔یونیو رسٹی میں داخلہ اور سنٹر لائبریری میں کتابوں کے ارد گرد بیٹھے اور کتابوں کے مطالعہ کی خو شی ناقابل بیان تھی۔ لائبر یری میں کتابوں پر جب نظریں جرمن فلسفی اور ماہرِ اقتصاد کارل مارکس کی ’’ داس کیپٹل ‘‘پر پڑین تو خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہا ۔لائبریری کی کشادہ کھڑکیاں، بلند وار وسیع دروازوں سے روشن ادب کی فرحت بخش ،تازہ اور خوشگوار صاف ہواؤں نے روحانی تسکین بخشیں۔ ساحر ؔ لدھیا نوی ایک انقلابی شاعر کوبے نتہا سنجیدگی اور ذوق سے اسکا مطالعہ کیا۔ اپنی تعلیم پر مرکوز رہیں ۔
سجاد حیدر الہ آباد واپس آئے اوردونوں کی ازدواجی زندگی شروع کی۔ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ِہند اور فرقہ وارانہ فسادات کے المیہ سے رضیہ لرز گئیں، دونوں کی خوشحال زندگی کو زمانے کی نظر لگ گئی ،سجاد تقسیم کے بعد بلوچستان میں جیل میں قید رہے اور کا خاندان بکھر گیا ٹوٹ گیا۔ رضیہ وزیر محل سے نکالی گئیں اور اپنے شوہر کے آؤٹ ہاؤس میں بسیرا کر لیا اور اپنی چار بیٹیوں کی ذمہ داری کے بوجھ تلے وہ دبتی چلی گئیں۔کچھ عرصہ بعد سجاد ظہیر کی ملاقت کے لئے بلوچستان چلی گئیں۔سجاد جیل کے سلاخوں میں قید تھے ،انہوں نے مشورہ دیا کہ بلوچستان منتقل ہو جائیں۔ رضیہ نے غصہ سے جواب دیا۔’’کبھی نہیں ،میں کبھی بھی ایسے ملک میں نہیں رہوں گی جس کی بنیاد مذہب پر ہو اور لاکھوں بے گناہوں کی لاشوں کے ڈھیر پر رکھی گئی ہو‘‘،اس کے بعد لکھنؤ واپس آگئیں ۔اپنے شوہر کی رہائی کے لئے پاکستانی حکام سے التجا اور خطوط لکھتی رہیں اور آخر کار وہ کامیاب بھی ہوئیں اور جب خاوند محترم سجاد ظہیر لکھنؤ میں آپ میں شامل ہوئے تو زندگی نے پھر ا یک خوبصورت موڑ لے لیا۔لیکن یہ خوشی قلیل رہی کیوں کہ پارٹی نے انہیں دہلی بھیج دیااور سجاد ظہیر کو اپنی پارٹی سے وفاداری دیگر تمام حوالوں سے بالاتر تھی۔۱۹۶۰ کے سیلاب نے آپ کو اپنا شہر لکھنؤ چھوڑ کر دہلی منتقل ہونے میں مجبور کیا اور دہلی دونوں نے اپنی ازدواجی زندگی کو جاری رکھا۔
مشہور داکارہ اور ہدایت کارہ ’نادرہ ببر‘ جو رضیہ ظہیر کی دُختر تھیں انہوں اپنی والدہ محترمہ کو اپنی پر جوش ،متاثر کن آواز میں آپکی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو ایک ڈرامہ کی صورت ناظرین کے حوالے کیا۔تاہم کسی کو عدم اطمینان کا ایک خاص احساس باقی رہ جاتا ہے ۔اگرچہ رضیہ کی ایک دختر نادرہ ببر نیشنل اسول آٖ ڈرامہ میں شامل ہوئی جنہیں ۲۰۰۱ میں ’’ سنگیت ناٹیہ اکادمی اعزاز ‘‘ سے نوازہ جاتا ہے لیکن دوسری دختروں نے کی داستاں کیا؟ اس کا کہیںذکر نہیں ملتا۔نیز اس ناقابلِ تسخیر ، بے مثال خاتون ادیبہ کی تحریرو ں کی ایک جھلک ناظرین اور قارئین کو آپ کے ذہن کی گہری سمجھ عطا کی۔اتر پردیش ساہتیہ اکادمی ایواڑد اور سویت یو نین نہرو ائوارڈ سے نوازیں گئیں۔۱۸ ستمبر ۱۹۷۹ کو دہلی میں انتقال اور جامعہ ملیہ اسلامیہ قبرستان میں سپرد خاک ہوئیں ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا